• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابصار فاطمہ جعفری

ماہرینِ امراضِ ذہن یا ماہرینِ طبِ نفسیات نے ذہنی و نفسیاتی عوارض کو کئی گروپس میں تقسیم کیا ہے۔ جن میں سومیٹو فارم ڈس آرڈر (Somatoform Disorder) اور سائیکوسومیٹک ڈس آرڈر (Psychosomatic Disorder) بھی شامل ہیں۔ دراصل ان میں مبتلا مریض اپنے ذہنی دبائو کا اظہار، کسی جسمانی بیماری کی علامت کی صورت کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان عوارض کی علامات تو جسمانی طور پر ظاہر ہوتی ہیں، لیکن یہ درحقیقت ہوتے ذہنی امراض ہیں۔ ’’ہسٹریا‘‘ کا شمار سائیکومیٹک ڈس آرڈر میں کیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق قدیم یونان میں خواتین کے پوشیدہ امراض کے لیے ہسٹریا کی اصطلاح استعمال کی گئی، کیوں کہ یونانی زبان میں ’’ہسٹرا‘‘ کے معنی رحم کے ہیں۔ ماہرِنفسیات، سگیمنڈ فرائڈ کے نظریئے کے مطابق ’’خواتین میں ہسٹریا کی بنیادی وجہ جنسی فرسٹریشن ہے۔‘‘ لیکن بعض ماہرینِ نفسیات نے اس نظریئے کو رَد کرتے ہوئے اپنے اپنے نظریات پیش کیے۔ تاہم، ہسٹریا لاحق ہونے کی کوئی حتمی وجہ سامنے نہ آ سکی۔ بہرحال، اب متعدد تحقیقات، مشاہدات کے بعد جدید میڈیکل سائنس نے ان سب کی نفی کرتے ہوئے اس عارضے کو کنورژن ڈِس آرڈر (Conversion Disorder)قرار دے دیا ہے، جس کا تعلق ذہنی دبائو اور گھٹن سے ہے، نہ کہ رحم سے۔ اور اس عارضے کے لاحق ہونے میں جنس کی بھی کوئی قید نہیں۔ یہ صرف خواتین ہی کو نہیں، بلکہ مَردوں اور نوجوان بچّوں، بچّیوں کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ مرض کے شکار افراد لاشعوری طور پر ایسی حرکات کرتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

جب ہم کسی مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں، تو عمومی طور پر اس کا حل تلاش کرتے ہیں یا پھر جھنجھلا کر دوسروں پر غصّہ نکالتے ہیں، لڑتے جھگڑتے ہیں، مگر کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں، جب ذہن درپیش حالات قبول کرتا ہے، نہ ہی صورتِ حال سے نمٹنے کا کوئی حل سامنے آتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کا کوئی بہت قریبی عزیز خوف ناک حادثے میں انتقال کرجائے۔ ایک فوجی محاذِ جنگ پر لڑ رہا ہے یا پھر ایک بہو، جس کے سُسرال والے ظالم بھی ہیں اور میکے میں بھی کوئی جذباتی سہارا دینے والا نہیں۔ اب انتقال کی صورت میں نہ آپ مَرنے والے کو واپس لا سکتے ہیں، نہ ہی کسی سے لڑجھگڑ سکتے ہیں کہ میرا عزیز کیوں مَرا۔ اسی طرح محاذِ جنگ پر ہر فوجی جانتا ہے کہ اُسے لڑنا ہے، مگر جنگ ختم کرنا اُس کے اختیار میں نہیں۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے، اس کے ساتھی مَر رہے ہوتے ہیں اور وہ خود بھی اپنے ہاتھوں سے ایسے لوگوں کی جان لے رہا ہوتا ہے، جن سے اس کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہوتی۔ یوں اس کی حُبِّ الوطنی، احساسِ ذمّے داری اور انسانیت کے مابین ایک ایسی جنگ شروع ہو جاتی ہے، جو اسے انتہائی شدید ذہنی دبائو کا شکار کر دیتی ہے۔ اسی لیے جنگی محاذ سے لَوٹنے والے فوجیوں کو جس ذہنی دبائو کا سامنا ہوتا ہے، وہ کوئی بھی دوسرا حادثہ سہنے والوں کی نسبت زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ تیسری مثال بہو کی ہے، جو ہر لحاظ سے سُسرال میں کم زور حیثیت کی حامل ہے۔ وہ نہ تو اس ماحول سے چھٹکارا پا سکتی ہے، نہ ہی کسی سے لڑ جھگڑ کر، چیخ چلّا کر اپنا غصّہ نکال سکتی ہے۔ اور یہی مختلف حالتیں کنورژن ڈِس آرڈر کی بنیادی وجوہ ہیں۔ یعنی ایک ایسا فرد، جو خود کو مسائل میں اُلجھا محسوس کرتا ہو، مگر شعوری طور پر حل نکالنے سے قاصر ہو، تو اُس کا ذہن لاشعوری طور پر ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گا، جس کی مدد سے وہ اس صورتِ حال سے باہرنکل سکے۔مثلاًکوئی فردکسی پیارے کو اپنے سامنے مَرتا دیکھنے کے بعد بولنے، دیکھنے یا چلنے سے معذور ہوجاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں نہ صرف گھر کا ماحول یک لخت بدل جائے گا،بلکہ سب کی توجّہ اس نئے مسئلے کی طرف مبذول ہوجاتی ہے۔ اور زیادہ تر کیسز میں ایسا تب ہی ہوتا ہے، جب وہ فرد کسی نہ کسی حوالے سے خود کو اس حادثے کا ذمّے دار سمجھتا ہو اور لاشعوری طور پہ خود کو سزا دے رہا ہو۔ اگر ہم محاذِ جنگ کی مثال کی بات کریں، تو جنگِ عظیم اوّل اور دوم میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے، جن میں فوجیوں کی نظر کم زور ہونے، ہاتھ پیر مفلوج ہوجانے یا پھرکسی مخصوص وقت میں اندھے پَن کا شکار ہونے کے شواہد ملتے ہیں،حالاں کہ وہ کسی جسمانی مرض میں مبتلا نہیں تھے۔ اور یہی کنورژن ڈِس آرڈر کے بارے میں پیش رفت کا اہم موقع تھا، جہاں عمومی نظریئے کے برعکس سارے مَرد ذہنی دباؤ کی وجہ سے جسمانی مسائل کا شکار ہورہے تھے۔ ان کا شعور انہیں محاذِ جنگ پہ رہنے پہ مجبور کرتا تھا اور لاشعور اس تکلیف دہ ماحول سے نکالنا چاہتا تھا۔ اصل میں لاشعور کے لیے جسمانی طور پر مفلوج ہونا ہی اس مسئلے کا ایک باعزّت حل تھا۔ آج بھی شدید جنگی علاقوں میں موجود فوجی ان مسائل کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اب آتے ہیں تیسری مثال کی جانب یعنی گھریلو مسائل کے شکار افراد خصوصاً، خواتین جنہیں اپنی زندگی کے فیصلوں پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، نہ ہی انھیں کبھی کوئی موقع دیا جاتاہے کہ وہ اپنے مسائل کا موزوں حل نکال سکیں۔ اب ان کے پاس اپنے مسائل سے توجّہ ہٹانے کا واحد طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں سوچیں ہی نہیں، لہٰذا وہ اس کا حل بچّوں کو ڈانٹ کر، گھر کی دیگر خواتین سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ جھگڑ کر نکالتی ہیں۔ علاوہ ازیں، ساس بہو کے بھارتی ڈرامے دیکھنا اور ان کرداروں کو اپنی زندگی سے ریلیٹ کرنا، اپنی آرایش میں وقت صرف کرنا یا پھر شاپنگ میں پیسا ضایع کرنا بھی ذہنی دباؤ سے نکلنے کے خاصی حد تک شعوری حل ہیں۔ اِسی طرح مسلسل سَر یا گُردےمیں درد رہنا، کسی خطرناک بیماری یعنی سرطان یا دِل کی بیماری کی علامات کا ظاہر ہونا بھی لاشعوری حل ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

