• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسرین جبین ، پشاور

آج ہم یوم شہداء کی اُن عظیم ہستیوں کو خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں جنہوں نے 1965 کی جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ یہ اُنہی شہیدوں کے خون کا صدقہ ہے کہ ہم ایک محفوظ سرزمین پر آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اس موقع پر اُن ننھے شہیدوں کو یاد نہ کریں جنہوں نے 4 سال قبل اپنی سرزمین کے لئے جان کے نذرانے پیش کیے۔

ان مائوں کو قوم کا ’’سلام ‘‘ جو اپنے لخت جگر اپنی آنکھ کے تارے ، راج دلارے ، کٹریل جواں بیٹے قوم کی حفاظت وطن کی بقاء و سلامتی اور تحفظ کے لئے قربان کر دیتی ہیں پیدائش سے لے کر پال پوس کر جوان کرنے تک کی صعوبتیں برداشت کرنے، تعلیم ، صحت اچھے مستقبل اور زندگی کی دعائیں مانگتے ہوئے انہیں پروان چڑھانے والی ماں اور باپ جب اپنے لعل کے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھنا شروع کر تے ہیں تو دھرتی ماں اس کو اپنی طرف بلا لیتی ہے۔ آج یوم شہدا پر اس شہید کی ماںاور باپ بھی اپنے لخت جگر کو یاد کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کے جس کا لہو وطن کی آبیاری میں کام آ گیا ۔ آج یوم شہدا کے موقع پر آرمی پبلک سکول کے شہید طالب علم محمد علی شہید کی ماں کہتی ہیں کہ میں جب بھی کسی بھی فوجی جوان کو دیکھتی ہوں تو مجھے ان میںاپنا علی نظر آتا ہے علی ایس ایس جی کمانڈو بننا چاہتا تھا وہ بچپن سے ہی کارٹونز بھی دیکھتا تو اس طرح کے دیکھتا جس میں ایکشن ہوتا۔اور کھیلتا بھی تو چور سپاہی کے کھیل کھیلتا ۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کوختم کر دینے کے حوالے سے پروگراموں میں دلچسپی لیتا ۔ یوم شہداء پر آج مجھے اپنے بیٹے کی شدت سے یاد آرہی ہے آج شہیدوں کا دن ہے جنہوںنے اپنی جانیں قربان کر دیں آج میں سوچتی ہوں کہ یہ فوجی جوان بھی میرے ہی بیٹے ہیں اللہ ہماری ڈھارس بندھواتا ہے شہید کی ماں کا مقام بہت بلند ہے لیکن مجھے اس مقام کے حصول میں بہت درد محسوس ہوتا ہے علی میرا اکلوتا بیٹا تھا جس کی سانسوں سے میری سانسیں چلتی تھیں لیکن میں نے ہمیشہ اس کی کامیابی کی دعائیں کی اور شاید اللہ کو اس کی یہی شہید ہو جانے کی کامیابی منظوریتھی میں جب نماز کے بعد دعا کرتی وہ پوچھتا تھا کہ کیا دعا کررہی ہیں میں ہمیشہ کہتی کہ تم کامیاب ہو جائو ’’ جرنل ‘‘ بن جائو ہمیں بھی شوق تھا کہ وہ کامیاب ہو کر اور پاک آرمی میں جرنل بنے نکلے اگرچہ وہ کامیاب تو ہوا لیکن اس کی کامیابی میں بہت درد ہے جو ہماری برداشت سے باہر ہے ۔

اس کی کامیابی میں شہادت کا لفظ میرے منہ سے کبھی نہیں نکلا لیکن اس کی کامیابی شہادت کے رتبے سے بڑھ کر اور کیا ہوگی۔ میں آج بھی محسوس کرتی ہوں کبھی کبھی خواب میں اسے فوجی جوان بنا دیکھتی ہوں وہ مجھ سے آکر گلے ملتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے لئے اور ملک کے لئے میرا ریکارڈ آپ دیکھیں گی۔ شہید کا رتبہ اور عظمت و مقام بہت بڑا ہے اور یہی دنیا اور آخرت میں میری کامیابی ہے وہ ہیرو بننا اور اپنا نام روشن کرنا چاہتا تھا اللہ نے اسے شہادت کا رتبہ دے کر اس کو لازوال ہیرو بنا دیا اور اس کانام روشن کر دیا یوم شہداء پر ہم ایک شہید کے والدین ہونے کی حیثیت سے فخر تو محسوس کرتے ہیں لیکن ہمیں اس فخر میں بہت درد بھی محسوس ہوتا ہے

محمد علی کے والد شہاب الدین نے اپنے شہید کے شوق کے بارےمیں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے ملکی دفاع کا شوق تھا۔ وہ آرمی کے رینکس کے بارےمیں پوچھتا رہتا کہ کیپٹن کے بعد کیا بنتے ہیں کرنل کب بنتے ہیں شہادت کے بارےمیں خاص ذکر نہیں کرتا لیکن کمانڈو بن کر ملک کی حفاظت کا ذکر کرتاگ رہتا اسے باڈر پر لڑنے کا جنون کی حد تک شوق تھااس کے خیالات بہت اونچے تھے وہ اعلیٰ مقام حاصل کرنا چاہتا تھا وہ اس چھوٹی عمر سے ہی فوجی جوانوں کی طرح عادات و حرکات کرتا شاید اس لئے اللہ نے اس شہادت کے رتبے کے لئے چنا تھا۔ محمد علی خان شہید کی ماں گل رعنا ے کہاکہ شہداء کی عظیم قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیا جائے اور ملک کی ترقی و بقاء و سلامتی کے لئے انفرادی و اجتماعی کوششیں کی جانی چاہیں کہ ایک دن شہداء کے خون کا حساب حکمرانوں اہل اقتدار و اصحاب کو دینا ہوگا کہ جن مائوں نے اپنے لخت جگر قربان کئے جن باپوں نے اپنے ضعیفی کے سہارے گنوا دیئے جن جوانوں نے اپنی زندگیاں اور جوانیاں دائو پر لگا دیں اور وطن و ملت کی عظمت و سلامتی اور وقار کو قائم رکھا تو کیا ان لوگوں نے ان قربانیوں کی لاج رکھی جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور تھی ۔

تازہ ترین