• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستونوں اور بیم کا استعمال قدیم مصر، قدیم یونان اور قدیم روم میں ہوتا تھا۔ اسی لئے آج ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی ان کھنڈرات میں ہمیںستون استادہ دکھائی دیتے ہیں۔ آجکل جدید طرزِ تعمیر میں نئی ٹیکنالوجی اور تعمیراتی مواد سے ستون، بیم اور سلیب ہر جگہ استعمال کی جارہی ہے۔ دراصل سلیب یا سلیب سے بننے والی چھت کا وزن ستونوں پر یا دیواروں پررکھی بیمز(جسے شہتیر بھی کہتے ہیں) پر منتقل ہوتاہے اور بنیادوں تک قائم رہنے کیلئے عمارت کو سہار امل جاتاہے۔

ستون زمین سے چھت تک عمودی طرزپر کھڑے ہوتےہیں، یہ چھت، سلیب اور بیمز کے ساتھ ساتھ اپنے وزن کو بھی سہارتے ہیں۔ اگر ستون میں خرابی ہو یا ستون گر پڑے تو پوری عمارت منہدم ہو سکتی ہے۔ اسی لیے گھر کی تعمیر یا اسٹرکچر کو کھڑا کرنے کے لیے ستونوں پر بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

تعمیرات کی جدید صنعت میں لکڑی، اسٹیل ، فائبر، سیلولر پی وی سی اور المونیم جیسے مٹیریل کےبجائے کنکریٹ کے ستون استعمال بنائے جاتے ہیں ۔ تعمیرات کا اسکیل ، لاگت اور اسٹرکچر یہ فیصلہ کرتاہے کہ ستونو ں کی کونسی اقسام استعمال کی جائیں۔

عمارت کے ڈیزائن کو دیکھتے ہوئے ستون چھوٹے، درمیانے یا لمبے بنائے جاتے ہیں۔ لمبے یا سیلنڈر نما ستون کی زیادہ سے زیادہ لمبائی اتنی رکھی جاتی ہے جتنا وہ وزن سہار سکتاہو۔ ستون مربع، مستطیل ، گول اور کثیر الاضلاع اشکال کے ہوتے ہیں۔ آر سی سی کی چھت کےنیچے ستون بھی آر سی سی ہی ہوتے ہیں یعنی ان کے اند رسریا اور اسٹیل راڈ ز کا جال ہوتاہے۔ بے شک ستون کسی بھی عمارت کو قائم دائم رکھنے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن اگر ہم مستطیل یا مربع ستون بنارہے ہیں تو ان کو اس طرح ڈیزائن کیا جاسکتاہے کہ ان میں طاق یا خانے بنا کر ان کو استعمال میں لایا جاسکے۔

اسلامی طرزتعمیرِ میں ستون کی اہمیت

اسلامی طرزتعمیر کی بات کی جائے تو زیادہ تر مساجد کی تعمیر میں ستون استعمال کیے جاتے ہیںکیونکہ صف بندی کے لیے کھلی جگہ چاہیے ہوتی ہے۔ سبطِ حسن محرابی عمارتوں کی تاریخ کویوں بیان کرتے ہیں،’’ اہل عراق نے فن تعمیر میں جوکمال حاصل کیااس کی نظیر مشکل سے ملے گی ۔ مثلاً محراب، گنبد اور ستون جن کے سہارے متمدن دنیا نے اپنے قصد وایوان تعمیر کئے ،قدیم عراقیوں ہی کی ایجاد ہیں اورلطف یہ ہے کہ ان سب کی بنیاد وہ نرسل کا جھونپڑا ہے، جسے فن تعمیر کے اصول سے ناواقف خانہ بدوشوں نے ہزاروں سال پیشتر اپنا سر چھپانے کے لئے بنایاتھا‘‘۔

ماضی کی بات کی جائے تو کئی برسوں تک ماہرین آثار قدیمہ عراق میں کھدائی کرتے ہوئے محرابی اور گنبد نما عمارتیں دریافت کرتے رہے، ان دریافتوں سے یہ بات ثابت ہوتی رہی کہ سرزمین عراق میں لکڑی کی عدم فراہمی کی بنا پر یہاں عمارت سازی میں ستونوں کا استعمال سرے سے ہواہی نہیں ۔ ان ماہرین کا خیال تھا کہ ستون بنانے کے لئے لکڑی نہ ملنے کی وجہ سے یہاں کے باشندے عمارت سازی میں دوسرے حربوں کو بروئے کار لائے۔یہ تصور اتنا راسخ ہوچکا تھا کہ جب کسی ماہر آثارقدیمہ کی جانب سے عراق میں ستونوں پر مشتمل عمارت کی دریافت کرنے کا دعویٰ سامنے آیا تو ان کا خوب مذاق اڑایاگیا حالانکہ اسی سرزمین میں کھجور کے لمبے لمبے درخت موجود تھے، جن کے انسانی نفسیات اور فن پر اثرات یقینی تھے۔

کچھ عرصہ پہلے تک ماہرین آثار قدیمہ کا خیال تھا کہ وادیٔ دجلہ وفرات کے قدیم باشندے ستون بنانا نہیں جانتے تھے، یہ خیال اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ جب کسی ماہر آثار قدیمہ نے نیفر کے مقام پر پندرھویں صدی قبل مسیح کی ایک ایسی عمارت دریافت کی جس کے بڑے کمرے میں ستونوں کی دورویہ قطار کھڑی تھی تو ماہرین نے اس دعوے کی تردید کردی۔ ان کی کتابوں میں یہی لکھا تھا کہ اس خطے میں ستونوں کا رواج تیسری صدی قبل مسیح میں یونانی فتوحات کے بعد شروع ہوا ۔ حالانکہ جس ملک میں قدرت خود کھجور کے سڈول ستون فراہم کرتی ہو وہاں ستونوں کا استعمال کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ اس قسم کے ستون مختلف مقامات پر بھی دریافت ہونے لگے ۔

مثلاً اِرک میں تین ہزار قبل مسیح کے کئی بڑے بڑے ستون دریافت ہوئے، ان ستونوں کی موٹائی سا ت آٹھ فٹ تھی۔ یہ ستون کچی اینٹوں کے تھے اور ان پر کاشی کے نہایت خوبصورت نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔ ایسے ہی کئی ستون ’کیش‘ میں بھی دریافت کیے گئے اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ العبید کے چھوٹے چھوٹے معبد میں کھجور کے تنوں کے قدرتی ستون پائے گئے، جن پر تانبے کی چادر چڑھی ہوئی تھی۔ ان ستونوں کو بادشاہ ’آنی یاددا‘‘ نے 27سو قبل مسیح میں بنوایا تھا، تب دنیا کو معلوم ہوا کہ ستون دراصل کھجور کے تنوں کی نقل ہیں اور ستون کا استعمال سب سے پہلے عراق ہی میں ہواتھا نہ کہ یونان میں۔

تازہ ترین