• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭’’میرے پاکستانیو ‘‘یا ’’میرے پاکستانیوں‘‘؟

بچوں کے ایک رسالے میں مدیر صاحب نے اداریے میں اپنے قارئین کو یوں مخاطب کیا ’’ساتھیوں !‘‘۔ نہ پوچھیے کہ کس اذیت سے گزرنا پڑ ا ۔ ایک اور رسالے میں لکھا دیکھا’’پیارے بچوں‘‘۔یہ سوچ کر دل تڑپ گیا کہ جب بچوں کے رسالے کے مدیر کو اتنی اردو بھی نہیں آتی کہ بچوں کو درست املا میں مخاطب کرسکے تو رسالے کے معیار کا کیا عالم ہوگا اور جو بچے اس رسالے کو پڑھیں گے ان کی زبان دانی کا کس طرح جنازہ نکلے گا۔

لیکن افسوس کہ اب توبعض اخبارات اور ٹی وی کے بعض چینل بھی اسی طرح لکھنے لگے ہیں اور جب کوئی سیاست داں جلسے میں قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے ’’میرے پاکستانیو!‘‘ تو چینل والے بڑے بڑے حروف میں لکھتے ہیں ’’میرے پاکستانیوں‘‘۔حالانکہ اردو قواعد کا یہ اصول تو سب کو معلوم ہے کہ جب کسی کو پکارا جائے اور جمع کا صیغہ ہوتو نون غنہ(ں) نہیں لکھا جائے گا۔ یعنی’’ میرے پاکستانیو‘‘درست ہے اور’’ میرے پاکستانیوں‘‘ غلط ہے۔ہاںاگر پکارا نہ جارہا ہو تو جمع کی صورت میں علامتِ جمع ’’وں‘‘ آئے گی۔مثلاً پاکستانیوں نے جوش و خروش سے یوم ِ آزادی منایا۔ لڑکوں نے بہت شور کیا۔ بچوں نے محنت نہیں کی۔ لڑکیوں نے نماز پڑھی۔

لیکن جب کسی کو نِدا دی جائے یعنی پکارا جائے تو اس کے لیے قواعد میںنِدائی حالت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ اردو میں ندائی حالت میں جمع کی صورت میں نون غنہ ہرگز استعمال نہیں ہوسکتا۔ایسے موقعے پر علامت ِ جمع ’’وں ‘‘ میں سے نون غنہ نکلنے کے بعد صرف واو (و ) رہ جاتا ہے، مثلا لوگو، یوم ِآزادی منائو۔ ارے لڑکو ، شور مت کرو۔ بچو، محنت کرو۔لڑکیو، نماز پڑھو۔

ً جب ’’لوگوں‘‘ کو ہم پکاریں گے تو نون غنہ نکال کر بولیں گے ’’اے لوگو‘‘۔ اسی طرح جمع میں تخاطب کی صورت میں کہیں گے : میرے عزیز و،دوستو، ساتھیو،ہم وطنو،کسانو، مزدورو، بھائیو، بہنو، صاحبو۔میرے پیارے بچو!

الطاف حسین حالی کی نظم کا مصرع ہے :

عاے مائو! بہنو ! بیٹیو! دنیا کی زینت تم سے ہے

یہاں ماؤ، بہنو،بیٹیو، کے ساتھ نون غنہ لکھنا (یعنی اے مائوں وغیرہ )بالکل غلط ہوگا۔

فیض احمد فیض کی ’’زنداں نامہ ‘‘ کی ایک غزل کے اشعار میں اس کا ستعمال ملاحظہ ہو :

؎ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

ناصحو! پند گرو ! راہ گزر تو دیکھو

وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں

دیکھنے والو ! کبھی ان کا جگر تو دیکھو

احمد فراز کے مجموعے ’’پس انداز موسم ‘‘ میں شامل ان کی نظم کے کچھ مصرعے میں ندائی حالت یوںآئی ہے :

آج ایسا نہیں ایسا نہیں ہونے دینا

اے مرے سوختہ جانو! مرے پیارے لوگو

اب کے گر ز لزلے آئے تو قیامت ہوگی

میرے دل گیر ، مرے درد کے مارے لوگو

کسی غاصب ، کسی ظالم ، کسی قاتل کے لیے

خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو

تواے میرے پاکستانیو! میرے پیارے لوگو!اپنی قومی زبان تو ٹھیک لکھا کرو!

٭مُجاز یا مَجاز؟

دونوں درست ہیں لیکن دونوں کا مفہوم اور استعمال الگ ہے۔ مَجاز(میم پر زبر کے ساتھ) کا مفہوم ہے : وہ جس کا وجود حقیقت نہ ہو،یہ حقیقت کی ضد ہے۔ اسی سے ’’مَجازی‘‘ کا لفظ بنا یعنی جو اصلی نہ ہو، جو حقیقی نہ ہو، جو غیر مادّی ہو۔ عشقِ حقیقی اور عشق ِ مجازی کی تراکیب سے شعر و ادب کے شائقین واقف ہیں۔ ولی دکنی کا مشہور شعر ہے:

؎شغل بہتر ہے عشق بازی کا

کیا حقیقی و کیا مجازی کا

لیکن گڑ بڑ یہ ہوتی ہے کہ جہاں مُجاز (میم پر پیش کے ساتھ ) بولنا ہو وہاں بھی مَجاز (میم پر زبر کے ساتھ ) بول دیا جاتا ہے۔ مُجاز (’’م ‘‘ پر پیش) کے معنی ہیں : جس کو اجازت دی گئی ہو، جس کو اختیار یا حق دیا گیا ہو ، جو کوئی ضابطہ نافذ کرنے کا اختیار یا authority رکھتا ہو۔ اسی لیے جس افسر کے پاس اختیار ہوتا ہے اسے ’’ا فسر ِمُجاز ‘‘ کہتے ہیں۔ اسے افسرِ مَجاز کہنا غلط ہے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین