• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیلنج کا لفظ سنتے ہی ذہن میںمدِ مقابل ہرانےاور خود کو اس سے بہتر ثابت کرنے کا جنون سوار ہو تا ہے۔ یوں تو زندگی کی دوڑ میں مشکلات و چیلنجز کا سامنے کرنے سے انسان جسمانی و جذباتی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے، اسے مقصد حیات ملتا ہے۔ لیکن اگر یہ ہی چیلنجز سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیئے جائیں تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹرینڈ کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ ہر ایک صارف اسے پورا کرنے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے کہ بس کسی طرح وہ سامنے والے سے بہتر انداز میں اس چیلنج کو پورا کر کے سوشل میڈیا کی زینت بن جائے اور چند لمحوں میں اس کی تصویر یا وڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو اور وہ راتوں رات دوست احباب اور عزیز و اقارب سے ڈھیروں لائیکس اور کمینٹس کے ذریعے داد وصول کرکے شہرت کے آسمان کا چمکتا ستارہ بن جائیں۔ ایک جانب یہ چیلنجز صارفین کو شہرت دلانے کا باعث بنتے ہیں تو دوسری جانب یہ ان کی نفسیات پر گہرا اثر بھی مرتب کرتے ہیں۔ 

چیلنجز پورا کرنے کی یہ دوڑ فیس بُک کے اوائل دور سے ہی شروع ہوگئی تھی لیکن ابتداً اسے وہ اہمیت حاصل نہیں تھی جو موجودہ دور میں ہے۔ آج سوشل میڈیا پر چیلنجز کو پورا کرنے کا جنون کسی وباؤ مرض یا بخار کی طرح چند لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ایسے ہی چند چیلجز کے بارے میں پڑھنےکو ملےگاجو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے۔ ان میں سے بیشتر بظاہر نہایت آسان نظر آتے ہیں لیکن جب انہیں خود کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آسان نظر آنے والے یہ چیلنجز کتنے مشکل ہیں۔ ان میں سے چند تو ایسے بھی ہیں، جو کرنے والے کی جان پر بھاری پڑگئے اور کئی افراد اپنی جان سے بھی گئے۔

پلینکنگ چیلنج (2010)

2010 کے اوائل میں مقبول ہونے والا پلینکنگ چیلنج تھا، جو کہ نام سے ظاہر ہے، کسی تختہ یا لمبی لکڑی کے ٹکڑےکی طرح سیدھے پڑے رہنا۔یعنی جیسے لکڑی کا ٹکڑا ایک جگہ سیدھا پڑا رہتا ہےبالکل اسی طرح ایک جگہ انسان پڑا رہے اور پھر اپنی تصویر بنوا کر سوشل میڈیا پر ڈال دینا ۔ آٹھ برس قبل ٹرینڈ بنے والا یہ چیلنج جس قدر آسان دکھائی دیتا ہے، یہ اتنا ہی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ تختے کی طرح سیدھے پڑے رہنے میں کیسا خطرہ یا اس طرح کسی کی جان کیسے جاسکتی ہے، تو ہم اس حوالے سے آپ کوبتاتے چلیں کہ جب 2006 میں فیس بُک پر پیچز کا فیچر متعارف ہوا تو صارفین ایک فیس بُک پیچ پر ایسی تصاویر پوسٹ کرنے لگے جس میں کوئی شخص مختلف سطحوں پر سیدھا لیٹا ہوا ہوتا تھا ، ان تصاویر میں بعض اصل جب کہ اکثر ایڈیٹڈ ہوا کرتی تھیں۔ چوں کہ اس زمانے میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک صارفین اتنی بڑی تعداد میں نہیںتھے جتنے آج ہیں، اس لیے یہ تصاویر زیادہ وائرل نہ ہوسکیں۔ بعدازاں 2008 میں آسٹریلیا میں زمین پر لیٹ کر تصاویر بنوانے کا کھیل مقبول ہونے لگا جو 2006 کی تصاویر سے ملتا جلتا تھا۔ 

