• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت میں بیٹھنے کے بعدپہلا مسئلہ فنانس کا پیش آئے گا ۔جب کہ حالت یہ ہے کہ ملک قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔چھ ماہ میںپاکستان کو معاشی طور پر خود مختاربنانے کی بات کی گئی ہےاورکہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے،لیکن جو معاشی صورتِ حال ہے اس میںآئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کام نہیں چلے گا،یہ پہلی ایسی حکومت ہوگی جو اندرونی اور بیرونی مسائل میں دبی ہوئی ہوگی۔ انہیںپورے اکنامک اسٹرکچر کو از سرِنو ترتیب دینا ہوگا

سردار اشرف خان

اربابِ اختیار اپنا علاج کرانے بیرون ملک جاتے ہیں اس پر پابندی لگائی جائےتاکہ وہ اپنا علاج اپنے ملک میں کرائیں اس سے ممکن ہے کہ اسپتالوں کی حالت بہتر ہو جائے،شعبۂ حادثات کو عوام کے لیے مفت ہونا چاہئے،بیسک ہیلتھ یونٹ اور پرائمری ہیلتھ کیئر پر کام کرنا چاہئے۔اس سے ہم آنے والے دنوں میںوبائی امراض سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں

ڈاکٹر قیصر سجاد

ہمارے یہاں سب سے بڑا ایشو قانون کی پاسداری ہے۔قوانین موجود ہیں مگر اس پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔طاقتور طبقہ قانون کی پاسداری نہیں کرتا۔جن کے پاس پاور ہے وہی قانون کو توڑتا ہے۔سب سے زیادہ قوانین سڑک پر توڑے جاتے ہیں۔پروٹوکول عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں،قوانین سارے پہلے ہی بنے ہوئے ہیں اس پر عمل درآمد ضروری ہے

ضیا احمد اعوان ایڈووکیٹ

خارجہ پالیسی میںپہلےہمیں پڑوسی ممالک کی طرف توجہ دینی چاہئے۔افغانستان، ہندوستان،ایران کے ساتھ جتنی جلدی بات چیت شروع ہوجائے اتنا ہی اچھا ہے،امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا بہت ضروری ہے۔اس حکومت کو چاہئے کہ سینئر ڈپلو میٹ کو وہاں بھیجے۔بھارتی لابی وہاں پر بہت ایکٹو ہو تی ہیں،پاکستانی لابی کو بھی سرگرم ہونے کی ضرورت ہے

ڈاکٹر خالدہ غوث

فرزانہ روحی اسلم

تبدیلی پسند عوام نے اس بار یعنی ۲۰۱۸ کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سر پہ فتح کا تاج سجا دیا ہے۔تاہم ڈولتی ڈگمگاتی سیاسی صورتِ حال پی ٹی آئی کے سر پہ سجےتاج کو استحکام نہیں بخش رہی۔آزاد امید واروں کی تحریکِ انصاف میںشمولیت کے لیے ڈالے ہوئے گھیروںکے دائرے بھی کمزور رسی کی طرح محسوس ہورہے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کی مجبوریوں اور پی ٹی آئی کی ضرورت نے جہاں انھیں ایک دوسرے کی قربت عطا کی ہے وہاں متحدہ مجلسِ عمل کی نئی حکو مت کو متزلزل اور کمزور کرنے کے لیے اپنے دیرینہ وطیرے زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ آزاد و اتحادی اراکین کی نیتوں کا احوال اور آئندہ حالات کے مطابق کھیلے جانے والے پتے ملک کے سیاسی موسم کی پیشن گوئی تو بعد میںکریں گے البتہ یقین و بے یقینی کی ایسی فضا میںعوام خود کو بہلا وے تودے ہی رہی ہے ۔خواص کے اذھان بھی’’ اگر مگر ‘‘جیسی صورتحال کا سامنا کیے بیٹھےہیں ایسے میں عمران خان کے سو دن کے وعدے اور ان سے وابستہ عام آدمی کی توقعات،امیدیں اور ان کے سامنے موجود اندرونی و بیرونی مسائل کے سر اٹھائے پہاڑ اہلِ علم و اہلِ فکر و دانش کو تشویش میں مبتلا کیے ہوئے ہیں ۔ جب کہ عوام خوشگوار سپنے بننے میں مصروف ہیں۔ متوقع وزیرِ اعظم کے وعدوں سے قطع نظر، وہ اپنے پارٹی منشورپر کہاںتک عمل کریں گے؟ ان کو کن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا؟ان سے کس طرح نبرد آزما ہونا ہوگا؟اور یہ کہ انہیں کیا پالیسی اپنانی چاہئے؟تاکہ عوام کو آسانیوں کے ساتھ، اپنے خوابوں کی تعبیر بھی مل سکے اوروعدہ محض وعدہ نہ رہے۔چند اہم نکات مثلا معیشت ،صحت ،قانون ،حقوقِ انسانی،بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے متعلقہ شعبے کےماہرین سے گفتگو ذیل میں شامل ہے۔

سردار اشرف خان

(بزنس مین/اکانومسٹ)

ہم ان سے توقعات ہی لیے بیٹھے ہیں جب کہ یہاں مسائلوں کے دفتر کے دفتر موجود ہیں۔ متوقع فنانس منسٹر نے پہلے ہی کہہ دیا کہ ہم سو دن میں کچھ نہیں دے سکتے۔اس طرح سو دن کا ایجنڈا تو پیچھے چلا گیا۔حکومت میںبیٹھنے کے بعدپہلا مسئلہ فنانس کا پیش آئے گا ۔جب کہ حالت یہ ہے کہ ملک قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔چھ ماہ میں پاکستان کو معاشی طور پر خود مختاربنانے کی بات کی گئی ہےاورکہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے،لیکن جو معاشی صورتِ حال ہے اس میںآئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کام نہیں چلے گا۔اکنامک انڈیکیٹر آپ کے حق میں نہیں ہے۔حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی پہلا دن مشکلات سے بھرا ہو گا۔اول تو یہ کہ حکومت مستحکم نہیں ہوگی کیوں کہ آزاد اراکین کو جوڑتوڑ کے ذریعےاکٹھا کیا گیا ہے،یہ بھی بڑا مسئلہ ہوں گے۔وعدے بڑے بڑے کئے گئے ہیں جن کا ایفا کرنا مشکل لگتا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ وہ آٹھ ملین جمع کر کے دکھائیں گے،سوال یہ ہے کہ وہ کہاںسے لائیں گے۔کس سے وصول کریںگےپاکستان کا جی ڈی پی ریوینیوں(gross domestic revenue)بھی اوسطاََ نہ ہونے کے برابر ہے۔اب ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ محض اوورسیز پاکستانیوں کےترسیلِ زرسےہی سارے قرضے اتر جائیں۔سی بی آر کے پاس تجارتی طبقے کے واجبات پڑے ہیں،وہ واپس ہی نہیں کرتے۔تو کیا منی بجٹ لائیں گے۔؟ لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں سب یرغمال بنے ہوئے ہیں۔آزاد اراکین کے آگے چل کر اپنے مطالبات سامنے آئیں گےپھر وہ بھی تحریکِ انصاف کی حکومت کے مسائل میں اضافے کا باعث بنیں گےاب کوئی ایسا جادو کا چراغ بھی نہیںہے کہ سونے کی بارش ہو جائے۔ عمران خان کی شخصیت،ان کی مستقل مزاجی،ان کی مخلصی اپنی جگہ ،مگر حقائق نہایت تلخ ہیں۔آگے چل کر جس صورتِحال کا سامنا کرنا پڑے گا اس سے سب سے زیادہ بے چینی تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں ہی پھیلے گی ،کیوں کہ ان کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔

سی بی آر کے مطابق دس ہزار خاندان ایسے ہیں جن کی یوکے اور امریکا میںجائیداد ہیں۔ان سے وہاں جا کر مقدمے کی کارروائی مکمل کرنی پڑے گی،جتنے رقوم کی وصولی کرنی ہےاس سے کہیں زیادہ اخراجات ہوں گے۔کرپشن کی تحقیقات کی مد میں ملین خرچ ہوجاتے ہیں،اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔معاشی سرگرمیاں رکی ہوئی ہیں۔دنیا کی اقتصادی ترقی ہم سے آگے ہے۔اب یہ کس طرح معاملات چلائیں گے،تو ظاہر ہے سعودی عرب کے پاس جائیں گے،آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے۔

