• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختلف معاشروں میں انسانوں کے،جانوروں سے رویےّ خاصے مختلف ہیں، جن کا انحصار نہ صرف سماجی و معاشی حالات پر ہے بلکہ مذہبی ترجیحات نےبھی اس میں اَہم کردار اداکیا ہے۔ اورجانوروں سے انسانوں کے ان ہی مختلف رویّوں کا اظہار فنون ِ لطیفہ میںبھی نظر آتا ہے ، خصوصاً ادب و ثقافت میں۔بہ قول مشتاق احمد یوسفی ،’’ ہم کسی ایسے جانور سے اچھا سلوک نہیں کرتے، جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں ۔‘‘ رچرڈ فولٹز کی کتاب ’’اینیملز اِن اسلامک ٹریڈیشن اینڈ مسلم کلچرز،مطبوعہ 2006ء ‘‘میں عبّاسی دَور کی ایک کہانی بیان کی گئی ہے، جس میں خلیفہ نے امام شافعیؒ سے دریافت کیا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے مکھیوں جیسے باعث ِ آزارحشرات کیوں پیدا کیے؟ ‘‘تو امام شافعیؒ نے جواب دیا ’’میرے خیال میں اس کا مقصد یہ ہے کہ صاحبِ مال و اقتدارکو بھی اُس کی بے بسی کا احساس دلایا جائے ۔ ‘‘اس طرح ہومر کی ’’اوڈیسی ‘‘ جس کا شان دار اُردو ترجمہ سلیم الرّحمان نے ’’جہاں گرد کی واپسی‘‘ کے نام سے کیا تھا اور پہلی مرتبہ 1964ء میں شایع ہوئی ۔ ’’اوڈیسی‘‘ کے سترہویں باب میں جب ’’اوڈی سیئس ‘‘یعنی ناول کا مرکزی کردار طویل عرصے بعد گھر آتا ہے ،تو اس کا بیٹا اُسے فقیر سمجھتا ہے ، جب کہ بیوی شناخت کا ثبوت طلب کرتی ہے ،مگر اس کابوڑھا کتّا،جو قریب المرگ ہے، اُسے فوراً پہچان لیتا ہے ۔وہ زمین پر لیٹے لیٹے دُم ہلاتا اور اٹھنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن نقّاہت کے باعث گِر پڑتا ہے ، تواوڈی سیئس منہ پھیر کر رونے لگتا ہے۔ادب کے اس شہ پارے میں ایک وفادار جانور کے جذبات کی بہت خُوب صُورت عکّاسی کی گئی ہے۔

عربی زبان میں تو خود انسان کو ’’الحیوان الناطق ‘‘ (بولنے والا جانور)کہا گیا ہے۔ قرآن مجید کی 114سورتوں میں سے پانچ(سورۃ البقرۃ ، سورۃ النحل ، سورۃ النمل ، سورۃ العنکبوت اور سورۃ الفیل )جانوروں کے نام پر ہیں ، جب کہ قرآن میں جن جانوروںاور حشرات وغیرہ کا ذکر آیاہے، اُن میں اونٹ ، گھوڑا ، خچر، گدھا، بھیڑ ، بندر ، کتّا،خنزیر ، سانپ ،مچھّر اوربعض کیڑے مکوڑے وغیرہ شامل ہیں ۔پھر غالباً ابن ِسینا نے سب سے پہلے ’’الطّیر‘‘ یعنی ’’پرندے‘‘کے نام سے ایک صوفیانہ کِتابچہ لکھا ۔ جس میں پرندوں کو علامتی طور پر استعمال کرتے ہوئے روحوں کے عالم الارواح میں سفر کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک کتاب فرید الدّین عطار کی ’’منطق الطّیر‘‘ ہے، جو 1177ء میں لکھی گئی ۔ منطقِ الطّیر میں دنیا بھر کے پرندے فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں ایک بادشاہ کی ضرورت ہے ، لیکن ہُدہُد اصرار کرتا ہے کہ موجودہ بادشاہ’’سیمرخ‘‘ہی کو ڈھونڈا جائے،جس کے لیے لمبے سفر اور اُڑان کی ضرورت ہے ۔ زیادہ تر پرندے تو مختلف بہانے کرکے سفر سے انکار کردیتے ہیں، لیکن جو پرندے ساتھ شامل بھی ہوتے ہیں، وہ بھی ایک ایک کرکے گرنے لگتے ہیں ۔ بالآخر 30پرندے منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں، تو اُنہیںپتا چلتا ہے کہ سیمرخ یعنی ’’سی مرغ ‘‘(تیس پرندے) وہ خود ہیں اور دراصل انہیں اپنی ہی تلاش تھی ۔ اِس کہانی میںہُد ہُد، فرید الدّین عطار خود ہیں ،جو دیگر پرندوں کی رہ نمائی کرتے اور سفر کے دوران اُنہیں عقل و شعور کی باتیں سکھاتے جاتے ہیں ۔ اسی طرح ایک اور دل چسپ تحریر دسویں صدی عیسویں میں بصرہ میں’’ رسائل اخوان الصفا ‘‘میں لکھی گئی ۔ اُس دَور میں مسلم فلسفیوں کا ایک گروہ تھا ،جو قاموسی انداز میں انسائیکلو پیڈیا لکھ رہا تھا، جس میں طبعی اور مابعد الطبیعائی موضوعات پر مضامین تھے ۔ اس طرح تقریباًپچاس مقالے لکھے گئے، جن میں سے ایک کا عنوان ’’جنّات کے بادشاہ کے دربار میں انسا ن کے خلاف حیوانوں کا مقدمہ ‘‘تھا۔ اس میں حیوانوں کی طرف سےانسانی رویّے پر تنقید کی گئی ہے ۔ اخوان الصفا کی تحریر ’’حیوانوں کا مقدمہ‘‘ ایک حیرت انگیز شاہ کار ہے، جو ہزار سال پہلے لکھا گیا تھا،مگر آج بھی د ِل چسپ معلوم ہوتا ہے ۔اس مقدمے میں حیوانوں کے نمائندے نسلِ انسانی کے خلاف مقدمہ کرتے اور اُن پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے بہترحالات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ پھر انسان، حیوانوں کی کردار کُشی شروع کردیتے ہیں ،جس کے جواب میں جانور بھی اپنی خاصّیتوں کا ذِکر کرتے ہیں ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ حیوانوں کے دلائل ٹھوس حقائق پر مبنی ہوتے ہیں ،جب کہ انسانوں کے محض دعوے۔اس کے علاوہ بصیرہ امبرین نے شہاب الدّین سُہروردی کی ’’لغاتِ موراں ‘‘کا اُردو ترجمہ ’’چیونٹیوں کی زبان ‘‘ کے عنوان سے کیاہے۔چیونٹیوں ہی کے حوالے سے حفیظ جالندھری نے بھی ایک کِتابچہ ’’چیونٹی نامہ‘‘ لکھا ، جو سُہروردی کی کتاب سے خاصا مختلف ہے۔

بّر ِصغیر کے ادب کا ذکر کیا جائے تو سب سے پہلے ’’پنچ تنتر‘‘ ذہن میں آتی ہے، جو پہلے تو سنسکرت ،پھر فارسی میں میں لکھی گئی۔ جس کا ابن المقفا نے ’’کلیلہ دمنہ‘‘ کے نام سے عربی میں ترجمہ کیا ۔ ’’کلیلہ دمنہ ‘‘دو گیدڑوں کے نام ہیں ۔ اس کا اُردو ترجمہ انتظار حُسین نے کیا ،جو 1980ء میں نئی صدی ہجری کے آغاز پر شایع ہوا ۔ یہ سبق آموز حکایتوں کا مجموعہ ہے، جس میں ایک کہانی سے دوسری کہانی نکلتی چلی جاتی ہے۔ اس کا ایک اور ترجمہ معین الدّین دردائی نے بھی کیا،جس کا نام ’’انوارِ سہیلی‘‘ رکھا گیا ۔ پنچ تنتر سے نکلنے والی دو اور تحریریں، جن میں انسان و جانور کے تعلق پر مبنی کہانیاں ہیں ۔ ’’شُکاس پتاتی‘‘ (Sukaspatati) یعنی ’’توتے کی ستّر کہانیاں‘‘ اور ’’ہتوپدیشہ‘‘ (Hitopadesha)یا ’’کار آمد نصیحت ‘‘ ہیں۔ جس کو ضیا الدّین نقشبندی نے فارسی میں تحریر کیا تھا ۔اس میں ایک توتا اور مینا اپنے مالک کی بیوی کوغلط کاموں سے روکتے ہیں ۔ توتا ہر رات ایک کہانی سناتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ’’الف لیلہ و لیلہ‘‘ (ہزار و یک شب) میں ہوتا ہے ۔ یہ کہانیاں اُس وقت تک سنائی جاتی ہیں، جب تک توتے اور مینا کا مالک واپس نہیں آجاتا ۔ پنچ تنتر سے نکلنے والی ایک اور تحریر، سری نرائن پنڈت کی ہے، جو 1675ء عیسوی میں لکھی گئی ۔ اس کتاب سےہمیں انسانی اور حیوانی فطرت سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ اس کا حتمی سبق یہ ہے کہ تمام مخلوقات کو امن و آشتی سے رہنا چاہیے۔ پھر دھن گوپال مُکر جی کی ایک انگریزی کتاب ’’Gay Neck: The story of a pigeon‘‘کااُردو ترجمہ ’’رنگیلا پرندہ‘‘ ہے ، جس کے سرورق پر ایک خُوب صُورت کبوتر بنا ہوا ہے ۔اس کااُردو ترجمہ شباب للت نے کیا۔ دھن گوپال مُکر جی کا شماربرّ ِ صغیر کےاوّلین انگریزی ادب لکھنے والوں میں ہوتا ہے ۔ وہ غالباً پہلے ادیب تھے ،جنہوں نے اس خطّےمیں حیوانوں کے بارے میں انگریزی کہانیاں لکھیں ۔ (یاد رہے ’’رڈ یارڈ کِپلنگ‘‘کی کتاب ’’جنگل بک‘‘ 1895ء میں شایع ہوئی تھی ، مگر کِپلنگ کا شمار مقامی مصنفین میں نہیں ہوتا۔) ’’رنگیلا پرندہ‘‘ان کےذاتی تجربات پر مشتمل ہے ،جوہمالیہ کے پہاڑی علاقے میں کبوتروں کے ساتھ پیش آئے۔ اس کتاب میں نہ صرف کبوتروں بلکہ اُس دَور کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں، جب پہلی جنگ ِعظیم کے دَوران کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔

اگر آپ مچھلیوں اور اُن کی جرأت سے متعلق کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں،توامریکی مصنف ہرمین میل وِل کی موبی ڈِک اور ارنسٹ ہمنگ وے کی ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ ضرور پڑھیں ۔ اگر گھوڑوں سے دل چسپی رکھتے ہیں، تو روسی مصنّف انتون چیخوف کی ’’کوچوان‘‘ بہت پسند آئے گی۔اس میں روس کی شدید سردی میں ایک افسردہ کوچوان، جس کا بیٹا ایک دن قبل ہی فوت ہوا ہے، مسافروں کا انتظار کررہا ہے ۔ اس کی گھوڑی سردی میں ٹھٹھر رہی ہے ،مگر مسافروں کے آنے پر چُست ہوکر دَوڑنے لگتی ہے ۔کوچوان اپنا غم کسی سےکہہ نہیں پاتا۔ آتے جاتے مسافرکوچوان کا مذاق اُڑاتے ہیں، اور وہ جب بھی کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے قہقہوں یا ہنسی مذاق میںاُڑادیا جاتا ہے ۔ بالآخر رات گئے ،جب وہ اور اُس کی گھوڑی تھک ہار کر واپس آتے ہیں، تو کوچوان اپنی گھوڑی کو چارہ ڈالتا ہے ۔ گھوڑی اس کے قریب آکر اس کو سونگھتی ہے اور اس کے ہاتھ چاٹنے لگتی ہے ۔تب کوچوان اُسے اپنی بیٹی کہتا ہے اور اس کے گلے لگ کر روتے ہوئے اپنا ساراغم بیان کردیتا ہے۔ یہ کہانی پڑھتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ عالمی ادب میں گھوڑوں پر مزید کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں، جیسے اینا سویل کی’’ بلیک بیوٹی‘‘،جان اسٹائن بیک کی’’ دی ریڈ پونی‘‘اور والٹر فارلی کی’’دی بلیک اسٹالین ‘‘۔ یہاں ایک اور شان دار ادبی شہ پارےدوستو یفسکی کے ناول’’کرائم اینڈ پنشمنٹ ‘‘یا( جرم و سزا)کا ذکر بے محل نہ ہوگا ،جس کا ہیرو، راسکول نیکوف ایک خواب دیکھتا ہےکہ ایک گھوڑے کو بے دردی سے مارا جارہا ہے ، یہاں تک کہ اُسے مار مار کر قتل کردیا جاتا ہے ۔ یہ جانوروں پر ظلم کا اتنا درد ناک منظر ہے، جس کی مثال عالمی ادب میں کم ہی ملتی ہے۔ انسان و حیوان کے تعلق پر لکھے جانے والے دیگر ناولز، کتابوں اور کہانیوں میں جیک لنڈن کی ’’کال آف دی وائلڈ ‘‘، ’’وائٹ فینگ‘‘ ، فرانز کافکا کی ’’میٹا مورفوسیس ( کایا کلپ)اور ’’ ایک کتّے سے تفتیش ‘‘، ڈیفنے ڈو موریئر کی کتاب ’’پرندے‘‘ جس پر الفریڈ ہچکاک نے فلم بھی بنائی اورموراکامی کی کہانی،جسےسعید نقوی نے ’’ہاتھی کی گُم شدگی‘‘کے عنوان سے ترجمہ کیا ،وغیرہ شامل ہیں۔

مُنشی پریم چند اور سجّاد حیدر یلدرم ،اُردو ادب کے اوّلین لکھاریوں میں سے ہیں۔ منشی پریم چند بنیادی طور پر ایک حقیقت نگار ،جب کہ یلدرم کی تحریروں میں رومانیت کا رنگ زیادہ جھلکتا ہے ۔ جانوروں یا یوں کہنا چاہیے کہ پرندوں کے بارے میں یلدرم کی کہانی ’’چڑیا، چڑے کی کہانی‘‘ میں مصنّف ایک چڑیا کے ذریعے انسانوں سے متعلق خیالات بیان کرتا ہے ۔ پرندہ کہتا ہے کہ مرد محبت میں دھوکا دیتے ہیں اور کئی عورتوں کو دام میں پھنساتے ہیں، جب کہ چڑے دیانت دار اور مخلص ہوتے ہیں۔چڑیا بیان کرتی ہے کہ کس طرح خواتین زیادہ خُوب صُورت نظر آنے کے لیے بناؤ سنگھار کرتی ہیں ۔ یہ تحریربہ مشکل چھے کتابی صفحات کی ہے، مگر بڑے دل چسپ انداز میں بتاتی ہے کہ چڑیاں انسانوں کو کیسے دیکھتی ہیں ۔ منشی پریم چند بھی اپنی ایک کہانی میں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بچّے تھے تو کس طرح انہوںنے چڑیا کے گھونسلے میں انڈوں کویہ جانے بغیر چھولیا تھاکہ چڑیا چُھوجانے والے انڈوں کو پھر نہیں سیتی اور انہیں گھونسلے سے باہر پھینک دیتی ہے ۔ چڑیوں کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تحریر ’’چڑیا، چڑے کی کہانی‘‘ کے عنوان سے ہے ،جو اُن کے جیل کے مشاہدات پر مبنی ہے ۔انہوں نے یہ کہانی 1943ء میں احمد نگر جیل میں لکھی تھی۔ جیل میں وہ جس طرح چڑیوں سےپریشان ہوئے ،اُنہیں کمرے سے دور رکھنے کے جتن کیےاور اپنی مسلسل کوششوں میںناکامی کے بعد بالآخراُن سے دوستی پر مجبور ہوئے، یہاں تک کہ اُنہیں ان ننّھے پرندوں سے محبت ہوجاتی ہے۔ ساری کہانی ان ہی واقعات کے گرد گھومتی اورعدم تشدّد کے نظریے کا پرچار کرتی ہے۔اسی قسم کی خواجہ احمد عباس کی کہانی ’’ابابیل‘‘ کا شمار بھی بہترین کہانیوں میں ہوتا ہے ، جس میں چند چڑیاں ایک شخص رحیم خان کے گھر گھونسلا بنا لیتی ہیں، جو انسان و حیوان دونوں سے بے زار ہے ۔ وہ اپنے بچّوں کو پیٹتا ،جانوروں کو مارتا اور ہم سایوں سے لڑتاجھگڑتا رہتا ہے ۔ تشدّد اس کی سرشت میں شامل ہے ۔ پڑوسی، محلّے دار اُس سے بات نہیں کرتے،رفتہ رفتہ گھر والے بھی چھوڑ دیتے ہیں ،تو وہ گھر میں چڑیوں کے ساتھ اکیلا رہ جاتا ہے ۔ اس اکیلے پن ، تنہائی میں بس چڑیاں ہی اس کی ہم نفس بن جاتی ہیں ، تو رحیم خان اُن میں دل چسپی لینے لگتا ہےاور پھر اس کی طبیعت کی درشتی ،آہستہ آہستہ نرمی میں بدلنے لگتی ہے ۔جب وہ بیمار ہوتا ہے، تو چڑیاں ہی اُس کے اِردگِرد ہوتی ہیںاور پھروہ تنہا موت کو گلے لگالیتا ہے۔ پرندوں کے بارے میں ایک اور کہانی، ایس ایم شاہد کے کِتابچے ’’اپنا پنجرہ‘‘ میں بھی شامل ہے ۔ یہ کہانی ایک باپ ،بیٹی کی دل چسپ گفتگو پر مبنی ہے جس میں بیٹی چڑیا بننا چاہتی ہے ،تاکہ اُڑ کر اِدھر اُدھر جاسکے ، درختوں پر پھدکتی پھِرے ۔یہاں عرفان احمد عرفی کی کہانی ’’چڑیا‘‘ کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا، جس میں ایک غریب لڑکی کا باپ چڑیاںپکڑ کر سگنل پر فروخت کرتا ہے، تاکہ لوگ اُنہیںخرید کر آزاد کرسکیں۔لڑکی پورا دن باپ کا انتظار کرتی ہے کہ کب وہ بچ جانے والی چڑیاں گھر لائے گا اور وہ ان کے ساتھ کھیلے گی ۔ رفتہ رفتہ لڑکی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ خُود بھی پنجرے میں بند ایک چڑیا ہے،جو اُڑ نہیں سکتی ۔ یہ کہانی اُن کے افسانوی مجموعے ’’کنٹرول روم‘‘ میں شامل ہے، جو 2017ء میں شایع ہوا ہے ۔

خدیجہ مستور کی کہانی ’’چیلیں‘‘ بھی ایک لاجواب تحریر ہے۔ یہ ایک پس ماندہ گاؤں کی کہانی ہے، جہاں موجود بے شمار چِیلیں گاؤں والوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہیں ۔ وہ حملہ کرکے کھانے پینےکی چیزیں اُڑا لیتی ہیں ،جس سے غریب بہت پریشان ہوتےہیں، پھر کہانی میں بتدریج دیگر’’علامتی چِیلوں‘‘جیسےسود خور، قرض خواہ ، فرقہ واریت پھیلانے والے رہ نما، زمیںدار اور جاگیرداروغیرہ کا بھی ذکر آتا ہے، جو گاؤں والوں کا خون چوستےہیں۔

غربت و مفلسی کے پس منظر میں لکھی جانے والی یہ کہانی ایک دل دہلا دینے والی داستان ہے ۔ مظہر الاسلام کی کہانی ’’کندھے پر کبوتر‘‘ ایک علامتی افسانہ ہے، جس میں جنرل ضیاء الحق کے دَور کا پاکستان دکھایا گیا ہے ۔ اس کہانی میں ایک اسکول جانے والا بچّہ، جس کے کاندھے پر کبوتر ہوتاہے ،اپنے گھر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے ، مگرگھر کا چوکیدار دروازہ نہیں کھولتا۔پرندوں پر ایک اور کہانی رضیہ فصیح احمد کی ’’نیل کنٹھ‘‘ ہے ۔ اس میں دو نیل کنٹھ دکھائے گئے ہیں ،جو ایک ہی درخت کی مختلف شاخوں پر بیٹھے ہیں ۔دونوں پرندے خاموش اور افسردہ نظر آتے ہیں ، اُن کی آنکھیں جُھکی ہوتی ہیں ۔ کہانی نویس کو حیرت ہے کہ یہ پرندے اتنے غم گین کیوں ہیں ۔ مصنّفہ اپنے شوہر کے انتظار میں ہیں اور پرندوں کو دیکھ کر سوچتی ہیں کہ ہوسکتا ہےپرندوں کا یہ جوڑا ایک دوسرے سے اُکتا چکا ہو ، ممکن ہے نر پرندے نے کسی اور مادہ پرندے کو دیکھا ہو، جس پر مادہ نے سوچا ہو کہ نر اُسے دھوکا دے رہا ہے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی ہوتی ہیں کہ ایک پرندہ اُڑ جاتا ہے ، جب کہ کچھ دیر بعد پیچھے رہ جانے والا پرندہ غنودگی کے عالم میں درخت سے گر کر مرجاتا ہے ۔ افسانہ نگار کا شوہر گھر آتا ہے، تو وہ اسے بتاتی ہیں کہ کس طرح نر پرندے نے اپنی مادہ کو دھوکا دے کر چھوڑ دیا اور وہ اس غم میں چل بسی۔ خاوند کو پرندوں کے بارے میں خاصی معلومات ہوتی ہیں۔ وہ مُردہ پرندہ اُٹھالاتا ہے اور تب پتا چلتا ہے کہ مر جانے والا پرندہ دَراصل نر تھا۔ نیّر مسعود کی تحریر کردہ ’’طاؤس چمن کی مینا‘‘ کے بغیر اُردو ادب میں پرندوں کے ذکر کاباب مکمل نہیں ہو سکتا۔اس میںسن 1850ء کے قریب کالکھنؤ دِکھایا گیا ہے ۔ ایک غریب آدمی ’’کالے خان‘‘ مینا کی تلاش میں ہے، کیوں کہ اُس کی بیٹی اس سے کھیلنا چاہتی ہے۔ کالے خان کی اہلیہ کچھ عرصہ پہلے وفات پاچکی ہے اور اب وہی بچی کا ماں اور باپ دونوں ہے ۔ کالے خان اپنی بچی سے بہت محبت کرتا ہے ،اسے افسردہ نہیں دیکھ سکتا۔ جب کالے خان کو شاہی باغ میں،جس کا نام ’’طاؤس چمن ‘‘ ہے ملازمت مل جاتی ہے، تووہاں اُس کا کام پرندوں کی دیکھ بھال ہوتا ہے ۔ موقع ملنے پر وہ وہاں سے ایک مَیناچُرا لاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ بادشاہ سلامت کو طاؤس چمن کے چالیس پرندوں کے نام تک یاد ہیں۔ مَینا ملنے پر بچی خوشی سے پھولے نہیں سماتی اور ہر وقت اس سے کھیلتی رہتی ہے ۔کالے خان کو پتا چلتا ہے کہ چند ہفتوں بعد بادشاہ ِاودھ اپنے چمن کا دَورہ کرنے آنے والاہے ،تووہ گھبرا جاتا ہے اور کسی طرح مَینا کو واپس لےجاتا ہے ۔ جب بادشاہ اپنے برطانوی افسروں کے ساتھ باغ میں آتا ہے، تو مَینا وہ الفاظ دُہرانے لگتی ہے ،جو اس نے کالے خان کی بیٹی سے سیکھے تھے ۔ اس پر بادشاہ غصّے میں آجاتا ہےاور کالے خان ڈر کے مارے بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد بھی کہانی میں بہت کچھ ہے۔یہ کہانی ہندوستان کے اُس دَور کی یاد تازہ کرتی ہے،جب اشرافیہ شطرنج کھیلنے، کبوتر بازی میں مگن تھی اورانگریز قابض ہورہا تھا ۔ اسی طرح مظہر الاسلام کی کہانیاں ’’پنجرہ‘‘ اور ’’ایک شام نے چڑیا کو چُگ لیا ‘‘ بھی قابلِ ذکر ہیں ۔نیز ، محمود احمد قاضی کی کہانی ’’کبوتر گلی ‘‘،’’آدمی پرندہ ہے ‘‘ اورعشرت نقوی کی ’’گہری پیاس اور کوّے‘‘ بھی قابل ِ ذکر ہیں۔

