• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ڈاکٹر فہیم اعظمی

تاریخ اور تصور پر مبنی کہانیاں، جب کسی قوم میں ایسا تاثر پیدا کرتی ہیں کہ وہ پشت در پشت کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں تو ایسی کہانیاں اُن اقوام کی تہذیب اور کلچر کا جُز بن جاتی ہیں، اسی لیے دنیا میں بہت سی لوک کہانیاں اور بہت سے لوک گیت، ایسی شخصیتوں کے حالات بیان کرتے ہیں، جنہوں نے اپنی کسی نہ کسی صفت کی وجہ سے قوم میں ایک دائمی اثر چھوڑا ہے۔ ایسے لوگوں کا اور اُن کے کارناموں کا ذکر بار بار ہوتا ہے، اُن کی یادگاریں منائی جاتی ہیں، اُن کی زندگی، لوگوں کے لیے مثال ہوتی ہے۔ ایسی یادگاریں ادب کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ادیب اور شعرا انہیں اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، جن میں صنعتوں کا ہونا لازمی ہے اور ان میں ایک صنعتِ مبالغہ بھی ہے، جو قوم کے کلچر اور ادب کے فروغ میں مددگار ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ ونڈل ہیرس نے اپنی کتاب ’’برطانیہ میں انیسویں صدی کا مختصر فکشن‘‘ لکھا ہےکہ

’’کہانی ایک ادبی فارم ہے، جو مبالغے کی سمت مائل رہتا ہے اور ماضی کی بار بار تخلیق کے عمل میں وقت کا ایجنٹ ہوتا ہے۔‘‘

ایسی کہانیوں اور ان سے منسلک شخصیتوں اور یادگاروں کو مٹا دینے کی کوشش کرنا یا انہیں بھلا دینا، محض اس لیے کہ ان میں حُسنِ تحریر و تقریر اور صنعتِ مبالغہ شامل ہے۔ قوم کا کلچر اور اس کے ادب کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔

63ھ میں کربلا کے میدان میں جو سانحہ پیش آیا اور اس سانحے کا سیاق و سباق عرب قوم پر صدیوں تک اس طرح حاوی رہا کہ عرب اور زیرِ عرب ملکوں میں اس نے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ سیاسیات، نظریات اور علم و ادب میں اس نے ایسی جگہ بنائی کہ جس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس سانحے کو سیاسی مقصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا اور اسی کو بنیاد بنا کر قتل و غارت گری بھی ہوئی۔ استحصال کرنے والوں نے اس کا جی بھر کر استحصال کیا اور عارضی فوائد بھی حاصل کیے۔ عالموں اور ادیبوں نے اس سانحے کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کی اور اسے مذہبی ، علمی اور فقہی رنگ دیا۔ دماغ والوں نے اس کے منطقی اور ارضی پہلو کو اجاگر کیا اور دل والوں نے اس کے روحانی اورجذباتی اثرات کو کریدا۔ غرض کہ کوئی طبقہ ایسا نہیں تھا، جس نے اس واقعے کے کسی نہ کسی پہلو سے اثر نہ قبول کیا ہو۔ ایسے طبقے بھی تھے، جنہوں نے اس سانحے کو معمولی قبائلی خصوصیت اور قرابت داروں کے جھگڑے سے تعبیر کیا اور اسے بھلانے کی کوشش کی، لیکن چونکہ یہ داستان، مظلوموں اور ظالموں کے باب میں مظلوموں کی بہادری اور حق پرستی پر مبنی تھی، اس لیے اسے بھلانے کے یا اس کے اثر کو زائل کرنے کے لیے، انہیں ظالموں کی صف میں کھڑا ہونا پڑا اور ان کی زیادتیوں کے مروّج ،مقولوں قصوں پر پردہ ڈالنا پڑا۔ اس طرح بہت سے دلائل پیش کئے گئے، مثلاً اجتہادی غلطی، شام میں کوفے کے واقعات سے لاعلمی اور افسوس۔ ظالم کے لیے جنت کی پیشن گوئی وغیرہ، لیکن ان سب میں ایک عمل شامل تھا وہ تھا ظلم اور ظالموں کا دفاع۔انسان، انفرادی اور اجتماعی طور پر کتنا بھی ظالم اور سفاک کیوں نہ ہو، وہ ظلم سے نفرت کرتا ہے اور منافقت کو اخلاقی برائی سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے دفاع میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے خزانے کا منہ کھولا جا سکتا ہے، وظائف دیئے جاسکتے ہیں، مطلب کے مفسرِ اور مورّخ مقرر کئے جاسکتے ہیں، مگر ملامتی ضمیر، خود یقینی کو قریب نہیں آنے دیتا، اگر خود یقینی نہ ہو تو دوسروں کو قائل کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ تھی کہ تمام کوششوں کے باوجود، کربلا کی کہانی اور حسینؓ کا نام عرب، ایران، ہندوستان، اور پاکستان میں لوگوں کے کلچر کے ساتھ اس طرح منسلک ہوگیا کہ وہ کسی ایک فرقے تک محدود نہ رہا۔ کہیں وہ عیسائیوں کے قلم سے ’’جافعۂ کربلا کی داستان بن کر نکلا‘‘ کہیں علی زین العابدین کی شان میں بنی اُمیہ کے درباری شاعر، فرزدق قصیدے کی شکل میں ادبی کتابوں کا حصہ بنا، کہیں تصوراتی آرٹ کی شکل میں گھروں، ہوٹلوں اور خانقاہوں کی زینت بنا، کہیں سماع کی محفلوں نے اسے تقدیسی آرٹ کی شکل میں پیش کیا، کہیں چمٹوں کی آواز پر ملنگوں نے اسے اللہ کے نام کے ساتھ منسلک کیا، کہیں درویشوں نے اسے تقدیسی رقص کی بنیاد بنایا، کہیں لوگوں نے نوحے اور ماتم کے ذریعے سوگ منایا، کہیں شبیہیں بنائی گئیں، جن پر غیر مسلموں نے بھی خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہیں ہندو عورتوں نے غم ناک دوہے گا کر اپنی آواز کے ذریعے اس کہانی اور اس کے ہیرو کے نام کو اجاگر کیا۔ نتیجتاً یہ ہمارے کلچر کا حصہ بن گئے اور ہمارے قومی ادب میں بلاتفریقِ مذہب و ملت داخل ہوئے، پھر یہ واقعہ اور یہ نام یورپ میں گین جیسے کئی عیسائی مورخین اور محققین کی توجہ کا باعث بنا، انہوں نے اپنی تحریروں میں لاکر خوب صورت الفاظ میں اس واقعے کو اس طرح بیان کیا کہ جیسے ان کی تحریر کی بلند آہنگی اسی نام اور اسی سانحے کی مرہونِ منت ہو۔ اس طرح کربلا کے تھوڑے سے لوگوں کی اصول پرستی، بہادری اور استقلال و اعتماد کی کہانی اور ظالموں کے ظلم و جور کی داستان سیف الملوک، عنتر اور رستم کے قصوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئی۔

لبنان ایک ایسا عرب ملک ہے، جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں نے عرب کی تاریخ اور ادب پر تحقیق و تنقید کی اور ان کو اپنے مضامین، کہانیوں اور ناولوں میں بڑی خوبی سے بیان کیا۔ ان کی کتابوں میں واقعۂ کربلا، حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہلِ بیت کی داستان، اُن کی حق گوئی اور سرفروشی۔ حضرت زینبؓ کا دربارِ یزید میں خطبہ، یزید اور اس کے درباریوں کی بدگوئی کے جواب میں حضرت علی زین العابدینؓ کے ارشادات وغیرہ، ادب کا حصہ بن چکے ہیں۔ مرثیے، نوحے، قصیدے اور مثنوی، غرض کہ ہر صنفِ شاعری اور ادب میں ہند و پاکستان کے لوگوں نے اس واقعے سے فیض حاصل کیا۔ عراق اور ایران میں جہاں شدید عقائد، آرٹ اور فن کو مٹانے میں ہمیشہ ناکام رہے، لوگوں نے تصویریں اور خاکے بنائے، جس میں کربلا کے واقعے کی تمثیل پیش کی گئی۔

میں اس امر پر بحث کرنے کا اہل نہیں ہوں کہ یہ تمام باتیں ہمارے عقیدے اور مذہب کو کس طرح تقویت یا ٹھیس پہنچاتی ہیں۔ میرا موضوع صرف یہ ہے کہ امام حسینؓ کی شخصیت اور اُن کی قربانی نے کس طرح عمومی تاریخی واقعے سے بالا تر ہوکر ہمارے ادب اور ہمارے کلچر میں ایک کنسپٹ کو جنم دیا۔

حضرت امام حسینؓکی شہادت کے بعد کئی مسئلے سامنے آئے۔ یزید محض ایک نامناسب ہی نہیں، بلکہ ظالم اوردشمنِ اسلام کے طورپر اُبھرا۔ اس موقعے پر فلسفۂ اجتہاد کو مورخین اور محققین نے ایک نیا رُخ دیا۔ ابنِ خلدون نے یزید کو برا بھلا کہتے ہوئے، اُس دور کے اور اس کے بعد کے نظریے کی ترجمانی اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں کی ہے۔امام حسینؓ نے حق پرستی اور خدا کی مرضی اور اصول کی بنا پر صحیح فیصلہ کیا تھا اور وہ شہید ہیں۔ اس طرح ابنِ خلدون نے ’’ججمینٹ‘‘ یا اجتہاد کے کنسپٹ کی طرف اشارہ کیا اور کسی کو بھی موردِ الزام ٹھہرانے سے احتراز کیا۔ابنِ خلدون سے یا اس کے پیش رو مورخین اور مفکرین سے، جو اس قسم کے نظریے کے بانی تھے، ہم اتفاق کریں یا نہ کریں۔ ججمینٹ کے اس رویے کو ڈپلومیسی، منافقت یا اجتہاد تصور کریں۔ بہر حال واقعۂ کربلا نے ہماری تاریخ، ہمارے فلسفے اور ادب کوبڑی حد تک متاثر کیا۔ واقعۂ کربلا کے بعد، یزیدی فوج نے امام حسینؓ کی حمایت میں ہونے والے مدینے کے بلوے کو جس بے دردی سے دبایا اور حصین بن نمیر کے تحت فوج نے جو قتل عام کیا، وہ بلادِ اسلامیہ پر کسی کافر کے حملے سے کم نہ تھا، لیکن تعجب یہ ہے کہ یزید اوراس کے رفقائے کار کا یہ ظالمانہ عمل صرف تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے اور اسے وہ اہمیت نہ مل سکی، جو واقعۂ کربلا کو ملی۔ یہ ضرور ہے کہ اس واقعے نے شہادت حسینؓ میں ملوث ظالموں کے دفاع اور اُن کے کردار کے ریشنلائزیشن کی راہیں مسدود کردیں۔ واقعۂ کربلا تاریخ کے صفحات سے نکل کر ایک درد ناک کہانی کے روپ میں ہماری آنے والی نسلوں کے لیے روایت بن گیا۔ یہی ایک واقعہ ہے، جو ہزار کوششوں کے باوجود، ہمارے ادب سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہم اس حدِ فاصل کو مٹا سکے، جو اس واقعے نے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان قائم کر رکھی ہے۔ہمارے لیے اب یہ بحث بے کار ہے کہ واقعۂ کربلا کو ہم کس طرح دیکھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی طرح کی بھی تحریک یا عقیدہ، اس واقعے کی اہمیت کو کم نہیں کرسکتا۔ اُن کی یاد منانے کی طریقے میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اسے بھلانا ناممکن ہے، کیوں کہ یہ ہمارے کلچر اور ہمارے ادب کا حصہ بن چکا ہے، جب تک ہماری ثقافت، ہمارے علوم اور ہمارا ادب زندہ ہے، کربلا کی کہانی، الفاظ کے نئے نئے روپ دھار کر جنم لیتی رہے گی۔

تازہ ترین