• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثنا ظفر

بہت سے والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے جوں جوں بڑے ہورہے ہیں،لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا گلہ بجا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس رویے کا بیج بہت پہلے یعنی بچپن میں ہی بویاجاچکا ہوتا ہے۔ نوجوانی کے دور میں اولاد کے اپنے ماں باپ کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کا انحصاراس بات پر ہے کہ وہ بچپن میں انہیں کتنا وقت دیتے ہیں۔ یہ پرورش کا انداز ہی ہے جو تعلقات کو ٹھوس یا کمزور بنیاد فراہم کرتا ہے۔

کچھ والدین کا بات کرنے کا انداز تحکمانہ اور کچھ کااس سے بھی آگے بڑھ کر ہٹ دھرمی اور اپنی بات منوانے والاہوتا ہے۔ اس کے برعکس بعض والدین بہت ہی مہربان ہوتے ہیں جبکہ کچھ اپنے بچوں سے بالکل لاتعلق نظر آتے ہیں۔ بچوں کی والدین کے ساتھ وابستگی ہی نہیں،بچوںکے آپس اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی کا انحصار بھی بڑی حد تک پرورش کے انداز پر ہوتا ہے۔اچھے تعلقات بہتر ابلاغ سے بنتے ہیں اور دوسرے کی بات توجہ سے سننا ابلاغ کا پہلا اصول ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کی معمولی سی بات بھی دھیان سے سن رہے ہیں اور اسے اس بات کا یقین دلا رہے ہیں کہ آپ ہر حال میں ان کے ساتھ ہیں تویہ عمل بچوں کے آپ پر بھروسے اور اعتماد کومضبوط کرے گا۔ اسی اعتماد کی وجہ سے وہ آپ سے ہر بات شیئر کریں گے۔ پرورش کا آئیڈیل انداز وہ ہے جس میں والدین بچے کی بات پوری طرح سے سننے کے بعد مانتے بھی ہیںاور دوسری طرف بچے بھی اسی جذبے اور رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بچے کو بات ماننے کے ساتھ ساتھ اپنی بات بہتر انداز میں منوانا بھی سکھاتے ہیں۔

والدین اور بچوں کے درمیان کمزور تعلق کی ایک وجہ والدین کا اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میںوقت نہ دینا ہے۔بچوں کوعموماً تین سال سے بھی کم عمر میں اسکول بھیج دیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین سے ان کی جذباتی وابستگی نہیں ہوپاتی اورنہ ہی انہیں صحیح انداز میں خاندانی، ثقافتی اور مذہبی اقدارمنتقل ہوتی ہیں ۔بچے کی پڑھائی کم از کم چار سے پانچ سال کی عمر کے بعد شروع ہونی چاہیے تاکہ وہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارسکے۔ اس عمر میں بچہ بہت تیزی سے سیکھتا ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ انہیں ذہنی لحاظ سے اچھی بنیاد فراہم کریں۔بچوں کی تعلیم کا زمانہ شروع ہونے کے بعد والدین کی طرف سے پہلی بڑی غلطی اولاد کادیگر بچوںکے ساتھ موازنہ کرناہے۔ یہ عمل خواہ اسکول میں ہو یااس سے باہر، بچوں کی تربیت پربہت برا اثرڈالتا ہے۔ اسی طرح والدین کا اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو زیادہ اہمیت دینابھی غلط ہے۔

تعلیمی میدان میں بچوں کے لیے کسی خاص شعبے کا انتخاب بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے جب والدین بچوں کی دلچسپی کے خلاف ان پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں تونہ صرف بچوں کے ذہن میں ان کے لیے بغاوت اٹھتی ہے بلکہ وہ اسے اپنے لیے بوجھ بھی سمجھتے ہیں۔ اس شعبے میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں آگے بڑھنے کا شوق ختم ہوکررہ جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا وقت بھی آتا ہے جب بچے تین یاچار سال بعدان مضامین میں ناکام ہوکرپڑھائی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔دوسری طرف ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ والدین بچوں کے فیصلوں کو من وعن قبول کرتے جائیں۔ بعض اوقات اس عمر میں بچے کسی خاص شعبے سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ان کے لئے موزوں بھی ہو۔ اس مرحلے پر بچوں کو والدین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ مخصوص شعبوں کے بارے میںبچوںکو اچھی طرح آگاہ کردیاجائے اور پھر مکمل ہوم ورک کے بعد انہیں اپنی مرضی کا شعبہ منتخب کرنے دیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ بچوں کی پسند کی مختلف فیلڈزایک جگہ پر لکھیںاوراس کے ساتھ اس فیلڈ سے متعلق محنت کا معیار اور دیگر ممکنہ نتائج بھی لکھیں۔پسند ہونے یا کرنے کی صلاحیت کے اس فرق کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی بچے اپنے لئے صحیح فیصلہ کرپائیں گے۔

بچوں کی شخصیت میں خود اعتمادی اچانک نہیں آتی۔ والدین کو انہیںبااعتماد بنانے کے لئے بچپن سے ہی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ اس کے لیے انہیں محفوظ ماحول میں محفوظ ایڈونچر کی اجازت ضرور دیں ۔ہر بات پر روک ٹوک کا عمل ان کی فیصلہ کرنے کی قوت کو متاثرکرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اعتماد کو بھی کم کرتاہے۔ اس حوالے سے انہیں گھر سے باہر کی دنیا دیکھنے کے مواقع دینا بھی بہت اہم ہے۔ اپنے بچوں کو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گھلنے ملنے کی اجازت دیں اور انہیں گھریلو تقریبات میں شامل ہو نے کا بھی موقع دیں۔ اس سطح پران کا اعتماد اتنا ضروربحال ضرور ہونا چاہیے کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو وہ اپنے والدین کو بتاسکیں۔پرورش کے انداز اور ماحول میں تھوڑا سا ردوبدل کر کے آپ اپنے بچوں کو اچھی اور مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مستقبل میں ان کی اچھی شخصیت کی تعمیر ممکن ہو پائے گی۔ 

تازہ ترین