• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یمن کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ

عرب خطہ گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ایسی کشت و خون کی لپیٹ میں ہے جس کا تصور بھی لرزا دیتا ہے۔ یمن عرب دنیا کا سب سے کمزور معیشت رکھنے والا ملک ہے ،مگر داخلی تنازعات کے سبب خانہ جنگی میں ایسا الجھا ہوا ہے جس میں ہمسایہ ممالک اور عالمی طاقتیں اپنا بہیمانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ 2014ءمیں یمن میں داخلی تنازعات نے بھر پور شدت سے سر اٹھانا شروع کیا اور2015ءمیں وہاں باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ مقولہ مشہور ہے کہ، دنیا میں سب سے زیادہ ظلم یا تو کمرہ عدالت میں ہوا یا میدان جنگ میں اور یہ بات یمن میں بھی صادق آ رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں یمن خانہ جنگی کے آغاز سے اس امر کا بر ملا اظہار کر رہی ہیں، کہ انسانی حقوق کی دونوں اطراف سے زبردست خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، اسی سبب سے دسمبر2017ءمیں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جو جنگی جرائم تک پہنچ جاتی ہیں، کے متعلق حقیقت حال جاننے کی غرض سے ایک کمیشن قائم کیا۔ کمیشن نے اپنا کام فی الفور شروع کر دیا اور اس سے اجتناب کیا کہ، صرف میڈیا پر موجود خبروں یا غیر مستند ذرائع سے علم میں آنے والے واقعات پر تکیہ کیا جائیں، بلکہ انہوں نے میدان جنگ میں جا کر براہ راست صورتحال کا آنکھوں دیکھا حال جاننےکا فیصلہ کیا، اس سلسلے میں سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحادی افواج جن کو امریکہ اور برطانیہ کی مدد حاصل ہے اور حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں کے جن کو ایران کی امداد حاصل ہے کا دورہ کیا، اسی دوران دیگر ذرائع سے بھی معلومات کی تصدیق کرتے رہیں۔ گزشتہ ہفتے اس کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کر دی۔ رپورٹ کے مطابق سعودی اتحاد اور حوثیوں نے انسانی حقوق کی اس حد تک خلاف ورزیاں کی ہیںمیں جنگی جرائم تک شامل ہیں۔ 

رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ، سعودی قیادت میں قائم اتحاد کے جس سے متحدہ عرب امارات کو خاص اہمیت حاصل ہے نے اپنی فضائی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کی پروا نہیں کی کہ، صرف حوثیوں کے مسلح جتھوں کو ہی نشانہ بنایا جائے بلکہ انہوں نے عام شہریوں پر بھی اس فضائی حملوں کا بھر پور وار کیا۔ اس دوران جنگ میں جنسی تشدد کے واقعات بھی بڑے پیمانے پر سامنے آ رہے ہیں، جبکہ اتحادی فوج نے ثناء کے فضائی اڈے اور بحیرا احمر پرسخت ناکہ بندی اور پابندیاں عائد کر رکھی ہیں کہ انسانی ضروریات کی بنیادی چیزوں کی یمن میں شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور یہ اس وقت کا سب سے بڑا انسانی بحران بن چکا ہے۔ اسی طرح حوثیوں کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ بچوں تک کو فوج میں شامل کر رہے ہیں، جبکہ انہوںنے سعودی عرب کے شہروں اور سعودی تیل کی تنصیبات پر بھی میزائل داغے ہیں۔ رپورٹ جاری ہونے کے بعد سعودی اتحاد نے اس کو فوراً مسترد کر دیا اور کہا کہ ہم نے کمیشن کے اراکین کو ابتداء سے ہی تمام معلومات اور وسائل فراہم کر دیئے تھے اور یہ الزام کہ اتحادی فوج جان بوجھ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے اور بچوں تک کو مار رہی ہے، درست نہیں ہے،پھر انہوں نے کہا کہ، اس رپورٹ میں ایرانی کردار کا ذکرنہیں ہے، حالانکہ وہ اس جنگ کے آغاز کے محرکین میں سے ہے۔ اتحادی فوج نے اس پر قانونی جواب دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جنگی جرائم کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، ان ممالک کی قیادت کو باقاعدہ جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔ 

ایران نے اس جنگ میں یہ حکمت عملی اپنائی کہ وہ براہ راست نہیں کودا، بلکہ اس نے حوثیوں کو ہتھیار فراہم کرنا شروع کر دیئے، اس لئے وہ براہ راست انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات سے بچ گیا۔ امریکہ اور برطانیہ بھی اتحادی فوج کی ہتھیاروں سے مددہی نہیں بلکہ انہیں فروخت بھی کر رہی ہے لیکن براہ راست حصہ نہ لینے کے سبب سے وہ بھی ان الزامات سے بری الذمہ ہیں۔ رپورٹ کے اس وقت منظر عام پر آنے سے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام یمن کی منصور ہادی حکومت اور حوثیوں کے درمیان شروع ہونے والے جنیوا مذاکرات ،جنہوں نے 6 ستمبر کو شروع ہونا ہے، پرمزید دبائو بڑھ گیا ہے کہ کسی سنجیدہ حل تک پہنچا جائے۔ اس رپورٹ جاری ہونے کے بعد، امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ، ہمارا سعودی اتحاد کو مدد فراہم کرنا غیر مشروط نہیں ہے، حالانکہ یہ کوئی مدد نہیں ہے،بلکہ ہتھیاروں کو فروخت کرنے کا کاروبار ہے۔2010ءسے 2015ءتک صرف سعودی عرب کو امریکہ نے 90 عرب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا تھا، یہ رقم پاکستان پر چڑھے کل قرضوں سے بھی زیادہ تھی۔ بہرحال اس رپورٹ کے بعد نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ، دونوں فریقین کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دی جائے، تا کہ جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی امریکہ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ہتھیاروں کی فروخت فوراً بند کر دے، مگر تجارتی مفادات ان طاقتوں کو ایسا کچھ نہیں کرنے دیںگے ، جس سے جنگ بند ہو جائے یا خوف کا اختتام ہو، کیونکہ پھر اسلحہ کی خریداری بند ہو جائے گی۔ اس صورتحال سے پاکستان بھی لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ اس لئے خواہش تو یہ ہونی چاہیے کہ 6 ستمبر کو ہونے والے جنیوا مذاکرات کامیاب ہو جائیں لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو اتحادی ممالک کا پاکستان کی نوزائیدہ حکومت پر دبائو پھر آئےگاکہ، پاکستانی فوج ان کی طرف سے براہ راست حصہ لیں۔ 

مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت نے شدید دبائو کے باوجود یہاں تک کہ یو اے ای کے وزیر نے کھلی دھمکی بھی دی تھی،مگر شامی خانہ جنگی اور یمن کے معاملات سے لا تعلق رہنے کا فیصلہ کیا تھا، جو پاکستان کے مفاد میں تھا،حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس دبائو کو مسترد کرنے کی آج کل بڑی بھاری قیمت چکا رہی ہے۔ قیمت چاہے کوئی بھی چکانی ہو موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو اس پرائی آگ سے دور رکھے۔ ابھی پاکستان اس آگ میں کودا نہیں۔اگر ہم کود گئے تو ہر خلاف ورزی ہمارے کھاتے میں جائے گی، لہٰذا لاتعلقی میں ہی عافیت ہے۔ 

تازہ ترین