• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملٹھی کو دنیا کا اہم ترین پودا تصور کیاجاتاہے۔ یہ مٹر کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ انگریزی میں اسے Liquorice Sweet Wood کہتے ہیں۔ملٹھی عرب،ترکستان اور افغانستان میں عام پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں صوبہ بلوچستان اور چترال کے علاقے میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے جبکہ بیشتر ممالک مثلاً عراق،اسپین،یونان،چین اور اٹلی میں بڑے پیمانے پر تجارت کے لیے کاشت کی جاتی ہے۔ اسپین میں ملٹھی کو پہلی بار تیرہویں صدی عیسوی میں کاشت کیا گیا جبکہ برطانیہ میں اس کی کاشت سولہویں صدی میں شروع کی گئی۔

قدیم زمانے ہی سے ملٹھی کو جڑ کو استعمال کیا جارہا ہے۔ روم کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی میں ملٹھی کو بطور دوا استعمال کیا جاتا تھا اور کہاجاتا تھا کہ اس کی جڑ پیاس کو ختم کرنے میں جادوئی تاثیر رکھتی ہے اور اس کی جڑ چوسنے کے بعد انسان بغیر پانی کے بارہ دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ارسطو بھی ملٹھی کی جڑ کو پیاس کم کرنے اور شوگر میں مفید بیان کرتا ہے۔ قدیم چینی علم الادویہ میں بھی ملٹھی کو پیاس،کھانسی،بخار میں استعمال کیا جاتا تھا اور اس کا مسلسل استعمال عمر میں اضافے کا باعث سمجھا جاتا تھا۔

ملٹھی پر بہت سی سائنسی تحقیقات کی گئی ہیں ،جس سے اس میں موجود درج ذیل کیمیاوی اجزاء دریافت کیے گئے۔ ان میں ایک زرد رنگ کا قلمی سفوف، ایک لیس دار مادہ،شکر انگوری، نشاستہ، فاسفورس، سلفیورک اور میلک ایسڈ،ترشے،کیلشیم اور میگنیشیم کے نمک اور گلاسیرایزین شامل ہیں۔ گلاسیرایزین شکر سے 50 سے 200 گنا زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔

ملٹھی اپنی گرم خاصیت کی بنا پر سوداوی امراض مثلاً بواسیر،تپ اورخشک دمے میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملٹھی کا استعمال یرقان میں آنکھوں کی زردی ختم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ اس کا جوشاندہ پینے سے بذریعہ قے بلغم خارج ہوتا ہے اور پھیپھڑے کی نالیاں صاف ہوجاتی ہیں۔ قے نہ آنے کی صورت میں بذریعہ دست پیٹ صاف ہوجاتا ہے اور سینہ و حلق کی ترشی زائل ہوجاتی ہے۔یورپ میں السر کے علاج کے لیے ملٹھی استعمال کی جاتی ہے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ معدے کے زخمی خلیوں کو ٹھیک کرنے میں ملٹھی مدد دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ملٹھی کا استعمال ہاتھ پاؤں کی جلن اور اخراج خون میں فائدہ مند ہے۔ نیزٹی بی،ورم اورپتے کی پتھری کے لیے بہترین ہے۔

تازہ ترین