یہ کھیل مارچ 2010 میں برطانیہ تک پہنچ گیا اور کئی مقامی و غیر ملکی افراد اس میں حصہ لیتے نظر آئے۔ پہلے ہی ہفتے میںایک لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد اس کھیل کا حصہ بنے اور مختلف جگہوں پر لیٹ کر اپنی تصاویر بنا کر فیس بک اور یوٹیوب پر ڈالتے رہے، یہاں تک کہ اس حوالے سے بلاگز لکھے جانے لگے، ٹی وی شوز میں ان تصاویر کو دکھایا جانے لگا اور معروف شخصیات بالخصوص اینٹرٹینٹمنٹ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ فیس بک کے آفیشل پیچ پر اس حوالے سے ضابطے بھی پوسٹ کئے گئے کہ کس طرح لیٹ کر تصویر بنانی ہے،جن میں بتایا گیا کہ، کسی بھی ہموار سطح پر اوندھے یعنی پیٹ کے بل ایسے لیٹنا ہے کہ اس چیلنج کو کرنے والے کی ناک زمین کو چھوئے، تصویر بناتے وقت اس کا چہرہ نظر نہ آئے اور پاؤں کے انگوٹھے بالکل سیدھے ہوں۔ لیکن کچھ الگ اور نت نئے انداز میں چیلنج کرنے کی چاہ میں چند منچلوں نے اسے اس قدر خطرناک بنا دیا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے۔ کسی نوجوان نے چلتی ٹرین کی پٹری پر اوندھے لیٹ کر تو کسی نے جوش میں آکر ساتھویں منزل کی بالکونی کی دیوار پر لیٹ کر تصویر بنوانی چاہی، ان کے اسی جوش، کچھ الگ کرنے کی خواہش اور مہم جوئی کے شوق نے ان کی جان لے لی۔ نیز الیکڑونک ڈیزی کارنیول کے دوران پیش آنے والے فسادات میں بھی مظاہرین کی بڑی تعداد نے پلینکنگ یعنی اوندھے لیٹ کر احتجاج ریکارڈ کروایا، جس کے بعد اس چیلنج پر پابندی عائد کر دی گئی۔

آئیس بکیٹ چیلنج (2014)

’’آئس بکیٹ چیلنج‘‘کا نام سنتے ہی جسم میں جھرجھری سی آجاتی ہے، اس کے بارے میں سوچتے ہی ٹھنڈ محسوس ہونے لگتی ہے۔ 2014 سے 2016 تک، دو برس کے دوران جتنی مقبولیت اس منفرد چیلنج کو حاصل ہوئی اتنی کسی اور کو نہیں مل سکی،منفرد اس لیے کہ یہ دیگر چیلنجز کی طرح کسی کے شوق کی تکمیل یا تسکین کا باعث نہیں بلکہ یہ ایک آگاہی مہیا کرنے والی مہم کا حصہ تھا۔ یہ مہم ’’امائوٹروفک لیڑرل سیلورئوسس‘‘ (اے ایل ایس) نامی موزی بیماری کے حوالے سے عوام میں آگاہی بیدار کرتی تھی اور چیلنج کو پورا کرکے، حاصل ہونے والی رقم اس موذی بیماری کے علاج کے لیے کی جانے والےتحقیقی کام میں خرچ کی گئی۔ واضح رہے کہ اے ایل ایس ایک ایسی موذی بیماری ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے، یہ دماغ اعصابی خلیوں اور ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کرکے جسم کے مختلف پٹھوں کو کمزور کردیتی ہے، جس سے مریض کو بولنے، کھانا کھانے اور سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم اس بیماری کا کوئی علاج اب تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ 

اس امدادی عمل میں حصہ لینے والے کو ایک نہایت آسان سا چیلنج مکمل کر کے اس کی وڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنی ہوتی ہے ، ساتھ ہی اپنے دوستوں کی فہرست میں سے کسی تین افراد کو یہ چیلنج کرنے کے لیے چوبیس گھنٹوں کا وقت دینا ہوتا ہے، پھر وہ تین افراد اگر چیلنج قبول کرتے ہیں توپھرانہیں مقررہ وقت میں چیلنج مکمل کر کے اپنے مزید تین دوستوں کو یہ چیلنج دینا ہوتا ہے، چوں کہ اس چیلنج کو پورا کرکے حاصل ہونے والی رقم ایک اچھے کام کے لیے جمع کی جا رہی تھی شاید اسی وجہ سے دنیا بھر سے لوگوں نے اس میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا، یہاں تک کہ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس اور امریکا کے سابق صدر جارچ ڈبلیو بش نے تک اس میں حصہ لیا اور امدادی مہم میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس چیلنج کو فروغ اس وقت ملا جب گالف کے مشہور کھلاڑی جارچ نعرمان نے نیوز اینکر کو چیلنج کرنے کے لیے ٹیگ کیا، پھر کیا تھا یہ چیلنج سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا اور دو سال کے طویل عرصے تک سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا۔ اس سے کُل ایک سو پندرہ ملین ڈالرز کی رقم جمع کی گئی، جس میں سے 67 فی صد حصہ یعنی 77 ملین ڈالرز تحقیقاتی کام میں، جب کہ 20 فی صد حصہ یعنی 23 ملین ڈالرز اے ایل ایس کے مریضوں میں تقسیم کیا گیا۔

