• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقیں کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ یہ جنگی مشقیں جن کو واسٹک 2018کا عنوان دیا گیا تھا، روس کے مشرقی علاقے سائبیریا اور بحیرہ بیرنگ میں شمال مشرقی بحرالکاہل کے ساحلوں میں عمل میں آئی ہیں۔ ان سات روزہ جنگی مشقوں میں روس کے تین لاکھ فوجی، انفنٹری بکتر بند گاڑیوں جن کی تعداد تین ہزار سے زائد تھی اس کے علاوہ چار ہزار جدید ٹینک ایک ہزار لڑاکا طیارے، کروز میزائل سسٹم، دو بحری بیڑے، چار سو سے زائد جنگی جہاز اور فریگیٹ ،بڑے جنگی جہاز اور آبدوزیں شامل تھیں۔ ان جنگی مشقوں سے قبل روس کے صدر نے چینی سے ملاقات کی تھی، مشقوں میں چین کے تین ہزار فوجی سمیت منگولیا کے بھی فوجی دستے شریک ہوئے۔ روس کی اتنی بڑی جنگی مشقوں کے حوالے سے روس کے دفاعی ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا ترش رویہ روس پر بار بار اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی ،نیٹو ممالک کی سرد مہری اور دھمکیاں ان مشقوں کا سبب ہے۔ جبکہ مغربی مصبرین کی رائے میں روس گلوبل تبدیلیوں اور اپنی کمزور معیشت کو سہارا لینے کے لئے ۔۔۔۔ کی فروخت پر انحصار کر رہا ہے۔ ایسے اس کو اپنی طاقت اور جدید ہتھیاروں کی نمائش کا موقع میسر آتا ہے۔ اب روس کے تمام سائنس دان اور انجینئرز جدید سے جدید ہتھیار تیار کرنے کے تجربات کر رہے ہیں۔

روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایرن مالوف کا کہنا ہے کہ جار ی گلوبل صورتحال اور معیشت کی تیزی سے اتار چڑھائو اور دیگر علاقائی مسائل کی وجہ سے قومی امکانات ہیں کہ 2000کے بعد دنیا ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گی یا پھر علاقائی جنگوں کا سلسلہ چل نکلے گا۔

امریکہ اور نیٹو ممالک کی روس سے کشیدگی کی بڑی وجہ روس کا یوکرین کے علاقے کریما پر قبضہ اور شام میں فوجی مداخلت ہے اس کے علاوہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک کو شہد ہے کہ روس سائبر کرائمز میں بھی ملوث ہے اور ان ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ خاص طور پر امریکہ کے گزشتہ انتخابات میں روس کا ملوث ہونا زیادہ زیر بحث آیا ہے۔

نیٹو معاہدہ کے ممالک نے روس کی حالیہ جنگی مشقوں پر شدید تشویش ظاہر کی ہے جبکہ امریکہ نے بھی روس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس سے نہ صرف خطے میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ بھی ہوگا۔

روس کا استحصال یہ ہے کہ رواں سال کے اوائل میں امریکہ نے بہت بڑی جنگی مشقیں کی تھیں، شمالی بحر اوقیانوس میں امریکہ مشرقی ساحلوں پر ہونے والی جنگی مشقوں میں امریکہ نے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو جو کبھی سوویت یوینین کا حصہ رہی تھیں، آرمینا کرغیستان اور بیلا روس کو بھی ان مشقوں میں شامل کیا تھا اور ان پر خصوصی توجہ دی گئی تھی جبکہ روس ان ریاستوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے انہیں فوجی تربیت دینے اور ہتھیار سازی میں شریک ہونے کی دعوت دیتا رہا ہے مگر امریکہ ان کی طرف زیادہ مائل ہے۔روس کی حالیہ جنگی مشقوں کے بعد نیٹو ممالک میں ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے یورپی ممالک کو پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ یورپ اپنی سلامتی کے لئے امریکہ سے زیادہ اپنے بازوں پر بھروسہ کرے۔ امریکہ نے نیٹو کو اپنی بجٹ سازی کرنے کی ہدایت کر دی تھی جس پر یورپی ممالک اور صدر ٹرمپ کے مابین تعلقات میں سرد مہری در آئی تھی۔ یورپی ممالک اپنی کمز ور معیشتوں کا رونا رو رہے ہیں۔ایک درجن سے زائد ممالک نے نیٹو کے بحث میں مزید حصہ ڈالنے سے معذرت کر لی ہے۔

