• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صادقہ خان

مشتری ہمارے نظام ِ شمسی کا پانچواں اور سب سے بڑا سیارہ ہے ،جس کا خط ِاستوا پر قطر تقریباً 1 لاکھ 43 ہزار کلومیٹر ہے، جب کہ اس کا ماس زمین کے ماس کے مقابلے میں 300 فی صدزیادہ ہے۔ اس کا نام ' جیو پیٹر ' رومنوں نے اپنی ایک دیوتا جیوپیٹر کے نام پر رکھا تھا ۔جسامت میں سب سے بڑا ہو نے کی وجہ سے مشتری ہمیشہ سے سائنس دانوں کی توجہ کا مر کز رہا ہے ۔ رات کے وقت سادہ آنکھ سے جو فلکیاتی اجسام ہمیں بالکل واضح طور پر نظر آتے ہیں ان میں چاند اور زہرہ کے بعد تیسرا مشتری ہے ۔ یہ ایک مخصوص بلندی پر اتنا واضح ہوتا ہے کہ اس کی روشنی منعکس ہو کر سایہ بنا سکتی ہے ۔ سائنس داںابتدا ہی سے مشتری میں بے پناہ دل چسپی رکھتے ہیں اور وہ یہ جاننے کے لیئے سرگرداں رہے ہیں کہ اس جیسے بڑے سیارے کس طرح وجود میں آتے ہیں ؟

ہمارے نظام ِ شمسی میں بڑی جسامت کے دو سیارے مشتری اور زحل کو گیس جائنٹ یا گیسی دیو کہا جاتا ہے ۔ ایسے سیاروں کا بڑا حصہ ہائیدروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہوتا ہے اور ان کے بنیادی اجزا میں وقت کے ساتھ تبدیلی واقع نہیں ہوتی اس لیے انہیں ’’ناکام ستارے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جب کہ یورینس اور نیپچون کو منجمد دیو یا آئس جائنٹ کہا جاتا ہے جن کا بیشتر حصہ ایسے بھاری عناصر پر مشتمل ہوتا ہے جو قیام پزیر نہیں ہوتےاور یہ جلد بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔

مشتری کا ایک چوتھائی حصہ ہائیڈروجن اور باقی ہیلیم پر مشتمل ہے جب کہ اس کی چٹانی خاصیت والی بیرونی تہہ یا کور بھاری عناصر سے بنی ہے ۔ لیکن دوسرے تمام بڑی جسامت کے سیاروں کی نسبت اس کی ایک ٹھوس ساخت والی اندورنی سطح نہیں ہے۔ اس وجہ سے بھی سائنس داں اس کی ساخت کی گھتیاں سلجھانے کے لیے کوشاں رہے ہیں ۔حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں عطارد کی ساخت اور وجود میں آنے کے معموں کوحل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عطارد کا بیرونی ماحول کئی طرح کے بینڈز یا پٹیوں میں تقسیم ہے جو مختلف بلندیوں پر واقع ہیں ۔ ان پٹیوں کے سنگم پر طوفان بنتے رہتے ہیں ۔ سب سے پہلے سترویں صدی میں دوربین کے ذریعے ایک ایسے طوفان کا مشاہدہ کیا گیا جسے گریٹ ریڈ سپاٹ یا عظیم سرخ نشان کا نام دیا گیا تھا۔ تب سے اس طوفان کا مسلسل مشاہدہ کیا جارہا ہے جو کبھی زیادہ قوت پکڑ لیتا ہے تو کبھی بالکل مدہم ہو جاتا ہے۔ مشتری کے گرد بھی زحل کی طرح حلقوں کا ایک سسٹم ہے، مگر یہ زحل کے حلقوں کی نسبت کافی مد ہم ہے۔ اگرچہ مشتری کے گرد مقنا طیسی کرہ یا سفیئر بہت طاقتور ہے۔

ماہرین کے مطابق ہمارے نظام ِ شمسی کی تشکیل پانے کی ابتدائی عرصے میں جب سیارے وجود میں آرہے تھے تو سولر نیبولا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا ۔ اگرچہ بیان کرنے میں اسے صرف ایک جملے میں لکھا جا سکتا ہے ،مگر اس عمل کو وقوع پزیر ہونے میں تقریباً دو ملین سال کا عرصہ لگا ہوگا ۔ اس طویل عرصے میں جب مشتری، زمین کے ماس سے صرف 20 سے 50 فی صد تک زیادہ ہوگا تو اس وقت ایک باڑ کی طرح معلوم ہوتا ہوگا ، جس کے بعد اس کی ڈسٹ ڈسک وجود میں آئی اور اس کی کثافت بتدریج بڑھتی چلی گئی ۔اس وجہ سے مشتری کے اندرونی مادّے کا ماس بیرونی مادّوں کے ساتھ اس وقت تک نہیں مل سکا، جب تک اندرونی ماس اس حد تک نہیں بڑھ گیا کہ سیارے کے اندر بڑے چٹانی سلسلے وجود میں آسکیں۔

