• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں گیارہ اپریل سے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا گیا ہے۔ یہ انتخابات سات مرحلوں میں ہوں گے جب کہ ووٹوں کی گنتی 23مئی 2019ء کو ہوگی۔

بھارت کے الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے دس مارچ کو بھارتی عام انتخابات کے مرحلہ وار انعقاد کی تفصیلات عام کردیں جس سے اب انتخابی مہم میں تیزی آجائے گی۔ پلوامہ حملے کے بعد ان انتخابات کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کیوں کہ مودی حکومت ان حملوں کے بعد پاکستان کے خلاف بیان بازی کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ بھارتی الیکشن کمشنر کے اعلان کے مطابق اس بار دس لاکھ پولنگ اسٹیشن قائم کئے جائیں گے، جب کہ پانچ سال قبل 2014 کے انتخابات میں نو لاکھ انتخابی مراکز قائم کئے گئے تھے۔

اعلان کے مطابق پہلا مرحلہ گیارہ اپریل سے 18اپریل تک چلے گا جس میں اکانوے نشستوں پر الیکشن ہوگا۔ دوسرا مرحلہ 18اپریل کو، تیسرا تئیس اپریل کو، چوتھا انتیس اپریل کو، پانچواں چھ مئی کو، چھٹا بارہ مئی کو اور آخری مرحلہ انیس مئی کو ہوگا۔ اس میں سب سے بڑا مرحلہ تیس اپریل کا ہے جس میں کل ایک سو پندرہ نشستوں پر انتخاب ہوگا۔

بھارتی انتخابات کے ضابطہ اخلاق کے مطابق تمام امیدواروں کو اپنے خلاف مقدمات کی تفصیلات بتانی ہوتی ہیں اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد مرکزی یا صوبائی حکومت کوئی پالیسی جاری نہیں کرسکتی، کیوںکہ اس سے انتخابات پر اثرانداز ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارتی الیکشن کمیشن اشتہاری مہموں پر بھی نظر رکھتا ہے اور اشتہارات کو پہلے منظور شدہ سرٹی فیکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

بھارت کے انتخابات میں سب سے بڑا اثر سب سے بڑی ریاست اُترپردیش یا یوپی کا ہوتا ہے، جہاں بھارت کی کل پانچ سو تینتالیس نشستوں میں سے 80 پر انتخاب ہوتے ہیں۔ پچھلے انتخابات میں بھارتیا جتنا پارٹی نے اسی میں سے تہتر نشستیں جیتی تھیں، جن کی بدولت بی جے پی مرکز میں اپنی حکومت بنا پائی تھی۔ اس کے مقابلے میں بہوجن سماج پارٹی کو ایک نشست بھی نہیں ملی تھی جس کی سربراہ مایاوتی ہیں، جب کہ سماج وادی پارٹی صرف پانچ نشستیں اور کانگریس یوپی سے صرف دو نشستیں جیت پائی تھی۔اب انتخابات کے لیے اکھی لیش یادو کی سماج وادی پارٹی نے مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی سے اتحاد کا اعلان کیا ہے۔ بھارتیا جتنا پارٹی کی حیثیت یوپی میں اس لیے مستحکم ہے کہ اس نے 2014 کے ریاستی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی تھی، گو کہ اس کے ساتھ دو چھوٹی پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ آنے والے انتخابات میں اسی نشستوں میں سے اڑتیس نشستوں پر بہوجن سماج پارٹی اور 37 نشستوں پر سماج وادی پارٹی لڑے گی۔ اسی طرح انہوں نے کانگریس کے خلاف بریلی اور امیٹھی کی نشستوں پر اپنے امیدوار نہ کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس طرح یوپی جہاں بی جے پی کے خلاف تین حزب مخالف کی جماعتیں ایک دوسرے کے ووٹ کاٹتی رہی ہیں اب ایک دوسرے ساتھ تعاون کررہی ہیں تاکہ بی جے پی کو ہرایا جاسکے، صرف یوپی میں اہل رائے دہندگان کی تعداد تقریباً ساڑھے چودہ کروڑ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بھی مرکز میں بی جے پی کی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ این ڈے اے حکومت کہلاتی ہے، جب کہ اس سے قبل کانگریس کی حکومت اتحادیوں کے ساتھ یوپی اے حکومت کہلاتی تھی۔