مگر نیٹو معاہدہ کے بغیر یورپ کا دفاع ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اب نیٹو ممالک نے بھی کمر کس لی ہے اور جوابی طور پر بڑی جنگی مشقوں کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ امریکہ نے بھی روس کی حالیہ بڑی جنگی مشقوں کا نوٹس لے لیا ہے اور پینٹا گون میں بھی اس پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ شام میں ادلیب کی صورتحال اور وہاں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا پروپیگنڈہ یا خدشہ نے مغرب کو پریشان کر دیا ہے اور وہ شام پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ روس نے مغرب کے خدشات کو مسترد کر دیا ہے اور وہ ادلیب پر حملہ کرنے کے لئے شامی حکومت پر زور دے رہا ہے۔قطع نظر ان مسائل کے روس کا اصل مسئلہ جو ایک طویل عرصے سے اس کو پریشانی میں مبتلا رکھا ہے۔ وہ روس کی معیشت ہے۔ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد روس میں بہت زیادہ لوٹ مار ہوئی، نوے کی دہائی سے اب تک روس اپنی معیشت کو مستحکم نہیں کر پایا اس لئے اس زیادہ انحصار جدید ہتھیاروں کی تیاری اور ان کی عالمی منڈی میں فروخت پر ہے۔ روسی صدر کی تمام تر سرگرمیوں کا مرکز روسی ہتھیاروں کی فروخت کے لئے منڈیاں تلاش کرنا ہے۔ واضح رہے کہ عالمی منڈی میں ہتھیاروں کی فروخت کا سب سے بڑا سوداگر آج بھی امریکہ ہے اس کے بعد روس دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب روس کو یہ فکر لاحق ہے کہ چین بھی بتدریج ہتھیاروں کی فروخت میں آگے آتا جا رہا ہے۔ ایسے میں خدشہ ہے کہ چین روس کی جگہ نہ لے لے۔ چینی اپنی صنعتی ترقی،سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں پر بھی توجہ دے رہا ہے۔ گلوبل تبدیلیوں میں اب دوستوں اور دشمنوں کی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، روس اپنے پرانے دوستوں کو کھونا نہیں چاہتا اور ان سے تعاون کا خواہاں رہتا ہے۔ اس حوالے سے روس کو حال ہی میں سب سے بڑا تلخ تجربہ بھارت سے و اقعہ یہ ہے کہ دو برس قبل روس اور بھارت میں روسی جدید ترین لڑاکا طیاروں کے پروجیکٹ ’’ففتھ جنریشن پروجیکٹ‘‘ میں شراکت کا معاہدہ طے پایا جس میں بھارت دو ارب ڈالر س زائد رقم صرف کرنے پر آمادہ تھا ،روسی طیارے نے بھارت کو دینے کا پابند تھا۔ مگر حال ہی میں بھارت کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وفد سے بھی بھارت نے بیشتر معاہدے طے کئے جن میں دفاعی معاہدے بھی شامل ہیں۔ اس کے فوری بعد بھارت نے روس سے ’’ففتھ جنریشن پروجیکٹ‘‘ کو منسوخ کرنے کا اعلان کرکے روس کو شدید جھٹکا پہنچایا۔ صدر پیوٹن نے بھارت کے اس نازیبا عمل پر اپنے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے عالمی میں سیاسی اور اخلاقی اصولوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں مگر ہم یہ بات نہیں بھول سکتے۔ بھارت کو اس کی سزا ضرور بھگتنا ہو گی۔کہا جا رہا ہے کہ روس نے ففتھ جنریشن طیاروں کی فروخت کا معاہدہ پاکستان کرنے جا رہا ہے۔

روسی دفاعی ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس عمل سے صدر پیوٹن کو بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ اور وہ اب فکر مند ہیں کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے کسی کو شریک کار بنایا جائے جو قابل اعتماد بھی ۔

واقعہ یہ ہے کہ بھارت ابتدا ہی سے اپنی فوجوں کے لئے روس سے ہتھیار خریدتا رہا ہے۔ اور سوویت یونین کے تحصیل ہونے تک یہ سلسلہ جاری تھا۔ جبکہ پاکستان ابتداء میں امریکہ ہتھیار فراہم کرتا رہا ہے۔ بھارت کے لئے اب ایک اور مشکل نہیں آ سکتی ہے۔ اس کے آدھے سے زیادہ ہتھیار روسی ہیں جن کو بار بار فاضل پرزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر روس پرزوں کی فراہمی بند کر دے تب کیا ہو گا ۔

تازہ ترین