مینیکوئن چیلنج (2016)

’’مینیکوئن ‘‘مجسمے کوکہتے ہیں۔ نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ مینیکوئن چیلنج، مجسمے کی طرح ساکت ہونا ہے۔16اکتوبر 2016 کو فلوریڈا کے ایک اسکول میں چند طالب علموں نے تقریح کرتے ہوئے ایک وڈیو بنا کر اپنے انسٹاگرام پر یہ سوچ کر اپ لوڈ کر دی کہ ان کے اسکول سے تعلق رکھنے والے دیگر جماعتوں کے طالب علم بھی ایسا ہی کرکے دکھائیں گے یا پھر ان کی منفرد انداز میں فلمائی گئی وڈیو کے چرچے پورے اسکول میں ہوں گے اور وہ لوگ اپنے اسکول کے طالبات کے درمیان مشہور ہو جائیں گے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کا یہ اقدام انٹرنیٹ صارفین اس قدر پسندکریں گے کہ، جو صرف اسکول کی حد تک شہرت حاصل کرنے کے خواہاں تھے وہ راتوں رات سوشل میڈیا پر مشہور ہو جائیں گے۔ ان کے اس چیلنج کو صرف ساتھی طالبات ہی نہیں بلکہ معروف شخصیات، سیاست دان، اداکار و گلوکار تک قبول کرکے اس پر، پرفارم کریں گے۔ ہوا کچھ یوں کہ 22 ستمبر 2016 کو رائے سریم مڑد (Rae Sremmurd) کا گانا ’’بلیک بیٹلز‘‘ ریلز ہوا جو تیزی سے نوجوانوں میں اتنا مقبول ہو گیا کہ، صرف بیس دن بعد فلوریڈا کے ’’ایڈوڈ ایچ۔ وائٹ ہائی اسکول‘‘ کے ایمیلی نامی ایک طالب علم کو اسکول کے فارغ اوقات میں بیٹھے بٹھائے کچھ خیال آیا اور وہ اپنی جماعت میں سب کےسامنے چند لمحوں کے لیے ساکت کھڑا ہو گیا، جس پر جماعت کے ایک طالب علم نے اسے مجسمے سے تشبیہ دی تو اس کے ساتھی بھی ااس کا ساتھ دینے آگئے اور وہ بھی اسی کی طرح ساکت کھڑے ہو گئے، چوں کہ یہ نوجوان نسل ہے، اور انہیں ہر چیز سب سے پہلے سوشل میڈیا پر ڈالنے کا شوق ہوتا ہے، اس لیے ایک طالب علم نے ان کی وڈیو بنانی شروع کر دی کہ وہ اسے انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر ڈال کے سب سے داد وصول کرے گا۔ جب وہ وڈیو بنا رہا تھا توبیک گراونڈ میں بلیک بیٹلز گانا بج رہا تھا، پھر کیا تھا وڈیو تیزی سے وائرل ہوئی اور صرف دو ہفتوں میں4000 سے زائد بار، ری ٹوئیٹ کی گئی اور دنیا بھر سے مختلف صارفین اپنے اپنے انداز میں اس چیلنج کو پورا کرنے میں لگ گئے۔ ترکی کی ائر لائن کے عملے نے بھی وڈیو بنا کر چیلنج میں حصہ لیا اور چین کے بلند ترین گلاس برج پر ایک گروہ نے یوگا کے مختلف انداز میں وڈیو ریکارڈ کی، ہر ایک کی وڈیو کو بےحد پسند کیا گیا۔ اس چیلنج کو پورا کرنے کے دوران ایڈوڈ اسکول کے طالباء کا صرف انداز ہی نہیں بلکہ بلیک بیٹلز کا گانا بھی مقبولت حاصل کر گیا۔

