• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈونیشیا ،جہاں برگرہزاروں اور ٹیکسی کا کرایہ لاکھوں روپے ہے

Latest News
کراچی.... رضوان الحق رضی.....خطِ استوا کے دونوں طرف واقع دنیا کاچوتھا بڑا ملک انڈونیشیاسترہ ہزار جزائر پر مشتمل ہے۔ایک لاکھ روپے کا نوٹ عام لین دین میں خوب چلتا ہے۔کھانے سے زیادہ پیش کرنے کا انداز منفرد ،ٹریفک جام کامسئلہ انتہائی گمبھیر لیکن نظم و ضبط عروج پراور امن و امان کی صورت حال مثالی ہے۔

انڈونیشی کرنسی کو روپیا کہتے ہیں۔اس کی قدروقیمت خاصی گِری ہوئی ہے۔ مقامی لوگ بھائو تائو میں تین صفر لگائے بغیر قیمت بتاتے ہیں۔ اگر آپ ایک برگر کھانا چاہیں تو اس کے 65 روپے بتائیں گے جبکہ دراصل وہ 65000روپے ہوں گےیعنی تقریباً ساڑھے چارسو پاکستانی روپے ۔شہر میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کیا جائے تو لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

سترہ ہزار سے زائد جزیروں پربرسوں سے کئی نسلیں آباد ہیں جن کے رہن سہن اور کھانے کے ذائقے دنیا کے دیگر ممالک سے خاصے الگ اور منفرد ہیں۔ مقامی افراد تیز مرچوں والے کھانوں کے شوقین ہیں خاص طور پرانواع و اقسام کی چٹنیوں کا بہت زیادہ رواج ہے۔

اصل کھانے سے زیادہ تو کھانے کے لوازمات ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں میٹھے پان ملتے ہیںاسی طرح یہاں ہر کھانےکو نہایت ہی خوب صورتی سے کاغذ میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض مقامات پرکیلے کے پتّوں میں بھی کھانے کی اشیا پیک کرکے پیش کی جاتی ہیں۔ کھانے پیش کرنے کا انداز، برتنوں کا انتخاب اور سب سے بڑھ کر ان کی انوکھی سجاوٹ بہت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ عام سے پاپڑوں اور چپس کو بھی اتنے خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود بخود کھانے کی طرف ہاتھ بڑھ جاتے ہیں۔

دنیا کے دیگر گنجان آباد شہروں کی طرح یہاں بھی ٹریفک جام کا مسئلہ انتہائی گمبھیر ہے۔زیادہ ترافراد شہر کے مضافاتی علاقوں میں رہائش پذیرہیں۔ صبح و شام دفتری اوقات کے شروع اور ختم ہونے کے باعث سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیںمگریہ گاڑیاں بہت ہی ڈسپلن کے ساتھ رینگ رینگ کر اپنی منزل کی طرف رواں رہتی ہیں۔ ہارنز کا شور ہوتا ہے نہ ہی زہریلا دھواں خارج ہو رہا ہوتا ہے۔

لوگوں کا زیادہ تر وقت ٹریفک کے مسائل کی نذر ہو جاتا ہے اس لیے لوگ اپنے کاموں یا میٹنگز کا شیڈول بناتے وقت ٹریفک جام کا مارجن بھی ذہن میں رکھتے ہیں، بہت سے لوگ اس دوران موبائل فون یا لیپ ٹاپ کے ذریعے اپنے اہم کام نمٹاتے رہتے ہیں۔

سڑکوں کے کنارے جابجا عمرہ اور حج کروانے والوں کے بڑے بڑے بورڈز بہت زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں۔ہر سال حج ادا کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد انڈونیشیا کے حاجیوں کی ہوتی ہے۔

مسلمانوں کی اتنی بڑی اکثریت ہونے کے باوجودوہاں کسی قسم کی فرقہ واریت، مذہبی کشمکش نظرنہیںآتی۔ ہرمذہب کے لوگ اپنے تمام شعائر آزادی سے ادا کرتے ہیں۔حکومت کا عمل دخل بھی مذہبی معاملات میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
۔۔سنڈے میگزین کی اشاعت13 مارچ سے ماخوذ۔
تازہ ترین