پرندوں ہی سے متعلق انتظار حسین کی دو اور کہانیاں ’’اجنبی پرندے‘‘ اور ’’مورنامہ ‘‘ ہیں ۔ ’’اجنبی پرندے ‘‘ ایک ایسےآدمی کی کہانی ہے ،جو اُن پرندوں سے بے زار ہے ،جنہوں نے اس کے کمرے میں گھونسلے بنالیے تھے۔ جب کہ ’’مورنامہ‘‘ اُن موروں کی داستان ہے، جو بھارتی راجستھان میں ایٹمی دھماکوں کے بعد اذّیتوں کا شکار ہوئے۔اسی طرح ایک کہانی منشا یاد کی’’ایک تھی فاختہ‘‘ ہے۔ اس میں ایک بچّہ اپنی ماں سے کہانیاں سُنتاہے، جس میں ایک کہانی فاختہ کی ہے ۔ بچّے نے فاختہ کبھی نہیں دیکھی ہوتی،لہٰذا ضد کرتا ہے کہ اُسے فاختہ دیکھنی ہے۔ اُس کا باپ اُسے قریبی باغ لے جاتا ہے، مگر وہاں کوئی فاختہ نہیں ہوتی ،پھر وہ دوسرے، تیسرے باغ جاتے ہیں ، مگرفاختہ کہیںنہیں ملتی۔بچّے کا باپ محکمۂ باغات کے ایک افسر کو فون کرکے پوچھتا ہے ،تو معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں کوّوں کی بہتات کے باعث فاختائیں کُوچ کرگئی ہیں ۔

منشی پریم چند نے اُردو ادب میں جانوروں سے متعلق چند بہترین کہانیاں لکھیں، جن میں سے ایک ’’غم نداری ، بُزبخر ‘‘ ہے۔ یعنی اگر آپ کوکوئی غم نہیں، تو بکری خرید لیں ۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح گھر والوں کی تازہ دودھ پینے کی معصوم سی خواہش، اَن گنت غیر متوقع مسائل اور پریشانیوں کا باعث بنتی ہے۔ بکریوں سے متعلق انتظار حسین کی ایک بہترین کہانی کا عنوان ’’برہمن بکرا‘‘ہے، جس میں ایک برہمن اولادِ نرینہ سے محروم ہے ۔ کوئی سادھو اُسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ ایک بکرے کی بھینٹ (قربانی)چڑھائے ،تووہ ایک بکرا خرید کر اُسے خوب کھلاتا پلاتا ہے، جس پر بکرا قہقہہ مار کے کہتا ہے ’’یہ وقت وقت کی بات ہے ، پچھلے جنم، مَیں برہمن تھا اور تم بکرےاور مَیں نے بیٹے کی خواہش میں تمہاری قربانی کی تھی ۔‘‘ یہ سن کر برہمن لرز جاتا ہے اور قربانی ملتوی کردیتا ہے ۔گھوڑے پر ایک شان دار کہانی، ابوالفضل صدیقی کی ہے، جنہوں نے جانوروں سے متعلق بہت اچھا ادب تحریر کیا ہے ۔اس طویل کہانی کا عنوان ’’انصاف‘‘ ہے، جو ان کے گھوڑے کا نام ہے۔پھرکرشن چندر کا ناقابل ِفراموش ناول ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ ہے،جسے ڈاکٹر آمنہ احمد سعید نے اپنی کتاب ’’کرشن چندر کے ناول‘‘ میں شامل کیا۔ یہ ناول طنز و مزاح کا ایک بہترین نمونہ ہے ،جس میں ہیرو گدھا سادگی سے بھرپور ہے، مگرانسانوں کی طرح بولنا ، پڑھنا ، لکھنا جانتا ہےاوربہت بے لاگ گفتگو ، بے باک تنقید کرتا ہے۔پریم چند کی کہانی ’’دو بیل‘‘ میں دو بیل اپنے مالک سے بہت پیار کرتے ہیں اور دل لگاکر محنت کرتے ہیں ۔ لیکن اچانک گھر کی مالکن ان کو اپنے میکے بیچ دیتی ہے ، بیل اپنے مالک کو یاد کرتے ہیں اور رات کو رسّی تڑواکر واپس گھر آجاتے ہیں ۔ افسانہ نگار ،شمشیر سنگھ نرولا کی کہانی ’’گئو ہتیا ‘‘ ایک ایسےپس ماندہ گاؤں کی کہانی ہے ، جہاں سیکڑوں گائیں ہیں، جو زیادہ ترقریب المرگ ہیں ،مگر کوئی انہیں ذبح نہیںکرتا،کیوں کہ بھگوان کی ناراضی کا اندیشہ ہے ،مگرجب ایک بوڑھی گائے مرنے والی ہوتی ہے ،تو گاؤں کے آوارہ کتے اس پر حملہ کرکے اسے بھنبھوڑ کر شدید زخمی کردیتے ہیں ۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی کی ایک کہانی کا نام بھی ’’ دو بیل‘‘ ہے جو مختلف بیلوں کی آپس میں بات چیت اور مصنّف سے ان کے تعلق پر لکھی گئی ہے ۔