جب خبر بلیک بیٹلز کے گلوکار، رائے سریم مڑد تک پہنچی تو انہیں بھی ان بچوں کا انداز اس قدر بھا گیا کہ اپنے اگلے کانسرٹ میں نہ صرف اسے پرفارم کیا بلکہ کانسرٹ میں شرکت کرنے والوں سے بھی اس پر، پرفارم کروایا اور چند لمحوں کے لیے سب کو ساکت کر دیا۔ ہزاروں افراد بیک وقت ساکت ہو کر اس چیلنج کو ایک الگ ہی درجے پر لے گئے، صرف یہ ہی نہیں بلکہ امریکا سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور میوزیک بینڈ نے بھی اس چیلنج کو ا س قدر سراہا کہ، اپنے گانے کی وڈیو میں اس خیال کا استعمال کیا۔ قارئین کو یہ جان کریقیناََ حیرانی ہوگی کہ، صرف عام افراد، شائقین، اداکار، گلوکار ہی نہیں بلکہ امریکی سیاست دان بھی اس چیلنج کے مداح نکلے۔ 2016ء میں ہونے والے امریکی انتخابات کے دوران ہیلری کلنٹن نے اس چیلنج کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا اور اس پر، پرفارم کرکے عین انتخابات کے روز، وڈیو سوشل میڈیا پر اس پیغام کے ساتھ ڈالی کہ، ’’آپ آج اس طرح ساکت ہوکر گھر میں بیٹھنے کی بجائے، گھر سے نکلیں اور ووٹ ڈالنے ضرور جائیں‘‘۔ اورتواورانسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں نے بھی اس چیلنج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ’’بوسٹن‘‘نامی ایک کتے کی وڈیو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی جس نے بلیک بیٹلز کے گانے پر دو منٹ تک ساکت کھڑے ہو کر سب کو حیران کردیا۔

رننگ مین چیلنج (2016)

جب سے سوشل میڈیا پر چیلنجز کا سلسلہ شروع ہوا ہے کم و بیش چار سے چھ ماہ میں کوئی نہ کوئی چیلنج سامنے آجاتا ہے لیکن تمام چیلنجز شہرت کے آسمان پر نہیں پہنچتےبلکہ چند ہی عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔کبھی کسی کے صرف لیٹنے کا اسٹائل اتنا پسند کیا جاتا ہے کہ اسے ٹرینڈ بنا دیا جاتا ہے یا پھر کسی کا ڈانس اس قدرو منفرد ہوتا ہے کہ ہر کوئی اسی کے نقشے قدم پر چلنا چاہتا ہے۔ ایسا ہی کچھ 2012 میں اس وقت ہوا جب عالمی سطح پر جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے گلوکار ’’پسے‘‘ کے گانے ’’گینگنم اسٹائل‘‘ کو لوگوں نے فالو کرنا شروع کیا اور تیزی سے ان کے گانے اور اس پر کیے گئے اسٹیپس کی نقل کر کے وڈیو بنا کے دوستوں کے ہمراہ شئیر کرتے رہے۔لیکن جلد ہی عوام کے سر سے اس کا جنون اُتر گیا۔ 2016ء میں مینیکوئن چیلنج کے علاوہ ڈانسنگ چیلنج ’’دی رننگ مین‘‘بھی بےحد مقبول ہوا۔ نام سن کے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی تصاویر یا وڈیوز میں چیلنج پورا کرنے والا تیزی سے بھاگ رہا ہوگا، یا بھاگتے بھاگتے وڈیو بناکر اپ لوڈ کرتا ہوگا۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر چیلنج کیسا، کیوں کہ چیلنج تو کسی ایسی للکار کو کہتے ہیں جو سامنے والے کے لیے کرنا مشکل یا ناممکن ہو۔ رننگ مین چیلنج دراصل ڈب ڈانس سے مماثلت رکھتا ہے۔ ڈب ڈانس وہی رقص ہے جو 2015ء میں رقبی کے مقابلوں کے دوران جیتنے والے کھلاڑیوں نے کیا تھا، اس ڈانس کو سوشل میڈیا پر پسند تو بہت کیا گیا لیکن یہ وائرل نہیں ہوا۔ بعدازاں اسی سے مماثلت رکھنے والا ڈانس، رننگ مین چیلنج کی صورت میں دنیا بھر میں اس وقت تیزی سے وائرل ہواکہ این سی اے اے چیمپیئن شپ کے دوران کھلاڑیوں کی وڈیو منظر عام پر آئی جس کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے صارفین نے اس انداز میں رقص کر کے اپنی وڈیوز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ڈالنا شروع کر دیں۔ 