کنورژن ڈِس آرڈر کی علامات ہر مریض میں مختلف ہوتی ہیں۔ بعض مریضوں کو جھٹکے لگتے ہیں، تو کوئی کھڑے کھڑے گر جاتا ہے اور بظاہر بے ہوش دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں آسیب زدگی کی علامات سب سے عام تصوّر کی جاتی ہیں، جیسے نامانوس آواز میں باتیں کرنا، بار بار بے ہوش ہوجانا اورغیبی مخلوق کا نظر آنا وغیرہ وغیرہ۔ دیگر علامات میں جسم کے کسی حصّے کا مسلسل ہلنا، گہری سانس لینا، بینائی کا چلے جانا اور جسم کے کسی عضو کا مفلوج ہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔ کنورژن ڈِس آرڈر کا دورہ مِرگی کے دورے سے مشابہت رکھتا ہے(یعنی اچانک ہاتھ پائوں مُڑ جانا، منہ سے جھاگ آنا اور گر جانا وغیرہ)،اسی لیے زیادہ تر افراد ان دونوں عوارض کو ایک ہی مرض سمجھتے ہیں،جب کہ ایسا نہیں ہے۔واضح رہے کہ جب مِرگی کا دورہ پڑتا ہے، تو مریض کو اچانک گر جانے کی وجہ سے شدید چوٹیں آسکتی ہیں، بعض مریضوں کا پیشاب خارج ہوجاتا ہے اور زبان دانتوں تلے آ کر کٹ بھی سکتی ہے۔ اس کے برعکس کنورژن ڈِس آرڈر میں مریض کا لاشعور ہوشیار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مریض جب گرتے ہیں، تو شدید چوٹیں لگنے کے امکانات کم سے کم ہوتے ہیں۔ کنورژن کا دورہ عموماً لوگوں کی موجودگی میں اور مریض کے جاگنے کے دوران پڑتا ہے، جب کہ گہری نیند، نشہ آور ادویہ یا ہائپنوسز(Hypnosis)کے زیرِاثر اس کی علامات ختم ہو جاتی ہیں۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی تک مغربی مُمالک میں کنورژن ڈِس آرڈر کے ایسے کیسز کی شرح، جو آسیب زدگی کی علامات کے حامل تھے،تقریباً اتنی ہی تھی، جس قدر اب مشرقی مُمالک خصوصاً بھارت اور پاکستان میں ہے، مگر جیسے جیسے وہاں مافوق الفطرت چیزوں کے بارے میں شعور بڑھتا گیا، یہ علامات ختم ہوتی گئیں۔ تاہم، مشرقی مُمالک میں اب بھی آسیب زدگی کی علامات کے حامل کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں تو ان کی تعداد خاصی پریشان کُن ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں کنورژن ڈِس آرڈر کی علامات کو آسیب، جن، بھوت کا سایا سمجھ کر اتائیوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور جب اتائی ان مریضوں پر توجّہ دیتے ہیں اور انھیں مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرواتے ہیں، تو جسمانی علامات ختم ہونے لگتی ہیں، نتیجتاً اہلِ خانہ یہ گمان کرتے ہیں کہ سایا اُتر گیا ہے۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد دوبارہ کسی ذہنی دبائو کے سبب وہ تمام علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔

کنورژن ڈِس آرڈر کے علاج معالجے کے حوالے سے کچھ اہم باتیں ذہن نشین کرلیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مریض جو حرکات کر تا ہے، اُن سے وہ خود بھی واقف نہیں ہوتا ہے، لہٰذا کبھی بھی یہ نہ سمجھیں کہ مریض آپ کو یا لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے۔ یہ سب اس کے لاشعور کی کارستانی ہے، جس سے اس کا شعور بالکل واقف نہیں ہوتا۔ دوسری بات، کنورژن ڈِس آرڈر کی تشخیص کے لیے ماہرین سے رجوع کریں، تاکہ درست تشخیص ہوسکے۔ کنورژن ڈِس آرڈرکی حتمی تشخیص صرف دماغ کے ایم آئی آر ہی کے ذریعے ممکن ہے، لہٰذا کبھی بھی جسمانی معائنے کے بغیر صرف کنورژن ڈِس آرڈر ہی نہیں، بلکہ کسی بھی ذہنی بیماری کا علاج شروع نہ کیا جائے۔ علاج کے لیے سب سے بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ اُن مسائل پہ توجّہ دی جائے، جن کی وجہ سے مریض ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔اس ضمن میں اہلِ خانہ پر یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مریض کا مسئلہ سمجھ کر، اُس کا ساتھ دیں اور اسے زور زبردستی سے صحیح روّیہ اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں، کیوں کہ یہ اس کے لیے ایسے ہی ناممکن ہے، جیسے ایک بغیر ہاتھ والے فرد کا ہاتھ سے کوئی کام کرنا۔ اپنے پیاروں کونہ تو اپنے لفظوں اور روّیوں سے تکلیف دیں ، نہ ہی اُن کے لیے زندگی اس قدر مشکل بنائیں کہ انھیں بیماری میں جائے پناہ تلاش کرنی پڑے۔

(مضمون نگار،سائیکولوجسٹ ہیں اور بچّوں پر جنسی تشدّد کے خلاف کام کرنے والے ایک فلاحی ادارے سے بطور سینئر پروگرام آفیسر کائونسلنگ منسلک ہیں)

تازہ ترین