• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں جب معروف افسانہ و ناول نگار الطاف فاطمہ کا انتقال ہوا تو ان کے ماموں سید رفیق حسین کا بھی ذکر آیا جنہوں نے الطاف فاطمہ کی ابتدائی ادبی زندگی کو متاثر کیا تھا۔ سید رفیق حسین کی خاص بات یہ تھی کہ وہ جانوروں کے بارے میں اردو افسانے لکھنے والے ابتدائی قلم کاروں میں سے تھے مگر آج ان کا نام کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ بعض لوگ انہیں ایک اور سید رفیق حسین سے غلط ملط کردیتے ہیں جو 1913ء میں پیدا ہوئے اور 1990ء میں فوت ہوئے۔ یہ والے رفیق حسین ایک شاعر اور نقاد تھے اور الہٰ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تھے اور اکثر خود کو ڈاکٹر سید رفیق حسین بھی لکھا کرتے تھے۔

الطاف فاطمہ کے ماموں کا پورا نام سید رفیق حسین رضوی تھا جن کا انتقال 1944ء میں ہوگیا تھا۔ 2017ء میں اجمل کمال رسالے ’’آج‘‘ میں شائع ہونے والی خودنوشت کے مطابق سید رفیق حسین 1995ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ صرف سات برس کے ہی تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور پھر وہ مختلف رشتے داروں کے ہاں پلتے بڑھتے رہے جن میں ان کی بہن اور پھوپھی وغیرہ شامل تھیں۔ رفیق حسین کے اپنے بیان کے مطابق وہ کوئی بہت اچھے طالب علم نہیں تھے۔

1915ء میں وہ گھر چھوڑ کر بمبئی (ممبئی) چلے گئے جہاں وہ دن میں ایک فائونڈری میں کام کرتے اور رات کو مطالعہ کرتے۔ اس طرح وہ ایک انجینئرنگ انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کے والد نے انہیں اخراجات بھیجنے شروع کردیئے۔ سید رفیق حسین نے 1920ء میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد انجینئر کے طور پر کام کرنا شروع کردیا مگر وہ کہیں ایک جگہ نہ ٹک سکے۔ وہ لکھتے ہیں ’’سترہ برس میں انہوں نے بیس مختلف ملازمتیں کیں۔ جانوروں کے بارے میں ان کا تجسس ان دس سال میں ابھرا جب وہ پہاڑوں کے قریب رہے۔ سید رفیق حسین کا اردو کا مطالعہ وسیع نہیں تھا نہ ہی وہ شستہ اردو لکھ سکتے تھے۔ ان کی تحریروں کو بہتر کرنے کا کام ان کی صاحبزادی انجام دیتی تھیں۔ رفیق حسین کے مطابق خود انہوں نے اردو کی دوچار کتابیں ہی پڑھی ہوں گی مگر ان کا انگریزی میں مطالعہ بہت وسیع تھا۔ چالیس سال کی عمر تک انگریزی کے سیکڑوں افسانے اور ناول پڑھ ڈالے تھے۔ گو کہ انہوں نے خود کبھی جانور نہیں پالے مگر ان کی جانوروں کے بارے میں کہانیاں بڑے گہرے مشاہدوں پر مبنی ہیں۔ وہ اپنی اردو کہانیوں کا سہرا اپنی بیٹی اور اپنی چھوٹی بہن کے سر باندھتے ہیں جو الطاف فاطمہ کی والدہ تھیں۔وہ رفیق حسین کو اردو کہانیاں پڑھ کر سناتی تھیں جو انہیں پسند نہیں آتی تھیں اور وہ اردو ادب کو روایتی چرخہ اور انگریزی ادب کو ٹیکسٹائل مل کہا کرتے تھے۔ اس پر الطاف فاطمہ کی والدہ نے کہا کہ وہ اردو میں کہانیاں لکھ کر دکھائیں۔ سید رفیق حسین نے یہ چیلنج قبول کیا اور ان کی ابتدائی کہانیاں شاہد احمد دہلوی کے رسالے ’’ساتھی‘‘ میں شائع ہونے لگیں۔ ان کی پہلی کہانی کا نام ’’کلوا‘‘ تھا۔ یہ ایک کتے کی کہانی ہے جو ابھی چھوٹا پلا ہی ہے کہ اسے ایک بچہ گھر لا کر کلوے کا نام دے دیتا ہے۔ اس بچے کا نام منن ہے۔بچے کے گھر والے کلوے کو گھر سے باہر بھگا دیتے ہیں مگر کلوا پھر بھی اس بچے منن کو نہیں بھولتا۔ کئی سال بعد منن ایک نالے میں ڈوب رہا ہوتا ہے کہ کلوا پانی میں کود کر اس بچے کی جان بچا لیتا ہے مگر خود ڈوب جاتا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک اتنے اچھے قلم کار کو کم و بیش تمام نقادوں نے بالکل نظرانداز کردیا جس کی غالباً ایک وجہ وہ دور تھا جس میں سید رفیق حسین نے لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کے افسانوں اور ناولٹ کی کل تعداد بمشکل ڈیڑھ درجن ہوگی جو 1930ء اور 1940ء کے عشرے میں شائع ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ماحول سیاسی طور پر خاصا گرم تھا اور سیاسی تحریریں زیادہ شائع ہورہی تھیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین وجود میں آچکی تھی اور ان کے افسانوی مجموعے ’’انگارے‘‘ کو خاصی شہرت مل چکی تھی۔

سید رفیق حسین کی کہانیوں میں سماجی پیغام بھی ہوتا تھا مگر پھر بھی ان کی کہانیاں اس وقت اردو ادب کے غالب دھارے میں معروف نہ ہوسکیں۔ اجمل کمال اور آصف فرخی نے سید رفیق حسین کی کہانیاں دوبارہ قارئین سے متعارف کرائی ہیں۔

سید رفیق حسین کی تمباکو نوشی کے باعث بہت جلد سرطان میں مبتلا ہوکر فوت ہوگئے۔ ان کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’ سید رفیق حسین‘‘ کے عنوان سے 2004ء میں لاہور سے بھی شائع ہوا۔ انہوں نے جانوروں کے علاوہ بھی کہانیاں لکھیں مثلاً ’’گڑھا نہیں بھرتا‘‘ ایک ایسی کہانی ہے جس میں ایک سرکاری افسر ایک گڑھا بھرنے کیلئے سرکاری کھاتے سے باربار رقوم نکلواتا ہے۔ کہانی میں وہ گڑھا دراصل سرکاری افسر کا پیٹ ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ اسی طرح ’’نیم کی نمکولی‘‘ اور ’’فسانہ اکبر‘‘ سید رفیق حسین کے اچھے ناولٹ ہیں۔

تازہ ترین