کتّوں کی بات کریں ،توسرسیّداحمد خان کا مضمون ’’بحث و تکرار‘‘ کُتّوں کے غرّانے اور لڑنے کو ایک تمثیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قارئین کو سبق دیتا ہے کہ انسانوں کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح حاجی لق لق اور پطرس بخاری کی کُتّوں کے بارے میںتحریریں خاصی دل چسپ ہیں ۔ حاجی لق لق کا اصل نام عطا محمد تھا ۔ مزاحیہ شعر و شاعری اور طنزیہ نثرنگاری میں مہارت رکھتے تھے۔ اُن کی کہانی ’’میم صاحب کا کتا‘‘ ایک ایسی امیر عورت کی کہانی ہے،جو اپنے کتے سے بہت محبت کرتی ہے ،مگر ایک ریل گاڑی کے سفر کے دوران اس کا کتا ایک اور کتّےسے بدل جاتا ہے ،جو دراصل آوارہ کتّاہے ۔ پطرس بخاری کا مضمون ’’کتّے‘‘ بھی اُردو کی مزاحیہ تحریروں کے تقریباً ہر مجموعے میں شامل ہوتا ہے ۔ اُردو ادب کی ایک اوربہترین کہانی ،سعادت حسن مَنٹو کی ’’ٹیٹوال کا کتّا‘‘ ہے۔ یہ منٹو کی کہانیوں کے مجموعے ’’یزید‘‘ میں شامل ہے ۔’’ٹیٹوال کا کتّا‘‘ مَنٹو نے 1951ء میں لکھی تھی،مگر آج کے حالات کے مطابق معلوم ہوتی ہے ۔ ٹیٹوال بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے فوجی اکتا کر ایک دوسرے پر گولیاں چلاتے رہتے ہیں ۔ اچانک سرحد پر ایک کتّا نمودار ہوتا ہے، مگر فوجی فیصلہ نہیں کرپاتے کہ وہ کتّا بھارتی ہے یا پاکستانی ۔اسی طرح غلام عباس کی ایک کہانی ہے ’’بندر والا ‘‘۔ جس میں مصنّف کو اُن کے پڑوسی شاہ صاحب چائے پر بلاتے ہیں اور چائے کے دوران چھوٹے بیٹے کو مسلسل اردو، انگریزی نظمیں، اشعار اور نہ جانے کیا کیا سنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ مصنّف کو واپسی میں ایک بندر والا نظر آجاتا ہے، جسے دیکھ کر وہ رُک جاتا ہے ، تو بندر والا بھی بندر سے تقریباً وہی حرکات کرواتا ہے، جو والدین اپنے معصوم بچّوں سے کرواتے ہیں۔پریم چند کی ’’ناگ پوجا ‘‘ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ عصمت چغتائی کی ’’لال چیونٹے ‘‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اسی طرح راجندر سنگھ بیدی کی ایک کہانی ’’لاروے‘‘ ، آغا اشرف کی ’’ریشم کا کیڑا‘‘اور کرشن چندر کی ’’مینڈک کی گرفتاری‘‘ ہے۔ پھرچوہوں کے بارے میں ممتاز مفتی کی کہانی کا عنوان ہی ’’چوہا‘‘ ہے۔جو در حقیقت بوڑھے جوڑوں کی عُمر رسیدگی کے مسائل اور بوریت کی خوب عکّاسی کرتی ہے۔ اسی طرح ایس ایم اشرف کی جانوروں سے متعلق کچھ کہانیاں ہیں ، خاص طور پر ’’نمبر دار کا نیلا‘‘ ۔پھر مستنصر حُسین تارڑ کی ’’ سِنو ٹائیگر کی سرگزشت ‘‘ ، فرخ ندیم کی ’’نکیل ‘‘ اور خالدہ حُسین کی ’’ہزار پایہ‘‘ بھی مختلف جانوروں کے تذکرے کے ساتھ اردو ادب کی نمایاں تحریروں میں شامل ہیں۔

تازہ ترین