یہ پہلی ایسی حکومت ہوگی جو اندرونی اور بیرونی مسائل میں دبی ہوئی ہوگی۔ انہیںپورے اکنامک اسٹرکچر کو از سرِنو ترتیب دینا ہوگا۔جو کام کرنا چاہتے ہیں انہیںکام بہت مشکل لگتا ہے جنہیں نہیں کرنا ہے انہیں آ ٓسان لگتا ہے۔عمران خان کا سب سے بڑا پلان اوورسیز پاکستانیوںکو واپس لانا ہے،سوچنا یہ ہے کہ ان کے پاس کتنے روپے ہیں،جو ارب پتی ہیں،ان کے پیسے کی واپسی کے معاملےنہایت الجھے ہوئے ہیں۔ممالک اپنے اپنے ذرائع پر چلتے ہیں،ان کے ساتھ مجھے تو کوئی اکنامک ارینجمنٹ دکھائی نہیںدے رہی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ پچھلا حساب مانگے بغیران سے ٹیکس لیا جائے۔مینو فیکچرنگ کو مضبوط کیا جائے۔دوستانہ ماحول اور دوستانہ پا لیسی ترتیب دی جائے۔ان ڈائرکٹ ٹیکسز کی بھر مار ہے اس جانب توجہ ضروری ہے۔ٹیکس سسٹم کی اصلاح کیے بغیر آپ کچھ نہیں کرسکتے۔اس ملک کا اصل پرابلم سی بی آر ہے۔

تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی معجزہ ہو تو ہو،مگر معیشت میں معجزے نہیں ہوا کرتے۔چین نے ابتدا سے کام کیا ہے،ایک ارب چالیس کروڑ لوگوں کو پڑھایا ہے،اپنی آبادی میںکمی کی ہے۔چین ایک قوم ہے ایک ملک ہے،وہ ایک زبان بولنے والے لوگ ہیں،ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ہم ان کی حد تک جا ہی نہیں سکتے۔جو آپس میں مل کر نہیں چل سکتے وہ ملک کو کیسے مل کر چلائیں گے۔جہاں تک ان کے سو دن کی بات ہے میرے خیال میں وہ سو دن دھینگا مستی میں ہی گزر جائیں گے،کیوں کہ ’’ ــاونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘والی صورتحال ہے۔مجھے تو ان کے پاس معیشت کو سنبھالنےوالے لوگ نظر نہیں آرہے تو اس ملک کی اقتصادیات کو کیسے سنبھالا دیںگے۔پالیٹیکل مینجمنٹ تو سب کو تگنی کا ناچ نچاتی آرہی ہے۔نیب کے چیئر مین نے کہا کہـ ۔’’ ہم نے دوسو کیسز کھولے ہیں‘‘۔لیکن انھوں نےتو دوسو روپے بھی وصول نہیں کیےبلکہ ایک نیا کاروبار شروع ہوگیا۔کرپشن کے خاتمےکے نام پرجو کرپشن ہو رہی ہے پہلے اسے ختم کریں۔تین ہزار بلین ڈالر پاکستان سے باہر جاتا ہے،یہ صرف نواز شریف اور زرداری کا تو نہیں،اس میں تحریکِ انصاف کے کرتا دھرتا لوگوں کا بھی پیسہ شامل ہے۔معیشت کے مسائل بہت الجھے ہوئے ہیں۔صورتِحال ایسی ہے کہ جس کوسدھارنا ایسا ہی ہے گویا سرجن سرجری کر کے کسی کی زندگی بچائے۔مجھےزیادہ اچھی امیدیں نہیں ہیں پھر بھی ان کے لیے نیک خواہشات رکھتا ہوں۔

ڈاکٹر قیصر سجاد

(سیکریٹری جنرل پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن)

صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو مجھے امید ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت بہتر کام کرے گی۔انہوں نے اپنا صحت کا منشور بنانے کے لئے باقائدہ ہم سے رابطہ کیا تھا۔ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ ہیں۔لاہور میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے صحت کے لیئے بہت کام کیا ہے۔وہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔سارے حالات و واقعات سے انہیںآگاہی ہے۔ہم نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ پراپر ہیلتھ پالیسی بنائیں۔صرف بیماریوںپر کام نہ کریں بلکہ احتیاطی تدابیر پر کام کریں۔ عوام کو صاف پانی مہیا کریں تو ساٹھ فیصد بیماریوں کا خاتمہ ہو جائےگا۔بیماریوں کا اصل سبب گندہ پانی ہے۔گٹر سسٹم،ڈرین سسٹم درست ہوگا تو وائرس سے ہونے والی بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔مچھر کے خاتمے سے ملیریا،ڈینگی،زیکاوائرس کے علاج کی ضرورت نہیں رہے گی،اسی طرح اگرچھالیہ کا خاتمہ کر دیا جائے تو ہمیں منہ کے سرطان کے علاج سے چھٹکارہ مل جائے گا ۔

ڈاکٹرز کی یعنی میڈیکل کے طالب علموں کی تعلیم و تربیت بہتر کریں۔اس طرف توجہ بہت ضروری ہے۔لاتعداد میڈیکل کالج کھول کر نااہل ڈاکٹروںکی بھرمار کرنےکرنے کی بجائے ان کی قابلیت کو بڑھایا جائے۔ہمارا صحت کا نظام،سرکاری اسپتالوں کا نظام قابلِ گرفت ہے۔اسپتالوں میںمچھروں کی بہتات ہے، صفائی کا انتظام ناقص ہے،وہاں علاج کے لیے جانے والے دوسرےوائرس لے کر آجاتے ہیں ۔اربابِ اختیار اپنا علاج کرانے بیرون ملک جاتے ہیں اس پر پابندی لگائی جائےتاکہ وہ اپنا علاج اپنے ملک میں کرائیں اس سے ممکن ہے کہ اسپتالوں کی حالت بہتر ہو جائے۔اس سے عوام کو آسانی ہوگی اور ان کا فائدہ ہوگا۔جو اسپتال موجود ہیں ان میں مزید سہولیات فراہم کی جائیں۔بجائے یہ کہ جگہ جگہ اسپتال بنا کر ان کی تعداد میںاضافہ کیا جائے۔جن اسپتالوں میں مریضوں کا ہجوم موجود رہتا ہے۔اس جانب توجہ لازمی ہے مثلاََ عباسی شہید اسپتال میں سرجانی ٹائون سے آنے والے مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے تو اس دبائو کو کم کرنے کے لیے سرجانی ٹائون میں ہی عباسی شہید اسپتال جیسی مکمل سہولت فراہم کی جائیں۔مریض کو اپنے علاج کے لیے دوردراز کی خاک چھاننے کی بجائے،اپنی دہلیز پر ہی ساری سہولت حاصل ہونی چاہئے۔

شعبئہ حادثات کو عوام کے لیے مفت ہونا چاہئے،تاکہ لوگ حادثے کے موقع پر ایک دوسرے کے کام آئیں۔عموماََشعبئہ حادثات میں دوائوں کے لیے مریض کے لواحقین کو میڈیکل اسٹور بھیج دیا جاتا ہے۔ایمرجنسی کے موقع پر اس طرح کی کلفتوں سے عوام کو نجات دلائی جائے۔حادثے کے موقع پر قانونی معاملات کو درست اور آسان ہونا چایئےتاکہ کو ئی زخمی تا دیر سڑک پر نہ تڑپتارہے۔

صحت کے حو الے سے آلودگی بہت اہم مسئلہ ہے۔دھواں چھوڑتی گاڑیوں پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔چیک کیئے بغیر دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو سڑک پر نہ آنے دیا جائے۔آئندہ بڑی موسمیاتی تبدیلی کا دنیا کو سامنا کرنا ہوگا ۔جس کی وجہ سے نئے مسائل سامنے آئیں گے۔مثلاََ پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔بیسک ہیلتھ یونٹ اور پرائمری ہیلتھ کیئر پر کام کرنا چاہئے۔اس سے ہم آنے والے دنوں میںوبائی امراض سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ایمر جنسی میں کام کرنے کی بجائے،پہلے سے آنے والے افتاد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں،اس لیے کہ صحت کا محکمہ پہلے سے موجود ہے۔عوام کی تندرستی قوم کی صحت مندی کی علامت ہےاور صحت مند قوم تر قی کی شاہراہوں پر قدم رکھنے کا جذبہ ہر دم رکھتی ہیں۔

نئی حکومت سے فقط میں ہی نہیں عوام بھی خوش آئند توقعات وابستہ کر بیٹھے ہیں۔سرکار اپنے لیے نہیں عوام کے لیے کام کرے کیوں کہ عوام نے اسی امید پر اسے ووٹ دیا ہے۔بنیادی معاملات یعنی تعلیم وصحت کے علاوہ ٹرانسپورٹ ،ا یمبو لینس سروس کا نیٹ ورک حکومت خود بنائے۔ایک عام شہری اسی قسم کی سہولیات حا صل کرنا چاہتا ہےجس سے اسے اپنی زندگی آسان محسوس ہو۔

ضیا احمد اعوان ایڈووکیٹ

(بانی چیئرمین ، مددگار فائونڈیشن)

گزشتہ پانچ سال سے جو باتیں یا دعوے یا وعدے یہ کر رہے ہیںان پر کام کرنے کا اختیار عوام نے ان کو ووٹ کےذ ریعے دے دیا ہے۔احتساب اور قانون کا کرداربہت اہم ہے جو اداروں کو بہتر انداز میںسپورٹ کرے گا ۔عوام کو ان سے امیدیں بہت زیادہ ہیں لیکن وہ ان امیدوں کی برآوری میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آرہے ہیں۔پیٹرول کی قیمت، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی،بے روزگاری،کرپشن کا خاتمہ،ان کے وعدوں میں بھی شامل ہے اور عوام کی امیدوں میں بھی۔پولس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ سیاست میںپولس کی مداخلت کو ختم کریں گے۔اور انہیں عوام کی خدمت پر مامور کریں گے یہ ان کے منشور میں بھی شامل ہے۔لوگ اپنی زندگی میں آسانی چاہتے ہیں۔اپنے اخراجات با آسانی پورے ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔پانی، بجلی،روزگار تعلیم، صحت کی سہولیات چاہتے ہیں۔ہمارے یہاں سب سے بڑا ایشو قانون کی پاسداری ہے۔قوانین موجود ہیں مگر اس پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔طاقتور طبقہ قانون کی پاسداری نہیں کرتا۔جن کے پاس پاور ہے وہی قانون کو توڑتا ہے۔سب سے زیادہ قوانین سڑک پر توڑے جاتے ہیں۔پروٹوکول عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ابھی انہیں وقت دینا چاہئے۔دیکھنا چاہئے کہ وہ اپنے منشور پر عمل بھی کرتے ہیں کہ نہیں،اگر کرتے ہیں تو کس انداز میںاور کس حد تک۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ وہ آزاد اراکین کو اپنے ساتھ شامل نہیں کریںگے،مگر اب وہ بھی پاکستان تحریکِ انصاف میںشامل ہو چکے ہیں۔کام کرنے کے لیے سو دن کی بات کی ہے۔ان کے ایک متوقع وزیر اسد عمر نے پہلے ہی کہہ دیا کہ سو دن میںکیسے کام ہوسکیں گے۔اگر پاور مل گئی ہے تو کام ہونا چاہئے اور تبدیلی بھی آنی چاہئے۔ہماری تو یہ خواہش ہے کہ یہ کام کریں۔

قانون کی عمل داری بہت لازمی ہے۔پولس یا فورسز کی گاڑیاں، ٹریفک قوانین کی کس طرح خلاف ورزی کرتی ہیں یہ سب دیکھتے ہیں،ایسے مسائل کاشکار بھی عام شہری ہی ہوتے ہیں،وہ یہی تو دیکھتے ہیں کہ کہاں کہاں کس نے قانون کو توڑا ۔ ٹریفک جام یا پرو ٹوکول کی وجہ سے انہیں گھنٹوں سڑک پہ کھڑے رہ کر اپنا وقت اور پیٹرول برباد کرنا پڑا۔جس کے سبب مزید مسائل ان کی زندگی میںشامل ہوگئے۔ایسی آسانیاں عوام کو مل جائیں تو انہیں اپنی زندگی آسان نظر آنے لگے گی۔قوانین سارے پہلے ہی بنے ہوئے ہیں اس پر عمل درآمد ضروری ہے،عملی زندگی میں اسے لاگو کرنا ہے۔سرکاری محکموں میںموجود کالی بھیڑیں برسوں سے عوام کا خون چو س رہی ہیں،وہ ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔عوام کو انصاف و اپنے حقوق کے حصول کی آرزو رہتی ہے۔ان کی توقعات پوری ہونی چاہئے ورنہ ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔

ڈاکٹر خالدہ غوث

(ماہر ،بین الاقوامی تعلقات)

آنے والی نئی حکومت نے اپنے منشور کے علاوہ سو دن کا ایجنڈابھی دیا ہےجس کے بعد اس پر لوگ اپنی رائے کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔معیشت کو اگر دیکھیں تو انہیں جو مشکلات درپیش ہوں گی وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ معیشت کو چلاتے کس طرح ہیں۔کیا انداز اختیار کرتے ہیں۔یہ سب اتنا آسان تو نہیں لگتا۔اداروں کو جووزراء چلائیں گے،وہ خود کو کیسے مضبوط کریں گے یہاں تو ہمارے اداریں ہی مستحکم نہیں ہیں۔انہیںاس جانب بھی توجہ دینی ہوگی کہ گرتے ہوئے روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میںکیسے مضبوط کریںگے۔یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا سامنا ہےلیکن فوری طور پرعام آدمی کے لیےجو بات اہم ہےوہ ہے بے روزگاری۔یہ ملک نوجوانوں کا ملک کہلاتا ہے ۲۰۱۸ کے الیکشن میں پاکستان کی رائے دہندگان جواںنسل ہےیہ برسوں پرانے سیاسی طور طریقے اور مسائل کا حل چاہتی ہے۔یہاں ان ایمپلائمنٹ بہت زیادہ ہے تو ظا ہر ہے کہ نئی نسل کے اہم مسائل میں بے روزگاری بھی شامل ہے۔اس لیے روزگارکی سہولت یا فراہمی ملک کو آگے کی طرف لے جا سکتی ہے یا پھر یہ کہ انہیں امید کی طرف لے جا سکتی ہے۔جب نوجوانوں کے پاس کرنے کو کام ہوگا تو وہ پہلے اپنی ،بعد ازاں ملک وقوم کی حالت سدھارنےکی لازماََ کوشش کریں گے۔اس طرح ہم دنیا میں اپنی ایک نئی شناخت بنا سکیں گے۔

خارجہ پالیسی میںپہلےہمیں پڑوسی ممالک کی طرف توجہ دینی چاہئے۔افغانستان، ہندوستان،ایران کے ساتھ جتنی جلدی بات چیت شروع ہوجائے اتنا ہی اچھا ہے۔ممالک کے دوطرفہ تعلقات کوبھی علیحدہ سے دیکھنا ہو گا کیوںکہ یہ آپس میںجڑے ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور افغانستان کی دلچسپی مشترکہ ہے۔آنے والی حکومت کو ان دوطرفہ تعلقات کو سازگار بنانے اور ہموار کرنے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا ۔ان کو اپنے لیےبھی جدوجہد کرنی ہوگی کہ دو ممالک کے تعلقات سے خود کیسے فائدہ اٹھائیں،اپنے لیے کیسے جگہ بنائیںاور تعلقات کو مضبوط و مستحکم کیسے کریں۔

انتخابات کی کامیابی کے فوراََ بعدمتوقع وزیرِاعظم کو ایران اور سعودی سفیر نےمبارک باد دی ۔تاریخی طور پر یہ دونوں ممالک ہمارے لیےاہمیت کے حامل ہیںتاہم گزشتہ دنوںان کے اور ہمارے تعلقات کے درمیان ٹینشن یا دوریوں نے جنم لیا تھا،ان میں توازن قائم کرنا ہوگا۔اپنے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے۔وسط ایشیاء میں جتنی بھی ڈویلپمنٹ ہوں گی ان کے اثرات دیگر ممالک پر بھی پڑیں گے۔ مغربی ممالک سے قطع نظر پہلے میںخلیجی ممالک کی بات کروں گی کہ نئی حکومت ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے مضبوط کریں گے۔

مغربی ممالک میں،جسے ہم ای یو (یورپین یونین)کلب کہتے ہیںان میں جرمنی بہت اہم ہے۔اکیسویں صدی میں جرمنی نے اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔جرمنی ایک بڑا اہم اور اثر انداز ہونے والا ملک ہےیورپین یونین کی سیا ست میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔تعلیمی معاملات میں وہ بہت آگے ہے ان کے ایجوکیشن ایکسچینج سے فائدہ اٹھا نا چاہئے۔ان سے تعلقات کو مستحکم کرنا چاہئے اس سے آگے بڑھنے کا ٹرینڈملے گا ۔

