• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت دنیا بھر میں موبائل اور اسمارٹ فون استعمال کرنے والے 3G اور 4G نیٹ ورکس چلارہے ہیں، تاہم 5G کے مسحور کن تجربے سے2020ء میں پوری طرح لطف اندوز ہوا جاسکے گا۔ ہوا کے دوش پر کام کرنے والا پانچویں نسل کا یہ نیٹ ورک اس وقت تجرباتی مراحل میں ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہمیں ٹیلی کمیونیکیشن اور فائبر آپٹک کے زمینی سسٹم کو وائرلیس، کلاؤڈ اور وائی فائی ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہوگا۔ 5G نیٹ ورک کی تیزی کا مقابلہ کرنے کے لیے موبائل وائرلیس سسٹم کو بھی کئی تجربات کی کٹھنائیوں سے گزرنا ہے، تاہم اس ضمن میں موبائل کی دنیا سے ہر نئے دن نئی خوش خبریوں مل رہی ہیں۔ اب ہم’’میٹرکس ورلڈ‘‘ میں داخل ہوگئے ہیں۔2019ء کا سال امریکیوں کے لیے5G کی خوش خبری لایا ہے۔ توقع ہے کہ رواں برس کے اختتام تک کمرشل بنیادوں پر اس کی پروڈکشن شروع ہوجائے گی۔ 5Gنیٹ ورک کی اشد ضرورت اس لیے بھی ہے کہ خودکار گاڑیوں، روبوٹس، ورچوئل ورلڈ اور ایک ساتھ کئی نیٹ ورکس سے منسلک بزنس ماڈل اس کی بدولت روانی سے چل پائیں گے۔ بفرنگ (Buffering)ماضی کا قصہ بن جائے گی اورپلک جھپکتے رابطے ممکن ہو سکیں گے ۔

5Gنیٹ ور ک کیا ہے؟

ففتھ جنریشن وائرلیس(5G) سیلولر ٹیکنالوجی کی ہی ایک نئی قسم ہے، جس کی رفتار اور وائرلیس ٹیکنالوجی کی وجہ سے فوری رابطہ 4Gکے مقابلے میں پانچ گنا تیز ہے۔وائرلیس براڈ بینڈ کنکشنز پر نشر ہونے والا ڈیٹا 5G کے ساتھ 20گیگا بائٹس فی سیکنڈ سے زائد رفتار سے منتقل ہوسکے گا، جس میں تاخیر کا دورانیہ ایک ملی سیکنڈ سے بھی کم ہوگا۔ 5G موبائل صارفین ریئل ٹائم فیڈ بیک سے لطف اٹھاسکیں گے، انہیں اسکرولنگ کی شکایت نہیں رہے گی۔ مواصلاتی رابطہ صرف ایک کلک کے فاصلے پر ہوگا۔ دستیاب بینڈ وتھ اور ایڈوانسڈ اینٹینا ٹیکنالوجی کی بدولت وائرلیس سسٹمز پر زیادہ سے زیادہ ڈیٹا منتقل ہو سکے گا۔ رفتار، صلاحیت میں اضافے اور تاخیر میں کمی کے ساتھ5G نیٹ ورک سلائسنگ جیسے نیٹ ورک مینجمنٹ فیچرز بھی آفر کرے گا، جس سےموبائل آپریٹرز ایک ہی فزیکل 5G نیٹ ورک سے ملٹی پل ورچوئل نیٹ ورکس بنا پائیں گے۔ یہ صلاحیت وائرلیس نیٹ ورک کنکشنز کو خصوصی طور پر کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی را ہ ہموار کرے گی، مثلاً خودکار گاڑیوں کو چلانے کے لیے ایسے ہی نیٹ ورک سلائس کی ضرورت پڑے گی جو انتہائی تیز رفتار اور کم تاخیری کنکشنز آفر کرے تاکہ گاڑی ریئل ٹائم میں چل سکے۔ انٹرنیٹ آف ایوری تھنگ کا استعمال بہت سہل ہوجائے گا۔