ابتداً وڈیوز اپ لوڈ کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد مختلف کھیل کے میدان سے تعلق رکھنے والوں اور معروف شخصیات کی تھی، جو 1996 میں ریلز ہونے والے ایک گانے ’’مائی بو‘‘ پر خاص انداز میں ڈانس کرتے تھے، بعدازاں عام صارفین نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے جوڑیوں میں، اسی گانے پر اپنی وڈیوز ریکارڈ کرنا شروع کیں۔ اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ یہ چیلنج کہاں سے شروع ہوا اور این سی اے اے کے کھلاڑیوں نے کس سے متاثر ہوکر میدان میں پرفارم کیا تومعلوم ہوگا کہ انسٹاگرام پر ’’@KevinVincent ‘‘ نامی صارف نے سب سے پہلے 16 جنوری 2016 کو ایک وڈیو اپ لوڈ کیا، جس میں امریکی ریاست نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے دو طالب علم ’’کیون وینسینٹ‘‘ اور ’’جیریمیاہ ہال‘‘ اس گانے پر مخصوص انداز میں پیروں کا ڈانس کر رہے تھے، جسے 20 اپریل یعنی تین ماہ کے دوران دس ہزار سے زائد لائیکس اور کمینٹس موصول ہوئے۔ لیکن کیون اور جیریمیاہ کی یہ وڈیو جب انسٹاگرام پر پوسٹ ہوئی تو اس کے فوری بعد یونیورسٹی لیول پر باسکٹ بال کھیلنے والے دو کھلاڑی اس قدر متاثرہوئےکہ انہوں نے بھی اسی انداز میں وڈیو بنانے کا ارادہ کیا اور16 جنوری 2016 ہی کو اپنی وڈیو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی، جسے پانچ ہزار تین سو لائیکس ملے، ان کی وڈیو نے ہی دیگر ایتھلیٹس کو اس جانب راغب کیا ،صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس چیلنج کی وجہ سے بیس برس پرانا گانا ایک بار پھر ٹاپ ٹوئنٹی کی فہرست میںآگیا۔واضح رہے کہ 1996ء میں مائی بو گانا ٹاپ ٹوئنٹی کی فہرست میں اٹھار ویں نمبر پر تھا، جب کہ 2016ء میں یہ ہی گانا چودہویں نمبر پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ رننگ چیلنج کی مقبولیت کے باعث یہ گانا اسی برس پینتس ہزار سے زائد بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا۔

کی کی چیلنج (2018)

2016 کے بعد رواں برس (2018)ایک اور ڈانسنگ چیلنج تیزی سے وائرل ہوا، جس کا نام ’’کی کی چیلنج‘‘ ہے۔ اسے ’’ان مائی فیلینگ چیلنج‘‘ کے نام سے بھی جاناجاتا ہے۔ اس چیلنج کو پورا کرنے کے لیے پرفارمر کو کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ریپ سنگر ’’ڈریک‘‘ کے گانے ’’ان مائی فیلینگ‘‘ پر چلتی گاڑی سے اُتر کر پرفارم کرناہوتا ہے،جب کہ پرفارم کرنے والے کی وڈیو گاڑی چلانے والا ہی ریکارڈ کرتا ہے،جو ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے انہوں نے اس چیلنج کو کامیابی سے مکمل کر لیا اور جو ناکام ہوئے ان میں سے بیشتر کی جان داؤ پر لگ گئی۔ جی ہاں یہ چیلنج دیکھنے میں جتنا آسان اور دلچسپ لگتا ہے، اتنا ہی خطرناک ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران یقیناً سوشل میڈیا صارفین کی نیوز فیڈ، ٹوئیٹر ہنڈل اور انسٹاگرام پر اس طرح کی ویڈیوز کی بھرمار ہوئی، جس میں ایک شخص چلتی گاڑی سے اُتر کر ڈانس کرتا ہے اور واپس چلتی گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے، یہ ہی ہے’’ کی کی چیلنج‘‘۔ اس کا آغاز رواں برس جون میں اُس وقت ہوا جب ڈریک کی نئی البم کے گانے ان مائی فیلینگ کو عام شائقین کے ساتھ ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام کے مشہور مزاحیہ اداکار ’’شیگی‘‘ نے رات گئے بیچ سڑک پر اس گانے پر چند اسٹیپس کیے اور اس کی وڈیو اپنے انسٹاگرام پر#kiki_challengeکے ساتھ ڈال دی۔ 