ماہرین ِ فلکیات کے مطابق ابتدائی عرصے میں جب مشتری جسامت میں بہت چھوٹا ہوگا تو اس وقت اس کی تشکیل کا دورانیہ زیادہ طویل رہا ہوگا ۔ یعنی اس سیارے کے ماحول میں ابتدائی مادّوں کی تشکیل پانے میں و قت لگا ۔ ان کے خیال میں سب سے زیادہ وقت اس دوران لگا جب مشتری کا ماس زمین کے ماس سے 15 سے 50 فی صد کی حد میں تھا ۔اس دوران وہ چٹانیں جن کا سائز ایک کلومیٹر تک تھا ان کے ٹکراؤ سے توانائی مستقل پیدا ہوتی رہی، جس کے باعث مشتری کا اندرونی گیسوں پر مشتمل ماحول وجود میں آیا اور اسی باعث اسے’’ گیسی دیو‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس مرحلے میں چھوٹے پتھروں نے بہت اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس کے باہر کی جانب کی تہہ بنائی ۔ لیکن اس دوران گیسوں کی افزودگی میں تعطل آیا ۔ لیکن ایک طرح سے یہ امر خوش آئند ثابت ہوا اور اسی کے باعث سائنس داں اس قابل ہوئے کہ مختلف خلائی مشنز کی مددسے مشتری کے بارے میں حاصل ہونے والے مواد کا شہاب ِ ثاقب کے دستیاب ڈیٹا سے موازنہ کر کے اس مدت کو معلوم کر سکیں، جس میں یہ حجم میں انتہائی بڑا سیارہ وجود میں آیا ۔

واضح رہے کہ مشتری کی جانب اب تک کئی خلائی گاڑیاں بھیجی جا چکی ہیں جن میں پایونیر ،وائجر 1 ،2 اور گلیلیو آربٹر قابل ِ ذکر ہیں ۔ جب کہ 2007 میں نیو ہوریزن خلائی گاڑی بھی مشتری کے بہت پاس سے گزری اور اس کے متعلق اہم معلومات فراہم کیں ۔ مشتری کی کشش ِ ثقل ہی کے باعث اس خلائی گاڑی کو آگے بڑھنے کے لیے توانائی ملی۔ اس عمل کو فلکیات کی اصطلاح میں گریویٹی اسسٹ کہا جاتا ہے ،جس کے ذریعے خلائی گاڑیاں اپنا ایندھن استعمال کرنے کے بجائے سیاروں کی کشش ِ ثقل کی مدد سے آگے بڑھتی ہیں ۔

نئی تحقیق کے مطابق مشتری کے تشکیل پانے کے عرصے کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے مرحلے کا دورانیہ تقریباً ایک ملین سال رہا ہوگا، جس کے دوران نوزائیدہ سیارے کی اندرونی سطح میں ایک سینٹی میٹر کے سائز کے چھوٹے پتھر وں نے اس کے بیرونی تہہ بنائی ۔ جب کہ دوسرا مرحلہ اندازاً 1 سے 3 ملین سال پر مشتمل ہوگا، جس میں دو ملین سال کے عرصے میں ایسی چٹانیں وجود میں آ ئی ہوں گی جن کا سائز 1 کلومیٹر یا ان سے کچھ زیادہ رہا ہوگا ۔ ان کے ٹکراؤ سے مسلسل توانائی اور حرارت خارج ہوتی رہی، جس نے نوزائیدہ سیارے کی بڑ ہوتری میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ ان چٹا نوں کو فلکیات کی اصطلاح میں’’ پلینٹ ایسیمل ‘‘یا سیارے کے چھوٹے اجزاء کہا جاتا ہے ، مگر یہ سب سے سست رفتار مرحلہ تھا اس دوران مشتری کے اندرونی ماحول میں موجود گیسیں ہیلیم اور ہائیدروجن کی وافر مقدار جمع نہ ہو نے کے باعث اس کی بڑہوتری کا عمل سست ہو گیا ہوگا ۔ اس دوران مشتری کا ماس زمین کے ماس سے 50 فی صد کی حد میں ہوگا ۔ تیسرا مرحلہ 3 ملین سال پر مشتمل ہوگا ،جس کے دوران یہ جسامت میں اتنا زیادہ بڑا ہواکہ اس کے اندرونی ماحول میں گیسیں بہت زیادہ مقدار میں نمو پا سکیں ۔اسی مرحلے میں مشتری کا ماس زمین کے پاس سے 300فی صد زیادہ ہوا۔

اس تحقیق سے حاصل شدہ ڈیٹا کا جب ہمارے نظام شمسی میں آزادانہ پھرتے فلکیاتی اجسام یعنی شہاب ِ ثاقب کے نمونوں سے حاصل شدہ معلومات کا موازنہ کیا گیا تو سائنس داں حیران رہ گئے کہ دونوں تحقیقات اس امر کی جانب نشان دہی کرتی ہیں کہ نظامِ شمسی کی تشکیل کے ابتدائی عرصے میں سولر نیبولا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہوگا اور اس کا دورانیہ تقریباً دو ملین سال رہا ہوگا ۔ اس سے یہ بھی تصدیق ہوئی کہ مشتری کے وجود میں آنے اور اتنی بڑی گیسی ساخت کی وضاحت کے لیےجو نیا ماڈل بنا یا گیا ہے وہ درست ہےیا نہیں اور اس کی بنیاد پر مستقبل میں مزید تحقیقات اور پیش گوئیاں کی جاسکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس ماڈل کے ذریعے نیپچون اور یور ینس جیسے سیاروں اور ایگزو پلینٹ (ایسے فلکیاتی اجسام جو جسامت میں چھوٹے ہوتے ہیں، مگر اپنی خصوصیات کے باعث سیاروں میں شمار کیے جاتے ہیں) کی تشکیل اور ماس کے معموں کو بھی حل کرنے میں مدد ملے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین