• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں پرانےشہر حیدرآباد سے 147کلو میٹر کی مسافت پر سندھ کے عظیم بزرگ و شاعر حضرت عثمان مروندی المعروف حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا مزار ہے۔ یہ مزار سہون کے قلب میں ہونے کے باوجود دورتک دکھائی دیتا ہے ،سہون کی تاریخ یوں تو بہت قدیم ہے، اس کے تذکرے بھی تاریخ کی کئی معتبر کتابوں میں ملتے ہیں، لیکن یہ شہر دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز اسی مزار کے باعث بنا، یہ امر معروف ہے کہ حضرت لال شہباز قلندر 644ھ بمطابق 1346ء کے دوران سہون کو مستقل آستانہ بنانے سے قبل ،مکر سے ملتان گئے، اس وقت ملتان کا گورنر شہید خان بن بلبن تھا، تاریخ فیروز شاہی میں لکھا ہے کہ شہید خان نے حضرت لال شہباز قلندرؒ سے ملاقات کی اور ان کے لیے ایک خانقاہ تعمیر کرنے کا حکم نامہ جاری کیا، لیکن وہ ملتان میں نہیں رہے ،حضرت لعل شہباز قلندر ؒ مکران سے سندھ پہنچے۔ سب سے پہلے ان کا مزار سلطان فیروز تغلق کے دور میں سہون کے گورنر اختیار الدین نے 1757ء میں تعمیر کرایا، بعدازاں شہنشاہ ہند جلال الدین محمد اکبر کے دور میں مزار کی توسیع کی گئی۔ جس کی نگرانی مرزا جانی بیگ اور ان کے بیٹے مرزا غازی بیگ نے کی 1621ء کے دوران شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں مقبرے سے ملحقہ مسجد تعمیر کرائی گئی اور صحن میں پتھروں کا فرش بنوایا گیا،جس کی نگرانی نواب دین دار خان بخاری نے کی، مگر جب سندھ پر میاں غلام شاہ کلہوڑو کی حکومت قائم ہوئی تو، 1773ء میں ان کے مزار پر لکڑی کے دو ،دروازے اور ایک شاہی عَلم نصب کیاگیا۔ دروازے کے عین سامنے یہ اونچا علم صدیوں سے لگا ہے، جس پر سرخ یا کالے رنگ کا جھنڈا لہراتا رہتا ہے۔ سرخ رنگ حضرت لال شہباز قلندرؒ کے نام سے منسوب اور سیاہ رنگ حسینیتؓ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ علم عباسی حکم راںخاندان نے حیدرآباد کے علاقے واڈھو کاپڑ ،میں رہائش پزیر دو بھائیوں سے تیار کرایا تھا، جو پیشے کے حوالے سے بڑھئی تھے اور ان کا تعلق سندھ کے علاقے خدا آباد سے تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ سندھ کا پہلا علم ہے۔یوں تو زمانۂ قدیم ہی سے یہ روایت ہے،کہ فوجی لشکر کا مرکزی یا عسکری شعبوں، قوموں، قبیلوں، حکومتوں، بادشاہوں کا علیحدہ، علیحدہ علم ہوتا تھا، یہ روایت اب بھی موجود ہے۔ علم، جھنڈا، پھریرا عموماً اسٹو پائوں پر لہرایا جاتا تھا، یہ سلسلہ اشوک اعظم کے زمانے سے یا اس سے بھی کہیں پہلے سے مروج تھا۔ 

جنگ کے میدانوں میں اس علم کو اٹھانے اور اسے سر بلند رکھنے کے لیے باقاعدہ علم بردار متعین ہوتے تھے، جو اس امر کویقینی بناتے تھے کہ میدان جنگ میں سپاہ گروں کے حوصلے بلند رہیں۔واقعۂ کربلا میں لشکر حسینیتؓ کا علم حضرت عباسؓ کے مضبوط ہاتھوں میں تھا، حق و باطل کی اس جنگ میں جہاں حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقاء نے جام شہادت نوش کیا، وہاں اس جنگ میں موجود معصوم علی اصغرؓ کی شدت پیاس سے بے تاب ہوکر حضرت عباسؓ جنہیں حضرت عباسؓ علم بردار بھی کہا جاتا ہے انہیں دجلہ کے کنارے پانی کا مشکیزہ بھرکے لے جانے پر نہ صرف تیروں، بھالوں اور تلواروں سے لہولہان کردیاگیا، بلکہ ان کے بازوئوں کو بھی تن سے جدا کردیا، اسی بناء پر دنیا بھر میں نصب کیے جانے والے علم آپؓ ہی کے نام سے منسوب ہوتے ہیں۔ حضرت لال شہباز قلندرؒ کے مزار پر سندھ کا بلند اور قدیم ترین علم بھی حضرت عباسؓ سے منسوب ہوا تو عقیدت مندوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا، اسے عیدالاضحٰی کے دنوں میں تزین و آرائش کے لئے خم کرکے اس پر رنگ و روغن کیا جاتا ہے۔ علم کے انتہائی بالائی سطح پر ساگوان کی لکڑی سے ترا شیدہ محرابیں، کلنگیاں، کنگورے بنے ہوئے ہیں، جب کہ اس کے اوپر اور علم کے آخری سرے پر اسٹیل دھات کا چمک دار پنجہ نصب ہوتا ہے،جسے پنجتن سے منسوب کیا جاتا ہے، اس سے قدرے تھوڑا نیچے سرخ و سیاہ پھریرے، جھنڈے علیحدہ علیحدہ اوپر نیچے لہراتے رہتے ہیں۔ محرم الحرام کا چاند دکھائی دیتے ہی ،سندھ سمیت پاکستان اور دنیا بھر سے آنے والے زائرین و عقیدت مندوں کی موجودگی میں خمیدہ علم کو سربلند کردیا جاتا ہے،اس دوران مرثیہ و نوحہ خوانی اور ماتمی مجالس ہوتی ہیں۔

حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے مزار کے دروازے پر نصب اس بلند ترین علم کے گرد ماتمی دستے عزاداری کرتے ہیں، 7؍محرم الحرام کو اس کے قریب ماتمی دستے اپنی حاضری کو باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ اس روز نذر و نیاز، لنگر و دیگر تبرک تقسیم ہوتا ہے۔ عقیدت مند گاڑیوں، ٹرکوں میں اپنے ذوالجناح سمیت ماتمی دستوں کی صورت میں علم پر حاضری دیتے ہیں۔ اس دوران زنجیر زنی ہوتی ہے اور داستان کربلا کو اجتماعی طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس دوران کسی ناخوش گوار واقعہ کی روک تھام اور امن دشمنوں پر کڑی نگاہ رکھنے کے لیےسخت حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں۔ عزاداروں کو فوری طبی امداد کی فراہمی کے لیے فرسٹ ایڈ میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں ،جہاں مقامی شعبۂ صحت، اور غیرسرکاری سماجی تنظیموں کا عملہ ہرلمحہ تعنیات ہوتا ہے۔

سہون میں موجود یہ علم اس قدر معروف ہے کہ عقیدت مند اسی کے عین مطابق علم تیار کراکے اپنے گھروں، عمارتوں، میدانوں، مزارات، کھیتوں اور پہاڑوں میں نصب کرتے ہیں۔ عقیدت کا یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔

تازہ ترین