• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی ماہرین نے ایک ویران کنوئیں سے 18 ویں صدی کی ریاست میسور کے راجا، ٹیپو سلطان کااسلحہ کے خفیہ ذخیرہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ریاست کرناٹک میں ملنے والے ذخیرے میں اٹھارہویں صدی میں بنائے گئے ایک ہزار سے زائد راکٹ شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگوں میں سب سے پہلے استعمال ہونے والے راکٹوں کا حصہ ہیں ۔ صوبائی محکمہ آثار ِقدیمہ کےاسسٹنٹ ڈائریکٹرکے مطابق شموگا ضلع میںایک کھلے کنوئیں کی کھدائی کے دوران ملنے والے راکٹوں اور توپوں کے گولے ٹیپوسلطان نے جنگوں میں استعمال کے لیےذخیرہ کئے تھے۔ واضح رہے کہ شیر میسور ٹیپو سلطان برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف متعدد جنگوں میں فتوحات حاصل کرنے کے بعد 1799 ءمیں چوتھی اینگلو،میسور جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔

ٹیپو سلطان سائنسی علوم میں خاص دل چسپی رکھتے تھے ۔ وہ فنون سپہ گری سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ 1782 ءمیں اپنےوالد نواب حیدر علی کے انتقال کے بعد انہوں نے 1783 ءمیں ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔ ٹیپو سلطان نے میسوری افواج کو گھڑسوار اور توپ خانہ بریگیڈز کی شکل میں منظّم کیا۔ انہیں ابتدائی دور سے ہی اپنے وسائل سےراکٹ بنانے کاموجد تسلیم کیا جاتا ہے جو’’ میسوری راکٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ بعدازاں یہ راکٹ نپولین کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں استعمال کرنے کے لیےبرطانوی کانگر یوراکٹ کے نام سے تیار کئے گئےتھے ۔ سر ولیم کانگریو نے 1804 میں یہ راکٹ ٹیپو سلطان کے میسوری راکٹوں سے متاثر ہوکر ڈیزائن کئے تھے۔ ماہرین کے مطابق میسوری راکٹ کو فوج کے استعمال میں آنے والے لوہے کے خول میں بند پہلا تباہ کن ہتھیار تسلیم کیا جاتا ہے، جس سےبعد ازاں دنیا بھرمیں راکٹوں کی تیاری کے لیے راہیں کھل گئیں۔ برطانیہ نے ٹیپو سلطان سے جنگ کے دوران ملنے والے راکٹوں کے خول سے اس ٹیکنالوجی کا سراغ لگایا ،جس کے نتیجے میں برطانیہ کو جدید دنیا میں راکٹ سازی کے شعبے میں قائدانہ حیثیت حاصل ہوئی۔

آرشجیشوارا نیکا کاکہنا ہے کہ ایک کھلے کنوئیں کی کھدائی کے دوران ملنے والے 1000 سے زائد زنگ آلود راکٹ ٹیپو سلطان کے دور میں جنگوں میں استعمال کے لیےذخیرہ کئے گئے تھے ۔ یہ کنواں شمال مغربی ریاست میسور کے دارلحکومت بنگلور سے تقریباً 385کلومیٹر (240میل) کے فاصلے پر ہے ۔اس کنوئیں کی کھدائی کے دوران مزدوروں کو کیچڑ سے گن پائوڈر کی بو آئی توکنوئیں کی گہری کھدائی کا فیصلہ کیا گیا۔ راکٹوں کی لمبائی 23 سے 26 سینٹی میٹرز (12 سے 14 انچ ) کے در میان تھی ۔ آثار قدیمہ کے ریکارڈز کے مطابق شموگا ٹیپوسلطان کی سلطنت میں ایک قلعے کا حصہ تھااور یہ راکٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگوں میں استعمال کئے گئے تھے۔یہ اعزاز ٹیپو سلطان کو جاتاہے کہ انہوں نے سلنڈر نمالو ہے کی بڑی ٹیوبس میں گن پائوڈر بھر کر انہیں ایسے راکٹوں کی شکل میں ڈیزائن اور تیار کیا جن کی مار 2 کلومیٹر تھی۔ ٹیپو سلطان نے صرف اسلحہ سازی میں ہی نہیں بلکہ فوجی نظم و نسق مثالی بنانے کے لیے بھی فوجی اصلاحات میں قابل تقلید کام کیا۔