یورپین ممالک اورامریکا کے درمیان جس طرح کا ٹینشن بڑھتا ہو ا دکھائی دے رہا ہےاس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے، کیوں کہ ہمیں یہ ایڈوانٹیج حاصل ہو رہا ہے کہ اس بلاک کے ساتھ ہم اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا بہت ضروری ہے۔اس حکومت کو چاہئے کہ سینئر ڈپلو میٹ کو وہاں بھیجے۔بھارتی لابی وہاں پر بہت ایکٹو ہو تی ہیں،پاکستانی لابی کو بھی سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔اپنی ایمبیسی اور تھنک ٹینک کے ذریعے سب کو مخاطب کریں۔امریکا سے جتنے بھی اختلافات ہیں اپنے ملک کے مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئےسارے معاملات سے ہم فوری طور پرفیض یاب نہ بھی ہوں تو نہ سہی،مگر آئندہ کے لیے بہتر توقعات رکھ سکتے ہیں۔امریکا کی اہمیت کے باعث آنے والے سال میں بھی اس کی اہمیت برقرار رہے گی۔عالمی افق پر نگاہ ڈالیں تو دنیا کی سیا ست پر اس کا کاخاصا اثر و رسوخ ہے۔

نئی حکومت افریقا اور لاطینی امریکا سے تعلقات میں پیش رفت کو ترجیح دے۔وہاں بے انتہا پوٹینشیل ہے۔اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ان کا لیول آف ڈویلپمنٹ وہی ہے جو پاکستان کا ہے مگر وہاں تعلیم و صحت کے شعبے میں بہت اچھی ترقی ہوئی ہےصحت و تعلیم کے شعبے میں تبادلے کے ذریعے ہمیں اپنے آپ کو وہاں بہت زیادہ ایکٹو کرنا ہوگا ۔سینیگال جیسے افریقی ملک سے بھی ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیںوہاں کی سماجی ترقیاتی کامیابیاں سب کے سامنے ہیں۔تاہم ہماری خارجہ پالیسی ہندوستان، افغانستان ، امریکااور لاطینی امریکا تک آکر ختم نہیں ہو جاتی۔روس کو ہم نہیں بھول سکتے۔چین ہمارے لیے بہت اہم ہے۔صرف یہ کہہ دینا کہ سی پیک آگیا ، پاک چائنا بھائی بھائی،یہ کافی نہیں ہے۔ہمیں ہر طرف دیکھنا ہے۔ اپنی خارجہ پالیسی محدود رکھیں گے تو دنیا میں مار کھائیں گے۔خارجہ پالیسی جتنی وسعت پذیری اختیار کرے گی ،ہم اتنی زیادہ کامیابی سمیٹیں گے۔

انہیں اپنےفارن آفس پر ڈسک رکھنا چاہئے۔یو اےای ڈسک، ایران ڈسک،افغان ڈسک وغیرہ،پھر یہ کہ ان ڈسک پر ایک ایکسکلیوسیو ڈسک ہوتی ہے۔جب تک اس طرح کام نہیں کریں گے،آپ کی خارجہ پالیسی لولی لنگڑی رہے گی۔میرا یہ کہنا ہے کہ ان کو اپنی خارجہ پالیسی کو ری وزٹ کرنی چاہئے۔اپنی سمت ہر طرف کرنی چاہئے۔ہمارےیہاںنئی حکومت آنے کے بعد ہمیشہ ایمبیسیز میں سیاسی تقرریاں زیادہ ہوا کرتی ہیں۔ میرٹ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ اسی فیصد تقرری قابلیت کی بناء پر اور بیس فیصد جماعتی بنیاد پر کی جائے،نہ تو سیاسی اپائنٹمنٹ ہو نہ ہی ریٹائرڈ افراد کو بٹھایا جائے۔خارجہ پالیسی ،فارن آفس کے لوگوں کوچلانا چاہئےجو بہت زیادہ پیشہ وارانہ مہارت اور صلاحیتوں کے حامل ہوں،جو اپنے ملک کے مفاد کو عزیز تر رکھتے ہوں۔

بین الاقوامی معاملات میں انہیں اس وقت کامیابی ملے گی جب یہ اجتماعی طور پر مل جل کر کام کریں گے۔ہمارے یہاں عموماََ ایسا نہیں ہوتا ،بلکہ ہم انفرادی طور پر فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔تحریکِ انصاف کے پاس ایسی شخصیات ہیں جو بین الاقوامی معاملات کو بہت اچھی طرح چلا سکتے ہیں ۔اس سلسلے میں شاہ محمود قریشی کا نام سامنے آیا ہے ۔ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ نئی حکومت جلدیا بدیر عوام کی توقعات پر پوری اترے گی کیوں کہ انہیں نئی نسل نے ووٹ اسی لیے دیا ہے۔