بی جے پی نے ایک بار پھر مذہب اور قوم پرستی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے اور قومی سلامتی کو ایک اہم مسئلے کے طور پر پیش کررہی ہے۔ اب بی جے پی نے بھی مختلف ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے اتحاد بنانے شروع کردیئے ہیں اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے نام سے اپنے امیدوار کھڑے کررہی ہے۔ اس طرح بھارت کی انتیس (29) ریاستوں میں بی جے پی کے 29 اتحادی ہیں جو کانگریس کے اتحادیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اپنے اتحادیوں کے لیے بی جے پی اپنی وہ نشستیں بھی چھوڑ رہی ہے جن پراُس کی فتح یقینی ہے۔ اس کا مطلب ہے بی جے پی ہر حالت میں اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنا چاہ رہی ہے۔اسی طرح بی جے پی نے بہار میں جنتا دل کے ساتھ، مہاراشٹر میں شیوسینا کے ساتھ، تامل ناڈو میں اے آئی اے ڈی ایم کے (AIDMK) کے ساتھ جو اتحاد کیے ہیں اس سے بی جے پی کو خاصا فائدہ ملنے کی امید ہے۔

بی جے پی ان تمام اتحادوں کے باوجود نریندر مودی کی رہ نمائی پر نہ صرف متفق ہے، بلکہ مودی کو اگلے وزیراعظم کے طور پر پیش کررہی ہے۔ بی جے پی کا ایک بڑا نعرہ یہ ہے کہ، حزب مخالف کی جماعتوں کو یہ نہیں معلوم کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔ راہول گاندھی، مایاوتی، اکھی لیش یادو یا پھر ممتا بنرجی۔ اس غیریقینی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی ووٹروں سے کہہ رہی ہے کہ مودی کو ایک بار پھر منتخب کریں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ حزب مخالف کے اتحاد ’’مہا ملاوٹ‘‘ کے برابر ہیں، کیوں کہ اس میں ہر کوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہا ہے، جب کہ بی جے پی کی قیادت پر سب متفق ہیں۔ یقیناً بی جے پی کی حمایت میں یہ عنصر خاصا اہم کردار ادا کرے گا ،کیوں کہ حزب مخالف ایک مل کر متفق امیدوار پیش نہیں کرسکتے۔بعض اندازوں کے مطابق کہا جارہا ہے، کہ اس بار بھارت میں ووٹ ڈالنے کا تناسب پہلے سے کم ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ بڑی ریاستوں جیسے مغربی بنگال، بہار اور اترپردیش میں انتخابات کئی مرحلوں پر پھیلے ہوئے ہیں جن کے باعث ووٹ ڈالنے والوں کی دل چسپی کم ہوجاتی ہے۔ ایک ہی ریاست میں مختلف تاریخوں میں انتخابات ہونے سے کچھ حلقہ انتخاب میں انتخابی مہم ختم ہوچکی ہوگی اور کچھ میں چل رہی ہوگی، جس کے امیدوار اور ووٹ ڈالنے والے گڑبڑ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں استعمال کی گئی تھیں، جن کے باعث حزب مخالف نے الزام لگایا تھا کہ ان مشینوں کو بی جے پی کے ماہروں نے اپنے قابو میں کرلیا تھا جس سے ووٹوں کی گنتی پر اثر پڑا تھا۔ آنے والے انتخابات میں بھی ان ہی مشینوں کو استعمال کیا جانا ہے، جس پر حزب مخالف مطالبہ کررہی ہے کہ ان مشینوں کے پچاس فی صد نتائج کو دوبارہ جانچا جائے۔

ایک خاص بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، جب کہ عام طور پر وہاں بھی لوک سبھا کے انتخابات دیگر ریاستوں کے ساتھ کرادیئے جاتے ہیں۔ لیکن اس بار الیکشن کمیشن نے سیکورٹی صورت حال کا بہانہ بناتے ہوئے انتخابات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے، کیوں کہ ہر ریاست کو اپنے انتخاب کی ذمہ داری خود لینی ہوتی ہے اور مقبوضہ کشمیر کی مخدوش صورت حال میں وہاں کی حکومت یہ ذمہ داری لینے پر تیار نہیں ہے۔ بہرحال آنے والے انتخابات بھارت میں خاصی اہمیت کے حامل ہوں گے اور اگر مودی جیت جاتے ہیں تو یہ اس خطے میں امن کی امیدوں پر پانی پھیر دے گی۔

تازہ ترین