• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام میں سات برسوں سے جاری خوف ناک خانہ جنگی ،دہشت گردی اور بیرونی مسلح مداخلت نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ تباہی مچائی اور سب سےزیادہ جانی و مالی نقصانات سامنے آئے۔مگر تاحال یہ مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں شام کے مغربی شمالی شہر ادلیب کے مسئلے پر(جو حکومت مخالف فوج اور اس کی حامی شدت پسند تنظیموںکی آخری بڑی پناہ گاہ ہے)پر تہران میں روس کے صدر پوٹن، ترکی کے صدر طیب اردوان اور ایران کے صدرحسن روحانی نےملاقات کی۔اس اجلاس میں اد لیب (جہاں تیس لاکھ سے زاید شہری محصور ہیں)کی صورت حال پر غور کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ شام روس اور ایران اس شہر پر حملے کی تیاری کررہے ہیں۔یہ بھی بتایاجاتاہے کہ مذکورہ اجلاس سے چند گھنٹے قبل روس کے بم بار طیاروں نے وہا ں بم باری کی،اوردوسری خبر یہ ہے کہ وہاںمیزائل مارے گئے۔

ترکی کے لیے ادلیب کا مسئلہ بہت تشویش ناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادلیب ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ تیس لاکھ سے زاید شہری یہاںمحصور ہیں۔اس کےعلاوہ ترکی کے حمایت یافتہ جنگ جو دھڑےبھی یہا ں  موجود ہیں۔اگر ادلیب پر حملہ ہوتا ہےتو لازما لاکھوں شہری ترکی کی سرحد پر جمع ہوں گے۔یاد رہے کہ بیس لاکھ سے زاید پناہ گزین ترکی کے سرحدی علاقوں میں پہلے ہی سے موجود ہیں جس سےترکی کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔

ایران کا مسئلہ واضح ہے،کیوں کہ اس تمام خانہ جنگی اور بغاوت میں ایران نے شام کے صدر بشارالاسد کا ساتھ دیا ، ان کی حکومت کی حمایت کی اور اپنے جنگ جووں کی مدد سے صدر اسد کی حکومت کو بہت اہم سہارا فراہم کیا۔ روس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ شام میں بعث پارٹی کے آخری حمایت یافتہ رہنما اور روس کے حامی صدر بشارالاسدکی حکومت کو ہر صورت میں قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ روس کا بحیرہ روم میں آخری بحری اڈہ شام میں ہے۔ اس حوالے سے روس، شام میں صدر اسد کی بھرپور حمایت کرتا رہاہے اور آج بھی کررہا ہے۔ یہاں روس نے اپنے جدید لڑاکا بم بار طیارے، میزائل اور میزائل ڈیفنس سسٹم بھی استعمال کیا جس سے داعش کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔اب روس کے علاوہ امریکا اور برطانیہ نے بھی ہوائی حملے کم کردیے ہیں۔یہ شہر اب باغی فوجیوں اور القائدہ کی حمایت یافتہ تنظیم، حیات التحریر للشام سمیت ترکی کے حمایت یافتہ دھڑوں اور دیگر چھوٹی لڑاکا تنظیموں کا آخری ٹھکانہ بن چکا ہے۔ ایسے میں ایران اور روس فوری طور پر ادلیب پر حملے کرکے باغیوںکا خاتمہ کرناچاہتے ہیں،لیکن ترکی حملے کا مخالف ہے۔اقوام متحدہ کے مبصرین بھی حملے کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر حملہ ہوا تو وہ لاکھوں محصورین جو پہلے ہی مختلف مسائل اور بھوک کا شکار ہیں،بہت زیادہ متاثر ہوں گے اور یہ ایک بڑا انسانی المیہ ثابت ہوگا۔دوسری جانب شام میںامر یکا کے ایلچی نے خبردارکیا ہے کہ شامی حکومت باغیوںکے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنا چاہتی ہے۔ امریکی مبصر جم جینر کا بھی دعویٰ ہے کہ شامی حکومت کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کررہی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ قبل ازیں شام کے شہر دوما میںکیمیائی حملے کی وجہ سے تیس افراد ہلاک اور بہت سے بچے شدید متاثر ہوئے تھےجس کے جواب میں امریکا،برطانیہ اور فرانس کے لڑاکا طیاروں نےشام پر حملےکیےتھے۔ مگر شامی حکومت اور روس کیمیائی حملوں کے الزامات مسترد کرتے رہے ہیں۔

ان حالات میں صدر ٹرمپ نےاپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اگر روس اور ایران ادلیب پر حملے کرتے ہیں تو یہ بڑا انسانی المیہ ہوگا جس کے ذمےداریہ دونوں ممالک ہو ں گے۔مگر روس کا دعویٰ ہے کہ ادلیب اس وقت باغیوں کا بہت بڑا گڑھ بن چکا ہے جہاں باغی فوجیوںکےعلاوہ القائدہ، شدت پسند دھڑے اور تیس ہزار جنگ جو، جنہیں القائدہ کی حمایت حاصل ہے، جمع ہوچکے ہیں۔روس کے صدر پوٹن کا اصرارہے کہ باغیوںکا خاتمہ ضروری ہے جو سات سال سے ہر بار سیاسی حل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں،اس لیے انہیں مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ مزید برآں ادلیب شام کا ایک اہم شہر ہے،کیوں کہ تمام اہم اوربڑی شاہ راہیں یہاں سے گزرتی ہیں جوالیپو، لطاکیہ، ہامس اور دمشق کو ملاتی ہیں۔

