• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں عام انتخابات کےبعد عمران خان نے وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد جو بیانات جاری کیے ان میں بھارت کو امن مذاکرات کی پیش کش بھی شامل تھی۔ انہوں نے بھارت کے ایک قدم کے جواب میں دو قدم بڑھانے کی بات کی تھی۔ ان کے اس بیان کو دونوں طرف سراہاگیاتھا۔خصوصاً بھارت کے وہ حلقے جو دو نو ں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کے خواہاں رہے ہیں، انہوں نے بھی اسے مثبت قدم قرار دیاتھا۔ بعدازاں بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی مثبت جواب دیا گیا۔مگر پھر یہ خبرآئی کہ کنٹرول لائن پر فائرنگ کے علاوہ کشمیر میں تین سیکیورٹی اہل لکاروں کو اغوا کر کےماردیا گیا۔ اس کے فوری بعدبھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان سے مذاکرات کی دعوت منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ جولائی2016 میں کشمیری مجاہد برہان ربانی مقبوضہ کشمیر میںقابض بھارتی فوجیوں سے لڑتےہوئے شہید ہوگئے تھے۔پاکستان پوسٹل سروس نے ڈاک کے ٹکٹ پران کی دوساتھیوں سمیت تصویر جاری کی تو بھارت میں اس پر واویلا مچا ۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان برہان ربانی کو ہیرو بناکر پیش کررہا ہے۔ اس لیے یہ احتجاج بھی مذاکرات کی دعوت منسوخ کرنے کی وجوہ میں شامل کرلیا گیا۔مگر ان تمام الزامات سے زیادہ سنگین الزام پاکستان کے وزیر اعظم پر لگایا گیا کہ ان کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے اور پاکستان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے بھارتی حکومت نے ایک اور مضحکہ خیز قدم اٹھایا ہے۔ بھارت کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعے ایک خط تمام سرکاری جامعات اور کالجز کو ارسال کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ29 ستمبر کو پورے جوش و خروش سے 2016 میں بھارتی فوج کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرجیکل اسٹرائیک کا دن منایا جائے۔خط کے مطابق 29 ستمبر کو بھارت نےپاکستان کی سرحدوںکےاندرسرجیکل اسٹرا ئیک کی تھی جسے گلوریفائی کیاجائے، تقریبات کا اہتمام کیا جائے، پوسٹرز شایع کیےجائیں اور بھارتی افواج کو ان کی قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا جائے۔ اس دن خاص طور پر بھارتی افواج کے ریٹائرڈ افسر اور سپاہی تقریبات میں شرکت کریں گے۔

تاہم بھارت کے بیش تر دانش وروں نے اس خط کی اور حکومت کی مذمت کی ہے۔ جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر اور کتاب ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے مصنف اے ایم مکرجی نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ قوم پرستی کے جذبے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا سراسر غلط ہے۔ اگر کسی نے اس مہم میں حصہ نہیں لیا تو کیا وہ قوم پرست نہیں ہے۔ دیگر حلقوں نے بھی 29 ستمبر کو نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک ڈے منانے کی مذمت کی ہے اور اسے بی جے پی کا بھونڈا سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔ اکثریت اس سے متفق نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کی تاریخ کا فی طویل ہے۔ اگر 1972 سے نظر ڈالیں تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات کرکے شملہ معاہدہ کیا تھا جس میں جنگی قیدیوں کی رہائی بھی شامل تھی۔1971 میں جو سفارتی تعلقات منقطع ہوئے تھے، وہ1976 میں بحال ہوئے۔پھر حالات کا اتار چڑھاو جاری رہا۔جون 1997 میں دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔مگر یہ سلسلہ ستمبر 1997 میں پھر منقطع ہوگیا۔ مگر ایک اچھی پیش رفت فروری 1999 میں ہوئی جس میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور وزیراعظم میاں نوازشریف نے ان کا مینار پاکستان پر استقبال کیا تھا۔ اس ملاقات اور مذاکرات میں دونوں ممالک نے تین مختلف معاہدوں پر دست خط کیےتھے۔اس دوران پاکستان میں بھی دائیں بازو کی قدامت پسند جماعتوںنے اس عمل کی مخالفت کی تھی ۔ مگر یہ ملاقات مثبت پیش رفت تھی۔ اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ چند برس کے تعطل کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بھارت سے مذاکرات کی غرض سے آگرہ کاتین روزہ دورہ کیا جس میں 14 تا 16 جولائی 2001 کو طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ۔ اس میں تین اہم معاملات پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ معاہد ے پر اٹل بہاری واجپائی اور جنرل پرویز مشرف کے دست خط ہوناباقی تھے کہ اچانک چند نکات پر مذاکرات میں  رکاوٹ آگئی۔بلکہ طے شدہ معاہدےپر بھی یکایک اعتراض اٹھادیا گیا۔ لہذا معاہدہ نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے بی جے پی کے طاقت ور راہ نما ایل کے ایڈوانی نے رکاوٹ ڈالی تھی۔ 

تاہم اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف بھارت کومزید مذاکرات کی پیشکش کرکے وطن واپس آگئے۔جون 2004 میںایک بار پھر مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھاجس میں یہ طے پایاکہ دونوں ایٹمی ممالک کے مابین ہاٹ لائن قائم کی جائے اور مزید جوہری ہتھیاروں کے تجربات سے اجتناب برتا جائے۔2005 میں بھارت میں بگلیہار ڈیم کا مسئلہ اٹھا۔ اس کا منصوبہ 1992 میں تیار کیا گیا تھا ۔2004 میں اس کی تعمیر شروع ہوئی ۔ یہ ڈیم ایک ارب ڈالرز کی لاگت سے جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈادریائے چناب پر تعمیر کیا گیا۔ اس پر پاکستان کے شدید تحفظات تھے۔ایسے میں پاکستان نے1999 میں ڈیم کی تعمیر کو انڈس واٹر ٹریٹی کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیااوراس کے ڈیزائن پر بھی شدید اعتراض اٹھایا۔

مذکورہ واقعات کے علاوہ بھات کو سب سے زیادہ تشویش 1989 میں کشمیر میں ہونے والی عوامی شورش پر ہوئی جس کا ذمے دار وہ پاکستان کےمجاہدین کو تصور کرتا ہے ۔ اس سے بڑا واقعہ کارگل کا تھا جس میں آخرکار امریکا کو دونوں ممالک میں صلح کرانے اور کشیدگی کم کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑا تھا۔ بعدازاں2001 میں بھارتی پار لیما ن پر حملے کا واقعہ پیش آیا۔2007 میں سمجھوتا ایکسپریس میں بم دھماکا ہوااور 2008 میں ممبئی میں 8 مقامات پر بم پھٹنے کے واقعات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخی اورسیاسی کشیدگی میںاضافہ کردیا۔ان تمام معاملات میں پاکستان کی حکومتوں نے پاکستان کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت اور میڈیا پاکستان پر مسلسل الزامات عاید کرتا رہاہے۔کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ بھارت کا پانی پاکستان میں نہیں جانےدیں گے۔ اس اشتعال انگیز بیان کے بعد دونوںممالک کے بیچ اس مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

بھارت کے بیش تر مبصرین کا دعویٰ ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے بیچ پانی کے مسئلے پر جنگ کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔حالاں کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ دونو ں ممالک کے بیچ تقسیم ہند کے بعد سے چلا آرہا ہے۔ اس وقت تمام ہیڈ واٹر بھارت کے علاقے میں آگئے تھے۔ 1948 سے پاکستان اپنے حصے کے پانی کےلیے بھارت پر زور ڈالتا رہا ہے۔ تاہم 1960 میں عالمی بینک کے توسط سے سندھ طاس معاہدہ طےپایا جس کے تحت پاکستان اور بھارت کو ہمالیائی پہاڑوں سے آنے والےپانیوں سے مستفید ہونے کے مساوی مواقعے فراہم کیےگئے۔ مگر بھارت اپنے پانی کے علاوہ پاکستانی حصے کے پانی پر بھی حق جتارہا ہے۔ اس حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو، جس کے پاس صرف تین دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے،اپنی یہ صلاحیت ایک ہزار دن تک بڑ ھا نے کے منصوبے کی پیش کش کی ہے۔ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر چین بھی دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے میں شامل ہوگیا تو پھر اس خطے میں امن قائم رکھنامشکل ہوسکتا ہے۔

قطع نظر اس تمام بحث کے، واقعہ یہ ہے کہ بھارت اس وقت ہمہ جہت اور پے چیدہ مسائل کا شکارہے جن میں مذہبی،لسانی علاقائی،سیاسی اور اقتصادی مسائل شامل ہیں۔دوسری جانب بیرونی عناصر کی مسلح مداخلت ،انتہا پسند ہندو مذہبی گروہوں کی کارروائیاں، اقلیتوں میں شدید بے چینی ہے۔پھر یہ بھی کہ تقسیم ہند کے زخم اب بھی ہرے ہیں۔ کرپشن، منہگائی اور بےروزگاری نے ہلچل مچارکھی ہے۔ پولیس اور طاقت ور سیاسی عناصر کا گٹھ جوڑ جرائم پیشہ گروہوں کو فروغ دے رہا ہے۔جس سے عوام الناس میں حکومت کا اعتبار ختم ہورہا ہے۔اس کے علاوہ بھارت کے شمال مشرقی صوبوں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالہ، مینرورام، ناگالینڈ، تریپورہ اور سکم میں سیاسی شورشیں طویل عرصے سے جاری ہیں۔ ان میں سے بیش تر علاقوں پر چین کا دعویٰ ہے۔ بھارت میں اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ بڑھتی جارہی ہے، وہ اس کا بھی پاکستان ہی کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔حالاں کہ اگر بھارت کی سرحدوں سے دہشت گرد اندر داخل ہوجاتے ہیں تو یہ اس کی سیکیورٹی کی کوتاہی ہے۔ اسی طرح بنگلا دیش سے غیرقانونی تارکین وطن اندر آجاتے ہیں تو یہ بھی بارڈر سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔

دراصل بھارت کا انتظامی ڈھانچا کرپشن اورلسانی تعصبات کی وجہ سے خاصا بوسیدہ ہوچکا ہے۔ غربت، تعلیم کا فقدان، توہم پرستی، بھانت بھانت کے بے شمار دیوی دیوتائوں میں گھرے عوام ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں ہے جس کو ان کا مہاویر چکر کہا جاسکتا ہے۔ البتہ بھارت کا تعلیم یافتہ، اعتدال پسند اور روشن خیال طبقہ ،جو محدود ہے، مگر اس کی آواز آج بھی توانا ہے، وہ برملا آواز اٹھاتا ہےکہ اگر بھارتی شہری پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں تو یہ بھارت کے سیاسی نظام کی خرابی ہے۔

تازہ ترین