واضح رہے کہ انہوں نے اس چیلنج کو کرتے وقت کسی گاڑی کا استعمال نہیں کیا تھا، البتہ ان کی وڈیو میں بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی گاڑی کے باہر ڈانس کر رہے ہیں۔ اس چیلنج کو قبول کرنے والوں نے اس چیلنج کو ایک نئے درجے پر لے جانے کے لیے چلتی گاڑی کا استعمال کیا، اسے صرف عام صارفین نے ہی نہیں بلکہ معروف امریکی گلوکار ویل سمتھ نے بھی قبول کیا، اس پر بہترین انداز میں پرفارم کرکے مداحوں کا دل موہ لیا اور چند ہی ہفتوں میں دنیا بھرمیںسوشل میڈیا پر عام و خاص افراد کی،’’ کی کی چیلنج‘‘ پر پرفارم کرتی وڈیوز نظر آنے لگیں۔ یہاںہم آپ کویہ بتاتے چلیں کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مشہور و معروف شخصیات، اداکاروں، نیوز اینکرز، سوشل میڈیا کی شخصیات وغیرہ نے اس چیلنج میں حصہ لیا، یہ ہی نہیں بلکہ پولینڈ سے پاکستان آئی ہوئی ٹریول لاگر ایوا نے جشن آزادی کے موقع پر پاکستانی پرچم اوڑھے اس چیلنج کو سرکاری ائرلائن کے جہاز میں پرفارم کیا، جسے ناظرین نے بےحد پسند کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کو مزید بڑھایا۔ 

لیکن یہاں یہ بھی واضح کردیںکہ ان تمام وڈیوز میں پرفارم کرنے والے کامیاب نہیں ہوئے بلکہ کچھ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، جب کہ کئی افراد حادثے کا شکار ہوکر اسپتال پر پہنچ گئے۔ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے حادثات کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس اہلکاروں نے عوام کو انتباہ کیا ہے کہ وہ کی کی چیلنج کرنے سے گریز کریں، نیز اگر سرِراہ کوئی اس چیلنج کو کرتا دکھائی دیا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

فالنگ اسٹارز (2018)

ابھی سوشل میڈیا صارفین، کی کی چیلنج کے سحر سے نہیں نکلے تھے کہ جولائی میں ایک اور چیلنج تیزی سے وائرل ہونے لگا، اس چیلنج کو اگر ماضی کے پلینکنگ چیلنج سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہوگا، کیوں کہ پلینکنگ چیلنج کو کرنے والے مختلف جگہوں پر اوندھے منہ لیٹ کر تصاویر بنواتے تھے۔ اس چیلنج میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اسے کرنے والے منہ کے بل کسی اونچی جگہ سے گرنے کے انداز میں تصاویر بنواتے ہیں۔ اس کو فالنگ اسٹارز کا نام دیا گیا ہے۔ اب تک جو تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں، ان میں کوئی اپنے جیٹ سے گرتا ہوا نظر آ رہا ہے تو کوئی سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا رہا ہے۔ 

ایک خاتون نے تو کورئیر کمپنی کی گاڑی سے گرتے ہوئے تصویر بناکر اپ لوڈ کی ہے۔ یہ چیلنج روس سے شروع ہوا۔ روسی سوشل میڈیا صارفین نے ایسی تصاویر بنوا کر پوسٹ کیں اور پھر اپنے دوست احباب کو ان تصاویر میں ٹیگ کر کے انہیں بھی ایسا کرنے کے لیے للکارا ہے، فی الحال یہ چیلنج روس سے یورپ تک کا سفر طے کر چکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ دو ماہ قبل شروع ہونے والا یہ چیلنج کس حد تک طول پکڑتا اور کہاں کہاں وائرل ہوتا ہے۔

آپ کے کیا ارادے ہیں، کسی چیلنج کو قبول کرنے کا ارادہ ہے یا اپنا چیلنج پیش کریں گے؟ یقیناََ کچھ تو کریں گے،ایسا کچھ جو منفرد بھی ہو، دل چسپ بھی۔

تازہ ترین