شام میں سرگرم غیرملکی قوتوں میںسے ترکی زیادہ تشویش میںمبتلاہے۔ اول یہ کہ اس کے حامی ادلیب میں موجود ہیں، دوم یہ کہ لاکھوں افراد حملہ ہونے کی صورت میں ترکی کی طرف رخ کریں گے،سوم یہ کہ شامی کُرد موجودہ صورت حال میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں جس کا اثرترکی میں موجود کُرد گروہوں پر بھی پڑسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ کُردوں کی بڑی تعداد ترکی کے سرحدی علاقوں میں موجود ہے اور ترکی کی ہر حکومت انہیں قابو میں رکھنے کے لیے کسی بھی سخت اقدام سے گریز نہیں  کرتی۔اس کے علاوہ بشار الاسد کی حکومت کا استحکام ترکی کے لیے زیادہ مفید ثابت نہیںہوسکتا۔اس کے باوجود ترکی شام میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے تاکہ علاقائی کشیدگی ختم ہوسکے جو اس خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ اس حوالے سے حال ہی میں ترکی کے وزیر خارجہ نے روس اور ایران کی ادلیب کے حوالے سےپالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2016 میں آستانہ میں ہونے والی امن کانفرنس میں جو نکات طے ہوئے تھے ان کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ترکی کا اصولی موقف یہ ہے(جسے سب نے تسلیم کیاتھا)کہ باغی دھڑ و ںکے ساتھ بات چیت کا راستہ کھلا رکھا جائےاور ا نہیں  غیرمسلح کرکے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے۔وہ چاہتا ہے کہ اب جب ادلیب میں تمام شامی باغی جمع ہیں تو ان سے بات چیت کر کے ہتھیار لے لیے جائیںاورانہیں محفو ظ  کوریڈ ور فراہم کردیا جائے تاکہ ہزاروں جانوںکا نقصان نہ ہو اور ایک بڑا المیہ رونما ہونے سے روکا جاسکے۔مگر روس اور ایران کا موقف ہے کہ اس طرح کی قیام امن کی کوششیں ماضی میںبھی ہوتی رہی ہیں، لیکن وہ لاحاصل رہیں، اس لیے اس موقعے پر باغیوں کو چھوڑ دینا مزید نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔

شام میں موجودکُرد گروہوں میں سے بیش تر نے شامی حکومت کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ان گروہوں کا کہنا ہے کہ شامی کُرد اس تمام جنگ و جدل میں کوئی واضح پالیسی وضع نہیں کرسکے، تاہم آئندہ شامی جمہوری حکومت کےساتھ تعاون کرنے پر راضی ہیں۔بتایا جاتاہے کہ بیش ترلڑاکا کُرد ادلیب میں شامی حکومت کے فوجیوں کاساتھ دے رہے ہیں۔دوسری جانب شامی کُرد رہنما الدار خلیلی نے کہاہے کہ ہم شامی حکومت کے سامنے کچھ مطالبات رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں یہاںکچھ رعایات مل سکیں، ہم جمہوریت کا ساتھ دیں گے اور پرامن شام کی حمایت کریں گے۔ کُرد رہنما کا خیال ہے کہ شام کے بحران کا حل جمہوری حکومت کے قیام میں مضمر ہے۔ مگر فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بعض کُرددھڑے ادلیب میں  شامی فوجیوںکے خلاف لڑرہے ہیں اور باغیوں کی حمایت کررہےہیں۔بتایا جاتا ہے کہ جولائی میں کُردرہنمائوں اور شامی حکومت کے درمیان آئندہ تعاون کے مسئلےپرکام یاب مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ اس حوالے سے شامی حکومت نے حال ہی میں باغی کُردگروہوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ کسی علاقے پر قبضہ کریں گے تو ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی۔

ادہر امریکا،برطانیہ اور فرانس کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ اگرانہیں ادلیب میں کسی فوجی کارروائی کی اطلاع ملی تو شام پر بہ راہ راست حملہ کردیا جائے گا۔ اس دھمکی کے جواب میں اقوام متحدہ میںشامی سفیر نے ایک بیان میں امریکا، فرانس اور برطانیہ کی دھمکی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شام پوری دنیا کی طرف سے دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے، مگر مغربی طاقتیں شام کو سیاسی بلیک میلنگ سے جھکانا چاہتی ہیں، مگر شام جدوجہد جاری رکھے گا اور دہشت گردوں کے خلاف آخری دم تک جنگ جاری رہے گی۔

تناو والے اس ماحول میںبرطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے شامی حکومت پر الزام عاید کیاہےکہ وہ روس کےساتھ مل کرادلیب میں بم باری کررہی ہے۔ سفارت کاروں اور مبصرین کا اصرار ہے کہ شام، روس، ترکی اور ایران اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور فوجی کارروائیوں سے گریز کیا جائے۔

تازہ ترین