• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جیمز میٹس کی اصل منزل بھارتی دارالحکومت نئی دہلی تھا، درمیان میں تڑی لگانے کی غرض سے مائیک پومپیو اسلام آبادبھی آئے۔امریکا اور بھارت کے مابین ٹُو پلس ٹُوکے عنوان سے وسیع تر معاہدے اور گفتگو ہونی تھی۔ اس سے قبل ریکس ٹلرسن کی عہدے سے معزولی اور پھر شمالی کوریا کے مسئلے کی وجہ سے ان مذاکرات میں کچھ تاخیر ہو گئی تھی۔ امریکااور بھارت دفاعی شعبے میں بالخصوص(جس میں علاقائی سلامتی کو بہت اہمیت حاصل ہے) آگے بڑھنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جو اب ثمر آور بھی ثابت ہو رہے ہیں۔ کارگل کے واقعے نے بھارت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ امریکا کی قربت حاصل کر سکے۔ بنیادی طورپر اس واقعے کی آڑ میں بھارت کوا پنی سابق سوویت یونین کے زمانے کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرنے کا موقع ملا تھا۔ اسی وجہ سے صدر بل کلنٹن نے 2000میں بھارت کا دورہ کیاتھا۔بائیس برسوں میں یہ کسی امریکی صدر کا پہلادورہ بھارت تھا۔ اس موقعے پر وہ پاکستان بھی آئے تھے، مگر آمریت کے سبب اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف سے کیمرے کے سامنے ہاتھ تک ملانے کے روادار نہ تھے۔بھارت ان کے لیےاس وقت نئی محبت بن چکا تھا۔ 2005 میں جارج بش جونیئر کے زمانے میں امریکا اور بھارت کے درمیان سِول نیو کلیئر ڈیل ہوئی جس نے واضح کر دیا کہ اب پاکستان، بھارت سے خارجہ امور میں پیچھے رہ گیاہے۔یہ ان اقدامات کا تسلسل ہے کہ اب صدر ٹرمپ اور نریندر مودی نےان تعلقات اور مذا کر ا ت کو ٹُو پلس ٹُوکے نام سے نئی شکل دے دی ہےاور تعلقات میں مزید وسعت پیدا کرنے کی طرف قدم بڑھائےہیں۔

بھارت ان معاہدوں کےلیے بہت بے چین تھا۔ اس کی بے چینی گزشتہ سال اس وقت مزید بڑھ گئی تھی جب چین اور بھارت ڈوکلام کے مسئلے پر ایک دوسرے کے سامنے اپنی فوجی قوت لے آئے تھے۔اس وقت بھارت میں یہ احساس مزید پختہ ہو گیا تھا کہ اس کی تمام تر بڑھکوں کے باوجود چین اس کی فوجی طاقت کو رائی کے دانے کےبرابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کی افواج کے پاس بھارت کے مقابلے میں جدید جنگی سازوسامان ہے اور بھارت ان کا مقابلہ اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اسے امریکاکی اعلیٰ ترین کمیونی کیشن ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہ ہو جائے۔ پھر ان ہی ٹُو پلس ٹُو مذاکرات کے ذریعے بھارت، امریکاسے اس نوعیت کا معاہدہ کرنے میں کام یاب ہو گیا۔ بھارت اس سے قبل دفاعی آلات میں کمرشل طور پر دست یاب سی 130 جے ایس اور پی 81 کمیونی کیشن سسٹم استعمال کر رہاتھا۔ لیکن اب تازہ ترین معاہدےکےبعداس کی رسائی امریکا کے اس مواصلاتی نظام تک ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے امریکا، چین اور پاکستان کی افواج کی تعیناتی اور ان کے دفاعی آلات کی تنصیب سے متعلق معلومات حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح یہ نظام بھارت کی زمین سے فضا میں معلومات کی ترسیل اوراور وصولی کے لیے بھی استعمال ہو گا۔ یو ایس ڈیٹا لنک سروس،جو محفوظ ترین تصور کی جاتی ہے، وہ بھی بھارتی فوج کے زیر استعمال ہو گی۔ باالفاظ دیگر امریکا اور بھارت ایک ہی طرح کا مواصلاتی نظام استعمال کریں گے۔ اس معاہدے کو کمیونی کیشن کمپیٹی بلٹی اینڈ سکیورٹی ایگریمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔

ان ہی مذاکرات میں معاہدہ کیا گیاہے کہ Now Tri سروس مشقیں شروع کی جائیں گی۔ یہ مشقیں، بالخصوص امریکی بحریہ کی سینٹرل کمانڈ اوربھارتی بحریہ مشترکہ طور پر کریں گی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا بھارت کا ایشیامیں کردار بڑھتا ہوا دیکھ رہاہےاوروہ انڈوپیسیفک میں بھی بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔اسی طرح ڈیفنس انوویشن ایگریمنٹ بھی کیا گیا ہے۔پاکستان کے لیے اس ضمن میں خاص بات یہ بھی ہے کہ ان دونوں ممالک نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کے ساتھ پاکستان کا نام لے کر ممبئی حملو ں ،پٹھان کوٹ اور اڑی وغیرہ کے واقعات کا ذکر کیاگیا ہے اور کہا گیاہےپاکستان ان کے مجرموں کو سزا دے۔

گزارشات کی ابتدا میں مائیک پومپیو کی پاکستان آمد کو ہم نےتڑی سے تعبیر کیا تھا۔ یہ اعلامیہ اس خیال کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اہم ترین امر یہ ہے کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ اس اعلامیے میں کہا ہے کہ ہم شمالی کوریا کے مہلک ہتھیاروں کے معاملے پر مل کر کام کریں گے اور ان ممالک کا احتساب کیا جائے گا جو شمالی کوریا کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ امریکانے اس سے قبل بھارت کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کے حوالے سے کوئی ایسا عندیہ نہیں دیا تھا۔ بھارت کو اس معاملے میں لانے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا اب بھارت کا کردار صرف علاقائی نوعیت کا نہیںد یکھ رہا بلکہ وہ اس کے استعمال کی نئی نئی جہتیں تلاش کر رہا ہے۔ ان مذاکرات میں توقع کی جا رہی تھی کہ بھارت کو روسی ہتھیاروں کی خریداری کی وجہ سے امریکا میں حائل مشکلات سے صدر ٹرمپ کی جانب سے استثنیٰ کا اعلان ہو سکتا ہے، لیکن یہ اعلامیہ اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہے۔ اسی طرح ایران سے بھار ت کا تیل خریدنابھی امریکا کو بری طرح کھٹکتاہے، لیکن اعلامیہ اس معاملےمیں بھی خاموش ہے۔ اس خاموشی کو امریکاکا صرفِ نظر سمجھا جائےیا بھارت کی سفارتی کام یابی؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ بھارتی اپنی دفاعی ڈاکٹرائن کوپہلےسےموجود لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ اورکمیونی کیشن کے حالیہ معاہدے پر قائم کر رہا ہے۔اب اس کا تیسرا مقصد امریکا سے بیسک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ کرنا ہے۔ان حالات میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی نہایت ہوش مندی سے تیار کرنی چاہیے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مائیک پومپیو کی ٹیلیفون کال،بھارت سے مذاکرات اور فرانسیسی صدرکی کال آنے کے معاملےسے حکومت کی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ سفارتی معاملات میں غلط بیانی زہرِ قاتل ہوتی ہے۔لہذا اس سے بچنا چاہیے۔

تازہ ترین