• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہوچکی ہے، یہ اس دور کا آغاز ہے، جس میں انسانی اور قدرتی وسائل سے زیادہ جدت پسندی /اختراعی سوچ (Innovative Thinking)زیادہ اہمیت حاصل کرچکی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ’دنیا کے سب سے زیادہ اختراع پسند ممالک‘ (Most Innovative Countries) کے انڈیکس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جنوبی کوریا اور سویڈن، دنیا کے سب سے زیادہ اختراع پسند ممالک ہیں۔ انڈیکس کی تیاری میں، کسی بھی ملک میں فی کس ٹیکنالوجی کمپنیوں کی موجودگی سے لے کر، اس ملک کی ’لیبر فورس‘ میں سائنس اور انجینئرنگ گریجویٹس کی شرح جیسے عناصر کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ انڈیکس مرتب کرنے میں اس بات کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے کہ ایک سال کے دوران، کس ملک نے سب سے زیادہ نئی مصنوعات متعارف کرانے کے لیے پیٹنٹ (Patent)فائل کیے۔ رپورٹ میں پیٹنٹ فائل کرنے کے لحاظ سے جنوبی کوریا کو سب سے آگے بتایا گیا ہے۔ پیٹنٹ فائل کرنے کے اعدادوشمار ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور او ای سی ڈی جیسے قابلِ بھروسہ ذرائع سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی کوریا کو سب سے آگے رکھنے میں، سب سے بڑا کردار، اس ملک سے تعلق رکھنے والی مشہور و معروف موبائل کمپنی کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اکیسویں صدی کے ابتدائی17برسوں میں امریکی کمپنی آئی بی ایم کے بعدجنوبی کوریا کی اس موبائل کمپنی نے سب سے زیادہ نئی مصنوعات تیار کرنے کے پیٹنٹ فائل کیے ہیں۔ جنوبی کوریا کی اس اختراعی سوچ کا عکس ان کی پوری معیشت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

یورپ کے ملک سویڈن کو دوسرے سب سے زیادہ اختراع پسند(Innovative)ملک کا درجہ دیا گیا ہے۔ سویڈن، یورپ کے اسٹارٹ اَپس کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ اسکینڈے نیوین ملک، یورپ کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا گھر ہے۔ Unicorns(وہ ٹیکنالوجی اسٹارٹ اَپ کمپنیاں، جن کی کم از کم مالیت ایک ارب ڈالر یا اس سے زائد ہے) کی تعداد کے لحاظ سے سویڈن کا دارالحکومت اسٹاک ہوم، امریکا کی سیلیکون ویلی کے بعد دوسرے نمبر پر آچکا ہے۔

امریکا کے مسائل

امریکا پہلی بار بلوم برگ کے ٹاپ 10ا ِنوویشن انڈیکس 2018ء سے باہر آگیا ہے۔ گزشتہ سال اس انڈیکس میں امریکا 9ویں نمبر پر تھا، جبکہ 2018ء کے انڈیکس میں وہ 11ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق، امریکا کے ٹاپ10انڈیکس سے خارج ہونے کی وجہ تیسرے درجے کی تعلیم (Tertiary Education)میں 8درجے نیچے چلےجانا ہے۔ یہ درجہ بندی اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ ایک ملک کی ’لیبر فورس‘ میں اس کے سائنس اور انجینئرنگ گریجویٹس کی شرح کیاہے۔ ثانوی تعلیم کے میدان میں کارکردگی کے لحاظ سے صفِ اول کے 50 ممالک میں امریکا 43ویں نمبر پر جاچکا ہے۔ ثانوی تعلیم کے میدان میں سنگاپور اور ایران سرِفہرست ہیں۔ یہ دونوں ملک، لیبر فورس میں سب سے زیادہ سائنس اور انجینئرنگ گریجویٹس رکھتے ہیں۔ اگر دیگر شعبوں کی بات کریں تو ایران کیپٹل انویسٹمنٹ، پیٹنٹ فائلنگ، سائنسی اور تکنیکی اشاعتوں، ٹریڈمارکس اور ٹیکنیکل مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں بھی متاثرکن کارکردگی دِکھا نے میں کامیاب رہا ہے۔

یہ رپورٹ حالیہ مہینوں میں تعلیم کے میدان میں امریکا کی عالمی حیثیت کے لیےایک اور بڑا دھچکا ہے۔ اس سے پہلے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کے انڈیکس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ’گلوبل ٹاپ2یونیورسٹیز‘ میں ایک بھی امریکی جامعہ شامل نہیں۔ یہ اعزاز بالترتیب برطانیہ کی آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیز کو حاصل ہے۔

تعلیم کے میدان میں نیچے جانے کے علاوہ، امریکا ’ویلیو ایڈیڈ‘ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھی تنزلی کا شکار ہے۔ ویلیو ایڈیڈ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں امریکا کا نمبر 23واں ہے۔ اس شعبے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر بالترتیب آئرلینڈ اور جنوبی کوریا ہیں۔

کئی شعبوں میں شدید جھٹکوں کے باوجود، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی فی کس موجودگی کے لحاظ سے امریکا اب بھی تمام ملکوں سے آگے ہے۔ نئی مصنوعات کے پیٹنٹ فائل کرنے کے لحاظ سے بھی امریکا، جنوبی کوریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

سب سے زیادہ اختراع پسند ممالک کے ٹاپ 10 انڈیکس میں اسرائیل شامل ہے۔ مجموعی کارکردگی میں 10ویں نمبر پر ہونےکے علاوہ، کم از کم 2 شعبے ایسے ہیں، جہاں اسرائیل پہلے نمبر پر ہے۔ وہ شعبے ہیں، فی کس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ (R&D) سرمایہ کاری اور محققین (Researchers)کی موجودگی۔ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی تحقیق اور ترقی کے شعبے میں اسرائیل کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ دور کی تین اہم ترین ایجادات اور اختراعات، یو ایس بی فلیش ڈرائیو، پہلا انٹیل پی سی پروسیسر اور گوگل کا Suggest Functionاس کی مرہونِ منت ہیں۔ عالمی ٹیکنالوجی کی صنعت میں اسرائیل کا کردار اس کے قد سے کہیں بڑھ کر ہے۔4,000اسٹارٹ اَپس کے ساتھ اسرائیل، ٹیکنالوجی کے میدان میں، امریکا کے مقابلے میں ڈھائی گناجبکہ یورپ کے مقابلے میں 30گنا زیادہ وینچر کیپیٹل حاصل کرتا ہے۔

ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ

آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ (OECD)کے مطابق، دنیا کےکسی بھی ملک کے مقابلے میں اسرائیل ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر، اپنے معاشی حجم کی شرح کے اعتبار سے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے، جوکہ 4.3فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے، جو تحقیق اور ترقی کے شعبے میں اپنی معیشت کا 4.2فیصد خرچ کرتا ہے۔ 3.4فیصد کے ساتھ سوئٹزرلینڈ، تحقیق اور ترقی کے شعبے میں تیسرا سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔ سویڈن 3.3فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ امریکا کی اس شعبے میں سرمایہ کاری بتدریج کم ہوکر2.8فیصد رہ گئی ہے۔

چین کی اُڑان

اِنوویشن انڈیکس میں چین نے مسلسل اوپر کی اُڑان جاری رکھی ہوئی ہے۔ گزشتہ سال اس انڈیکس میں چین 22ویں نمبر پر تھا، جبکہ اس سال وہ پانچ درجے پھلانگتے ہوئے 17ویں نمبر پر آگیا ہے۔ 

تازہ ترین