5G کیسے کام کرتا ہے؟

وائرلیس نیٹ ورکس ’سیل سائٹس‘ پر مشتمل ہوتے ہیں، جنہیں سیکٹرز میں تقسیم کیا جاتا ہے،جو ریڈیائی لہروں کے ذریعے ڈیٹا بھیجتے ہیں۔ 4G LTE وائرلیس ٹیکنالوجی، 5G کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔4G کے برعکس اس میں طویل فاصلوں سےسگنلز لانے کے لیے بڑے اور ہائی پاور سیل ٹاورز درکار ہوتے ہیں۔ 5G وائرلیس سگنلز بجلی کے کھمبوں یا عمارت کی چھت جیسے مقامات پر نصب چھوٹے سیل اسٹیشنز کی بڑی تعداد کے ذریعے نشر ہوں گے،جن سے مواصلاتی نشریاتی رابطے میں تعطل صفر کے برابر ہوجائے گا۔ چھوٹے سیلز کی بڑی تعداد اس لیے بھی ضروری ہے کہ30 گیگاہرٹز (GHz) اور 300گیگاہرٹز (GHz)کے درمیان ملی میٹر بینڈ وتھ اسپیکٹرم پر چلنے والی رفتار اسی صورت برقرار رہ سکتی ہے، جب طویل فاصلاتی روابط کو پکٹس کی صورت میں نشر کیا جائےکیونکہ یہ رفتار کسی بھی عمارت کی رکاوٹ سے لہروں کو پلٹا کر انہیںتوڑ سکتی ہے۔ لہروں کی روانی چھوٹے چھوٹے سیل اسٹیشنز سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ وائرلیس ٹیکنالوجی کی موجودہ جنریشنز کم فریکوئنسی پر چلتی ہیں،جب کہ 5G کے لیے ہمیں ملی میٹر ویو اسپیکٹرم درکار ہوگا،جو اسی وقت ممکن ہے جب لہروں کو مختلف پکٹس میں بھیجا جائے۔

5G نیٹ ورک کی تنصیب

امریکا، جاپان، جنوبی کوریا اور چین کے وائرلیس نیٹ ورک آپریٹرز 5G نیٹ ورک سسٹمز بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور ان چاروں ممالک نے موبائل مارکیٹ میں اپنی نت نئی پراڈکٹس سے پورے عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ ہر سال ٹیکنالوجی نمائش میں ایسے منفرد موبائل سیٹس، چپس اور وائی فائی سسٹمز متعارف کروائے گئے ہیں، جنہیں دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ 2019ء کا سال 5G موبائل کا سنہری سال ہوگا۔ کئی 5Gنیٹ ورک کے پروٹو ٹائپ بن چکے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیکنالوجی بزنس ریسرچ کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس سسٹم کی تشکیل پر آنے والے بے تحاشا اخراجات ٹیکنالوجسٹ کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 5G موبائل آبھی گیا تو اتنا مہنگا ہوگا کہ عام صارفین کی پہنچ سے دور ہوگا تاہم اس تشویش میں امید کی ایک کرن یہ بھی ہے کہ یہ سسٹم پروان چڑھنے سے اس کی لاگت میں بھی اسی طرح کمی آئے گی جیسے دیگر اسمارٹ فونز میں آئی ہے۔

شنید ہے کہ رواں برس کے آخر تک ہمارے پاس5G فکسڈ وائرلیس براڈبینڈ سروسز اور 5G سیلولر سروسز دستیاب ہوں گی۔ یہ سارے کمالات نینو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی بدولت ممکن ہوئے ہیں۔ اس وقت ڈرون موبائل بن چکا ہے، خودکار انداز میں چارج ہونے والی بیٹریاں سامنے آچکی ہیں، ٹھنڈے کیمیائی اجزا سے چپس بنانے کی صورت بن آئی ہے اوربرقی کاٹھ کباڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈیٹا مائننگ ہورہی ہے۔ یہ تمام پیش رفتیں رواں برس کئی حیرت انگیز موبائلز کی پیشگی بازگشت ہیں۔

تازہ ترین