انہوںنےراکٹوں کو زیادہ موثر بنانے کے لیے تلواروں یا بڑے بانسوں پر نصب کرایا، تاکہ جب انہیں چلایا جائے تو وہ فاصلے پر موجود اہداف کو تباہ کر سکے۔ ان کی سلطنت میں ریاست میسور کے توپ خانے کے پاس 16 سے 24 بریگیڈ زتھے۔ راکٹ فائر کرنےوالے نوجوانوں کو یہ ٹریننگ دی گئی تھی کہ وہ سلنڈر کے قطر اور ہدف تک فاصلے کی پیمائش کے مطابق راکٹ کو مخصوص زاویئے پر فائر کریں۔ علاوہ ازیں ٹیپو نے پہیوں پر نصب راکٹ لانچرز کا استعمال بھی کیا ،جس سے بیک وقت 5 سے 10 راکٹ فائر ہوتے تھے ،جس سے دشمن کی صفوں میں تباہی پھیل جاتی تھی۔

1700 ء ویں صدی کے اختتام پر اینگلو میسور جنگوں کے دوران میسورین راکٹ بہت زیادہ موثر ثابت ہوئے تھے۔ ٹیپو سلطان کی فوج کی جانب سے فائر کئے گئے ان راکٹوں کو ’’ اڑنے والی بلا‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔ سرنگا پٹم کے سقوط کے بعد برطانوی فوج کو قلعے سے 600 لانچر ،700 قابل استعمال راکٹ اور 9000 سے زائد خالی راکٹ ملے۔ ان میں سے بیشتر رائل آرٹلری میوزیم بھیج دیئے گئے ،جن کی مدد سے 1801 ءمیں راکٹوں کی تیاری کا ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگوں میں راکٹوں کا استعمال 13ویں صدی میں اس وقت ہوگیا تھا جب چینیوں نے اپنے وطن پر حملہ آور منگولوں سے دفاع کے لیے اس کا استعمال کیا تھا، تاہم یہ راکٹ تو تھے، مگر اتنے موثر ہتھیارثابت نہیں ہوئے، کیوں کہ حیران کن طور پر یہ کاغذ اور کارڈ سے بنائے گئے تھے۔

میسور کے 18 ویں صدی کے حکمران حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان نے 1780 سے 1790 کی دہائی کے دوران برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ان راکٹوں اور گولہ بارود کو انتہائی اثر انگیز طور پر استعمال کیا۔ آج بھی یورپ بالخصوص انگلینڈ میں ٹیپو سلطان کا نام دہشت کی علامت تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس دور میں دنیا بھر میں کوئی بھی قوم اس بہادری اور حوصلہ کے ساتھ برٹش فوج کا مقابلہ نہیں کر سکی ،جب کہ ٹیپوسلطان نے متعدد جنگوں میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کوشکستوں سے دوچار کیا جو کہ اصل میں برٹش فوج کی ہی ایک شکل تھی۔ انگریزوں کی سازشیں دیکھتے ہوئے ٹیپو نے ترجیحی طور پر سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کئے، انہوں نے نئے بحری اڈے اورسمندری جہازوں کی تیاری کے مراکز قائم کیے ۔

شیر میسور ٹیپو سلطان نےایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے اتحادیوں مراٹھا سلطنت اورنظام حیدر آباد کے خلاف تین اینگلو میسور جنگیں لڑیں اور مشترکہ دشمنوں کو شکست دی، تاہم سرنگاپٹم میں لڑی گئی میسور کی چوتھی جنگ میں کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا، تاہم سلطان کی فوج کے دو غدار میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم قلعہ کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کوسازش کے تحت پیچھے لے گيا۔ میسور کی آخری جنگ میں جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی نظر آنے لگی تو سلطان نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے قلعے کو اندر سے بند کر لیا ۔ ٹیپو سلطان کی کوشش تھی کہ محاصرہ کو طوالت دی جائے اور اس دوران ترکی ،ایران اور افغانستان سے مدد کے لیےرابطے کر لئے جائیں۔

بدقسمتی سے ان کی اپنی صفوں میں چھپے غدار ساتھیوں نے دشمن برٹش فوج کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا ۔ ٹیپو کی شہادت سے قبل قلعے کے میدان میں گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ غداروں کی مدد سے بارُود کے ذخیرے میں لگنے والی آگ مزاحمت کوکمزورکرنے کا سبب بن گئی ۔اس موقع پرایک فرانسیسی اتحادی فوج کے ایک افسر نے ٹیپو کوجان بچانے کے لیے خاموشی سے قلعہ چھوڑ دینے کا مشورہ دیا، مگر ٹیپو سلطان راضی نہ ہوئے اور لڑتے ہوئے 4 مئی 1799 کو 48 سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔ ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے تھےجنہیں انگریزی ، فرانسیسی،اردو ، عربی اورفارسی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ وہ مطالعے کے بہت شوقین تھے۔ان کے ذاتی کتب خانے میں کم و بیش 2000 کتابیں تھیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین