• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلثوم نواز لاہور میں 29مارچ 1950ء میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئیں انہوں نے 1970 میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے علاوہ اردو شاعری میںجامعہ پنجاب سے ایم اے کیا ۔ کلثوم نواز کے دو بہن بھائی تھے کلثوم نواز اور میاں محمد نواز شریف میں پسند کی شادی ہوئی ۔ کلثوم نواز سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی صدر بھی رہی ہیں ۔ اس سے پہلے ان کے شوہر نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے ۔ 

بیگم کلثوم نواز نواز شریف سے عمر میں ایک سال چھوٹی تھی ۔ وہ مشہور زمانہ پہلوان گاما کی نواسی تھیں ۔ ان کے چار بچے حسن نواز ، حسین نواز ، مریم نواز اوراسما نواز شامل ہیں ۔ تین بار پاکستان کی خاتون اول بننے کا اعزاز رکھنے والی بیگم کلثوم نواز اچھے برے وقت میں نواز شریف کی بہترین ساتھی ثابت ہوئیں۔ انتخابی مہم سے لیکر جلا وطنی کے دور تک ہر تحریر میں مسلم لیگ ن کی آواز بنیں۔ بیگم کلثوم نواز نے گریجو ایشن مکمل کرنے کے بعد صنعتکار نواز شریف سے ملاقات کی ۔ شادی کے بعد بھی کلثوم نواز نے تعلیمی سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا اور پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ جنرل مشرف نے 1999 مین نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو کلثوم نواز سیاست میں آگئیں ۔ ادب سے ذوق ہونے کی وجہ سے وہ اپنے میاں کے لئے تقریرں بھی لکھتی رہیں ۔ 1999سے 2002 تک پارٹی کی سربراہ بھی رہیں اور مشکل وقت میں اپنے خاوند اور پارٹی کارکنوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ بیگم کلثوم نواز صوم و صلوت کی پابند تھیں ۔ بیگم کلثوم نواز نے پرویز مشرف کے دور مین افسوس ناک سلوک دیکھا اس کے بعد انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کو سیاست سے دور رکھیں گی ۔

بیگم کلثوم نواز کا سیاسی سفر طویل تو نہ تھا مگر ان کی سیاسی جدوجہد ایک زمانے تک یاد رکھی جائے گی۔بیگم کلثوم نواز کا سیاسی سفر12 اکتوبر 1999ء کو شروع ہوتا ہے جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا ۔پرویز مشرف نے نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا تب امور خانہ داری نمٹانے والی خاتون بیگم کلثوم خاندان کی وہ واحد خاتون تھیں جنہوں نے میاں محمد نواز شریف بلکہ اپنے خاندان کے دیگراراکان کی رہائی کوششیں کیں ۔مسلم لیگ (ن) جس کے بارئے میں یہ کہا جانا لگا کہ اب اس جماعت کو کوئی وارث نہیں تو صرف بیگم کلثوم نواز ہی تھیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا تھا۔

کلثوم نواز نے 1999ء میں مسلم لیگ (ن) کی پارٹی کی قیادت سنبھالی، لیگی کارکنوں کو متحرک کیا اور جابر آمر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔انکی سیاسی جدوجہد کا ایک مشہور واقعہ ہے جو مسلم لیگ (ن) کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔کلثوم نواز کی اپنی پارٹی کیلئے جدوجہد اپنے عروج پر تھی ۔ایک روز صحافیوں کو اطلاع ملی کہ مال روڈ کے نزدیک بیگم کلثوم نواز کی گاڑی کاراستہ روک کر انکو اسی گاڑٰ ی سمیت جی او آرون کے احاطے میں کرین کے ذریعء پہنچا دیا گیا ہے۔صحافیوں نے دیکھا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر فیصل آباد کے صفدر رحمن پچھلی نشست پر بیگم تہمینہ دولتانہ، مخدوم جاوید ہاشمی اور جاتی امراء کا ایک ملازم تھا۔بیگم کلثوم نواز کو گاڑی سے نکالنے کی بے حد کوشش کی گئی ۔بیگم صاحبہ کو گاڑی سے نکالنے میں ناکامی پر سائلنسر میں کاغذ پھنسا کر انجن بند کر دیا گیا اور گاڑی کا اے سی بھی بند ہو گیا لیکن سخت گرمی میں گاڑی کی گھٹن میں دس گھنٹے خود کو محبوس رکھ کر انہوں نے وقت کی قوتوں کو پیغام دے دیا کہ ان کے آہنی عزم کو شکست نہیں دی جا سکتی ۔اس دن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے تمام بڑے رہنما اورسیاسی رہنما بیگم کلثوم کی جرات و بہادری کو دیکھتے ہوئے انکے قدم سے قدم ملا کر اپنی پارٹی کے قائد کو آزاد کروانے میں انکلے ساتھ سائے کی طرح رہے۔بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد اپنے شوہر نواز شریف کی رہائی تک ہی محدود تھیں ۔ بیگم کلثوم نواز ہر جلسے ہر پریس کانفرنس اور ہر ملاقاتی سے یہ بات ضرور کرتیں ’’میاں صاحب کی رہائی کے بعد میں واپس کچن میں چلی جاوںگی‘‘۔میاں صاحب کی رہائی کے بعد وہ واقعی کچن میں چلی گئیں اور ایسی گیئں جیسے کبھی کچن سے باہر ہی نہیں آئی تھیں ۔

جب نواز شریف قید تھے تو اس وقت بیگم کلثوم نواز کو راولپنڈی کے ورکرز نے مسلم لیگ ہاؤس اقبال روڈ پر دعوت دی اس دعوت میں شیخ رشید کو دعوت نہ دی گئی جب وہ وہاں سے گزرے تو انہوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ یہ ورکرز سب بدماش اور لفنگے ہیں آپ لال حویلی میں آئیں مین وہاں آپ کی دعوت کرتا ہوں جب بیگم کلثوم نواز لال حویلی پہنچی تو شیخ رشید نے کہا کہ مین معذرت خواہ ہوں میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ آپ سیڑھیاں واپس اتر جائیں ۔ اس وقت بیگم کلثوم نواز نے کہا کہ آپ نواز شریف کے نام پر چھ بار وزیر بنے ہیں میں تو چلی جاؤں گی لیکن آپ نواز شریف کو یاد رکھیں گے لیکن وقت گزر چکا ہو گا ۔ بیگم کلثوم نوازکو حالات نے عملی سیاست کے لئے باہر نکلنا پڑا اور وہ تجربہ بیگم کلثوم نواز زندگی بھر فرا موش نہیں کر سکتی بیگم کلثوم نواز کی سیاسی تحریک بوجہ مجبوری تھی ۔

بیگم کلثوم نواز کو داد ملنی چاہیے کہ انہوں نے چند دنوں کے اندر اندر اپنی دانشمندی سے پاکستانی سیاست اور بین ا لاقوامی میڈیامیں جگہ جگہ بنا لی ۔ جس کے لئے سیاستدانوں کو ایک عمر صرف کرنا پڑتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ فوجی حکومت نے اس کارواں کو نکلنے نہیں دیا جس کا علان کلثوم نواز نے کہا تھا ۔ لیکن اس سےکہیں زیادہ یہ بات درست ہے کہ کلثوم نواز اس غیر سیاسی کارواں سے جو سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھیں اس مین پوری طرح کامیاب رہیں ۔

نوازشریف کے پہلی مرتبہ 6 نومبر 1990ء کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر بیگم کلثوم نواز کو خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا جو 18 جولائی 1993ء تک برقرار رہا۔ وہ 17 فروری 1997ء کو دوسری مرتبہ خاتون اول بنیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا۔جون 2013ء میں انہیں تیسری مرتبہ خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو صرف 28 جولائی 2017ء تک ہی رہ سکا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر نوازشریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ انہیں این اے 120 سے ڈی سیٹ کردیا گیا۔

ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری ہوا تو مسلم لیگ (ن) نے نوازشریف کی اہلیہ (بیگم کلثوم نواز) کو انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ بیگم کلثوم نواز علیل ہونے کے باعث 17 اگست کو لندن چلی گئیں تھیں۔ جس کے باعث این اے 120 لاہور سے انتخابی مہم انکی بیٹی مریم نواز نے چلائی۔اور اس طرح کلثوم نواز نے حادثاتی طور پرباقاعدہ سیاست میں قدم رکھا ۔بیگم کلثوم نواز نے زندگی میں پہلی بار لاہور میں اپنے شوہرنواز شریف کی نااہلی کے باعث خالی ہونے والی نشست سے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا۔

کلثوم نواز گزشتہ 13ماہ سے علیل تھیں انہیں گلے کے کینسر کا عارضہ لاحق تھا انہیں گزشتہ برس اگست میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث لندن کے سپتال لایا گیاتھا جہاں ان کے گلے کی سرجری ہوئی تھی ۔ڈاکٹروں کی جانب سے دل کا دورہ پڑنے کی وجہ خون میں کینسر کلاٹ کا آنا بتائی گئی۔ہسپتال میں زیر علاج بیگم کلثوم نواز کو کئی بار کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی جیسے تکلیف دہ مرحلوں سے گزرنا پڑا۔کلثوم نوازکی طبیعت میں کئی ماہ سے اتار چڑھاؤ آتارہا۔ لیکن رواں برس جون میں ان کی طبیعت بگڑگئی اورانھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا۔بیگم کلثوم نواز کی کینسر کی تشخیص کے بعد مرض جسم کے دوسرے حصے میں پھیل جانے کے باعث انہیں مسلسل انتہائی اہم نگہداشت میں رکھا گیا۔نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے سیاسی مصروفیات کے باوجودکئی بارلندن جا کر ان کی عیادت کی۔اور کینسر کے مرض سے جنگ لڑتے لڑتے وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔

تازہ ترین