سماجی ،معاشی،بین الاقوامی ،قانونی و انسانی حقوق و صحت کے ماہرین کے درجِ بالا نکتہ نظر،امیدیں،خواہشیں، مسائل کی نشاندہی، اور مشوروں کی گہرائی پاکستانی عوام کی آرزوئوں اور ملک کے آئندہ تابناک مستقبل کے پس منظر کو بیان کرتے ہیں ۔جس کا پیش منظر جہاں مسائل کی آماجگاہ ہے وہاں امیدوں کی کلیوں کے چٹکنےکا منتظر بھی ہے۔

پاکستان کے ہرصوبے کے تمام طبقے،ایک شہری کی بنیادی سہولیات سے لے کر ،علاقائی،معاشرتی،اورملکی معاملات میںاپنی کامیابی چاہتے ہیں،تاہم بدقسمتی سےسیاستدانوں کی باہمی چپقلش ، ریشہ دوانیو ںاور بدعنوانیوں کی داستانوں نے انہیں سوائے مایوسیوں کے کچھ نہیں دیا ۔انسانی حقوق کی پائمالی،بے روزگاری کے عفریت اور عمومی زندگی کی کلفت نے عوام کو اپنے شکنجے میں کس َ رکھا ہے،پھر بھی ہر سانحے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے والی قوم نے،اپنی زبان ونسل ذات برادری اور قومیت سے قطع نظر ۲۰۱۸ کے انتخابات میںتحریکِ انصاف کے حق میں فیصلہ دے کر اپنے جینے کی نئی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔فاتح جماعت تحریکِ انصاف نے اپنے منشور کے علاوہ مزید سو دن کے وعدوں کے خواب دکھائے ہیں،جس پر حقائق سے واقف اہلِ فکر و دانش طبقہ بھی سوچ بچار کے علاوہ ان وعدوںکی تکمیل کے اسباب تلاش کررہا ہے۔جو کام کرنے کا قصد کیے ہوئے ہیں،انہیں جلد از جلد ا ن سپنوں کی تعبیر کا حصو ل مشکل لگ رہا ہے،اور جو محض اپنی سیاست چمکانے کے خواہشمند ہیں ان کے لیے یہ نوید ہے کہ ان کے چیئرمین کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مستقل مزاجی سے اپنے مقصد پر ڈٹ جانے والی شخصیت ہے،جس کے ساتھ مفاد پرستوں کا چلنا ممکنات میں سے نہیں ہے،جس کاماضی فتوحات کے الگ تسلسل رکھتا ہے۔اس بار اپنی زندگی میں تبدیلی پسند عوام نے اپنا اور پاکستان کا مستقبل اسی کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔

پاکستان کی تعمیر کے بعد،تخریب کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا ،جس میں پسماندہ طبقہ مزید پستا چلا گیا، مگرپاکستان کی نئی نسل نے اپنی توقعات اس بار دیرینہ سیاسی جماعتوں کی بجائے تحریکِ انصاف کے حوالے کرکے اسے ایک ایسے کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے جو عوام کو ان کے مسائل کے بوجھ سے اگر نجات نہ دلا سکی تو یہ جماعت خود بھی نہ پنپ سکے گی۔رہ گئے وعدے وعید ،تو مسلم لیگ ن نے بھی بڑے زور و شورسےپاکستان کے شہروں کو لندن اور پیرس بنانے کی بات کی تھی ،جس کا تماشہ بھی سب نے دیکھ ہی لیا۔اگر عمران خان نے اپنے آس پاس موجود ارب پتی شخصیات کے ذریعے ملک کے مفاد میںکام لے کر،، نئے پاکستان کا وعدہ،، پورا نہ کیا تو یہ لکھتے ہوئے کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ ستر برس پرانے مسائل،عوام کو کس ڈگر پہ لے جائیں گے۔قوم کی تقدیر کیوں کر بدلے گی اور عالمی افق پر پاکستان کا پرچم مزید بلندی پر کیسے لہرائے گا؟! 

تازہ ترین