• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخاب، سنیلہ قدیر، کراچی

میرے آبائو اجداد نے

اپنی آزادیوں کے سفر میں

تجھے قائدِ فتح مندی کہا تھا

کہ تو اپنی آواز میں بولتا تھا

قفس میں پرندوں کے پر کھولتا تھا

تری سوچ میں روحِ عصررواں تھی

جو نقارہ جسم وجاَں تھی

قیادت تری

جذبہ و عقل کی لوح پر نقشِ آزردگاں تھی

ترے قافلے میں وہ لوگ آگئے تھے

جو پچھلی صدی کا نمائیندہ کردار بن کر جیے

ان کی نسلیں

تجھے اپنے خوابوں میں آباد دیکھنا چاہتی تھیں

ہماری نئی زندگی کی حدوں میں

جو تاریخ چہرہ گری کررہی ہے

وہاں سب سے اونچائی پر

تیری تصویر رکھی ہوئی ہے

دھول اڑاتے ہوئے روز و شب میں

ترا حوصلہ

عزم و ہمت کے سورج اگاتا رہا

لشکرِ وشمناں کے مقابل بھی تو

اپنی مشعل جلاتا رہا

اپنی تہذیب کی منفرد اہمیت

جس کی پہچان خود آگہی ہے

جو تیری میں شام رہی

اپنے لوگوں کا وہ اجتماعی چلن بن گئی

برف گرتی رہی

اور تیرا ارادہ نئی دھوپ کا استعارہ بنا

ہر سیہ پوش موسم میں تو ہی ستارہ بنا

جوزمیں مدتوں سے غلامی کو پہنے ہوئے تھی

اسے تونے جاہا

تو وہ پاک ارضِ وطن بن گئی

وہ جو اپنے پرانے حصاروں میں

بوڑھی حویلی میں زخموں سے لبریز تھے

جشنِ آزادیوں کا منانے لگے

جبر کے خوف سے جل رہے تھے جو لوگ

اپنی خوش رنگ بارش میں آکر نہانے لگے

تازہ خوشیوں کے پرچم اُڑانے لگے

میرے آبائو اجداد نے تجھ کو قائد کہا تھا

کہ تو اپنی آواز میں بولتا تھا

قفس میں پرندوں کے پر رکھولتا تھا۔۔۔۔۔

تازہ ترین
تازہ ترین