• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح ساڑھے پانچ بجے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پہنچے، تو دی پیسیج پی آر کے رُکن، نوید بیگ اپنی ٹیم کے ساتھ خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ کچھ ہی دیر میں دیگر صحافی دوست بھی جمع ہوگئے اور پھر ہم نے نجی ائیر لائن کی پرواز سے اسلام آباد کی اڑان بھری۔ ہماری منزل وادیٔ سوات کا مرکزی شہر، مینگورہ تھا، جہاں انڈس موٹرز کی جانب سے ’’پانچویں آٹو انڈسٹری میڈیا ورکشاپ‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہم اسلام آباد سے آرام دہ کوسٹرز کے ذریعے عازمِ سوات ہوئے اور یوں اس بہانے’’ نئے پاکستان‘‘  کی زیارت سے بھی مستفید ہوگئے۔ ہمارے ہاں پنجاب کے کاشت کاروں کو خاصا ترقّی یافتہ تصوّر کیا جاتا ہے اور یہ تاثر کچھ غلط بھی نہیں، لیکن ہم نے مردان کے قریب کاشت کاری کے جو جدید طریقے دیکھے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب خیبر پختون خوا کے کاشت کار بھی بڑی تیزی سے جدید ٹیکنیکس استعمال کر رہے ہیں۔ نیز، بڑی مدّت کے بعد گڑ بنتے دیکھا، تو بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ تخت بھائی سے ذرا آگے دوپہر کے کھانے کے لیے رُکے، تو اسلام آباد کے صحافیوں سے بھی ملاقات ہوگئی، وہ بھی ہماری طرح میڈیا ورکشاپ ہی میں شرکت کے لیے جا رہے تھے، یوں سوات کا سفر اکٹھے شروع کیا۔بہرحال، چھے، سات گھنٹے کا سفر طے کرکے عصر کے قریب مینگورہ پہنچ گئے اور پھر باقی دن سفر کی تھکن اُتارتے گزرا۔

دوسرے روز ناشتے کے فوراً بعد کانفرنس ہال کا رُخ کیا، جہاں انڈس موٹرز کے سی ای او، علی اصغر جمالی صحافیوں کو بریفنگ دینے کے لیے تیار تھے۔ لاہور سے آنے والے صحافیوں کے علاوہ، مقامی صحافی بھی ہال میں پہنچ چُکے تھے۔ دی پیسیج پی آر کے روحِ رواں، سلیم محمود نے شرکاء کو ورکشاپ کی غرض و غایت سے آگاہ کیا اور یہ بھی کہ پہلے بریفنگ ہوگی اور پھر سوالات کا سلسلہ، مگر ابھی بریفنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ اِدھر اُدھر سے سوالات، بلکہ بحث مباحثہ شروع ہوگیا، جو منع کرنے کے باوجود پورے جوش وخروش سے آخر تک جاری رہا۔یوں بریفنگ اور سوالات ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ علی اصغر جمالی نے اپنی گفتگو کا آغاز ’’ آٹو ڈیویلپمنٹ پالیسی 2016-21ء ‘‘کے اثرات کے حوالے سے کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ یہ پالیسی نئے مینوفیکچررز کو مُلک میں لانے کے ہدف میں بہت حد تک کام یاب رہی ہے۔ جس سے ایک صحت مند مقابلے کی فضا بنی ہے اور انڈس موٹرز کمپنی اس طرح کے مقابلوں کا نہ صرف یہ کہ خیرمقدم کرتی ہے، بلکہ اسے مُلکی معاشی بہتری کے لیے اہم قدم بھی تصوّر کرتی ہے، کیوں کہ اس سے صارفین کو گاڑیوں کی خریداری کے لیے بہتر انتخاب کے مواقع ملیں گے۔ ہماری کمپنی، ٹویوٹا کے اصولوں، معیار، پائیداری اور عوام کے بھروسے پر پورا اُترتے ہوئے نئے مینوفیکچررز کا سامنا کرے گی۔ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ جو لوکلائزیشن کی سطح آئی ایم سی نے حاصل کی ہے، وہ نئے مینوفیکچررز کے مقابلے میں ہماری سب سے بڑی قوّت ہے۔‘‘ تاہم، اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے حکومت سے مُلک میں لوکلائزیشن کے فروغ اور مقامی سطح پر آٹو پارٹس بنانے والوں کے مفادات کے تحفّظ کا بھی مطالبہ کیا۔ اپنے اس مطالبے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ’’ حکومتی پالیسی کے تحت نئی کمپنیاں CKD کی درآمد 10 فی صد ڈیوٹی پر کرسکتی ہیں، جب کہ مقامی آٹو پارٹس بنانے والی کمپنیز، پرزہ جات 10 فی صد ڈیوٹی اور سب اسمبلی 20 فی صد پر درآمد کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ نئے سرمایہ کاروں یا کمپنیز کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔نیز، مقامی طور پر آٹو پارٹس بنانے والوں کو عالمی سطح پر بڑی کمپنیز سے بھی مقابلہ درپیش ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس نظام میں موجود اس طرح کی خامیوں کو ترجیحی بنیادوں پر دُور کرے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پُرزہ جات پر ڈیوٹی کی شرح زیادہ سے زیادہ 5 فی صد ہونی چاہیے اور اسی طرح، سب اسمبلی پر بھی ڈیوٹی کم کرکے10 فی صد تک لائی جائے۔ اس اقدام سے مقامی پارٹس کی قیمتوں میں کمی ہوگی اور مقامی پارٹس بنانے والے ،نئی کمپنیز کے لیے بھی آٹو پارٹس تیار کرسکیں گے، جس کا براہِ راست فائدہ عوام اور مُلکی معیشت ہی کو ہوگا۔‘‘’’آپ کی کمپنی نے مقامی آٹو پارٹس کی ترقّی کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟‘‘ اس سوال پر جمالی صاحب نے مختلف اعداد وشمار اور رپورٹس کا سہارا لیتے ہوئے بتایا’’ آئی ایم سی نے مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری کی ترقّی کے لیے بھرپور کام کیا ہے۔ ہم نے مقامی انڈسٹری سے ٹیکنیکل معاونت اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے 35 معاہدے کیے ہیں، جن پر پوری طرح عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔علاوہ ازیں، انڈس موٹرز کمپنی 2004ء سے اب تک170 کے لگ بھگ پُرزہ جات لوکلائزڈ کرچُکی ہے۔ اگر مارکیٹ سے خریداری کی بات کی جائے، تو ہم روزانہ200 ملین روپے کے مقامی پُرزہ جات خریدتے ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آئی ایم سی اس حوالے سے صرف بات نہیں کرتی، بلکہ عملاً بھی مقامی انڈسٹری کے فروغ میں کردار ادا کر رہی ہے۔ کمپنی نے کرولا کے ہر نئے ماڈل میں لوکلائزیشن کو بڑھایا ہے، جس کا انڈسٹری کے ساتھ صارف کو بھی فائدہ پہنچا کہ اُسے اب بھی ڈالرز کی بڑھتی قیمت کے مقابلے میں کم قیمت میں گاڑی مل رہی ہے۔ اگر کوئی قیمتوں کا موازنہ کرنا چاہے، تو ٹویوٹا کرولا کے پہلے ماڈل کی تیاری سے آج تک، گاڑی میں جدید سہولتوں کی فراہمی کے باوجود، روپے کی گراوٹ کے حساب سے گاڑی کی قیمت دیکھ لے۔ہم اب تک کرولا میں 64 فی صد لوکلائزیشن کر چُکے ہیں۔ اس کے باوجود، ہماری گاڑیاں ڈوئل ائیر بیگز، پاور اسٹیئرنگ، اے بی ایس بریک، اموبیلائزر اور NCAP فور اسٹار معیارکی حامل ہیں۔‘‘

مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری پر خدشات کے سائے
علی اصغر جمالی

اس موقعے پر ٹیکنو آٹو گلاس لمیٹڈ کے سی ای او، عامر اللہ والا بھی موجود تھے، جن سے مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری کے حوالے سے سوالات کیے جاتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ پاکستان کو آٹو پارٹس کی کم ویلیوایشن کی درآمد کی وجہ سے ہر سال 19 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، یہ مسئلہ انڈسٹری کے لیے بے حد پریشان کُن ہے ۔ پھر یہ کہ اس سے ٹیکس چوری میں اضافہ ہوا ہے اور کمرشل امپورٹرز نے بعض کسٹم قوانین سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہائی ٹیکنالوجی پارٹس بھی درآمد کیے ہیں، جو او ای ایمز کی امپورٹ قیمت اور مقامی مینوفیکچرنگ لاگت سے کم ہیں۔ اسی طرح SRO 345(I)/2016 میں پُرانے پُرزہ جات کی درآمد پر پابندی ہے، تاہم کسٹم نوٹی فکیشن سے 20 فی صد جرمانے کے بعد ان کی درآمد کی جاسکتی ہے۔ مقامی سطح پر آٹو پارٹس تیار کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ معاملات حکومت کی فوری توجّہ کے متقاضی ہیں۔ اس سے حکومت اور آٹو انڈسٹری ،دونوں ہی کو فائدہ ہوگا۔‘‘ تھرموسول لمیٹڈ کے سی ای او، نبیل ہاشمی نے اسی حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ’’ وینڈرز بہتری کے لیے کوشاں ہیں تاکہ وہ پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کو معیاری اور جدید مصنوعات فراہم کرسکیں۔ کئی وینڈرز نے اپنی مصنوعات کی تیاری کے نظام کو جدید بنایا ہے، جب کہ کئی ایک تو اب روبوٹس کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔‘‘بریفنگ یہیں تک پہنچی تھی کہ برابر بیٹھے،’’ دی نیوز‘‘ کے سینئر رپورٹر، شاہد شاہ نے ہاتھ بلند کیا اور اونچی آواز میں کہا’’ جناب! مَیں ایک بات پر سخت احتجاج کرنا چاہتا ہوں۔‘‘الہٰی خیر، سب اُن کی طرف متوجّہ ہوئے کہ نہ جانے ایسا کیا ہوگیا کہ شاہ صاحب بَھرے ہال میں یوں احتجاج کر رہے ہیں۔ لمحہ بھر بعد وہ گویا ہوئے’’ میرے سَر پر ایک بھی بال نہیں، اس کے باوجود مجھے دو شیمپو کی بوتلیں اور ایک کنگھا دیا گیا ہے، جو میرے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔‘‘ اس پر وہ قہقہے پڑے کہ بس کچھ نہ پوچھیے۔اس سے فائدہ یہ ہوا کہ تھکے دماغ پھر سے تازہ دَم ہوگئے۔ ابھی ہم اس جملے کو انجوائے ہی کر رہے تھے کہ ایک طرف سے سوال ہوا ’’آٹو انڈسٹری کا مُلک کی مجموعی معاشی ترقّی میں کتنا حصّہ ہے؟‘‘ اس سوال پر علی اصغر جمالی نے کچھ یوں تفصیل بتائی’’آٹوانڈسٹری گزشتہ 30 برسوں سے پاکستانی مصنوعات کو فروغ دے رہی ہے اور انجینئرنگ کے شعبے کی ترقّی کے ساتھ، مُلک میں ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی بھی لائی ہے۔ نیز، اس صنعت نے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ خود انڈس موٹرز کمپنی نے نئے ماڈل متعارف کروانے کے لیے 126 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔نیز، پیداوار میں بھی 20 فی صد اضافہ کیا گیا ہے، جو 54,800 یونٹس سے بڑھ کر 66,000 یونٹس ہوگیا ہے۔‘‘ لوڈز لمیٹڈ کے سی ای او، منیر بانا نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا’’ مُلک کی جی ڈی پی میں آٹو انڈسٹری کا حصّہ 2 فی صد ہے، جب کہ انڈسٹری سے بلاواسطہ 3 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے اور بالواسطہ 25 لاکھ افراد انڈسٹری سے منسلک ہیں۔ آٹو انڈسٹری کا 2021ء تک ہدف 415,000 گاڑیوں کی پیداوار ہے، جس سے جی ڈی پی میں شعبے کا حصّہ بڑھ کر3 فی صد ہوجائے گا اور40 لاکھ افراد بالواسطہ اور بلاواسطہ آٹو انڈسٹری سے روزگار حاصل کریں گے۔‘‘ انڈس موٹرز کمپنی کے سی ای او مجموعی طور پر حکومت کی پالیسیز کو درست قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ بلاشبہ حکومت نے آٹو انڈسٹری کی بہتری کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں، جن میں نان فائلرز سے پابندی ہٹانا بھی شامل ہے۔ تاہم، انڈسٹری کو کچھ مشکلات بھی درپیش ہیں۔10 فی صد 1700 سی سی اور اس سے بڑی گاڑیوں پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے گاڑیوں کی فروخت متاثر ہوگی، جن میں ہماری گرانڈے اور فورچیونر بھی شامل ہیں۔‘‘ماہرین کے مطابق،پاکستان میں سی پیک اور دوست ممالک کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کے مثبت اثرات آٹو انڈسٹری پر بھی مرتّب ہوں گے۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ 5 لاکھ کاروں کا ہدف وقت سے پہلے ہی حاصل کرلیا جائے گا۔تاہم، 10 فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے سرمایہ کاروں میں بے یقینی پائی جاتی ہے، کیوں کہ اس سے اُن کی منصوبہ بندی اور اہداف متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح، مقامی آٹو پارٹس صنعت کو غیر مُلکی سرمایہ کاری کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے ہنگامی اور دیرپا نوعیت کے فیصلے کرنا ہوں گے۔اس معاملے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ غیر مُلکی سرمایہ کاروں کو ڈیوٹیز اور دیگر ٹیکسز کی مَد میں مراعات دینے کا فیصلہ مُلکی معیشت کے لیے انتہائی مفید ہے، تاہم مقامی طور پر آٹو پارٹس بنانے والوں کو بھی اسی طرح کی مراعات دی جانی چاہئیں تاکہ کوئی اُنھیں مقابلے کی دوڑ سے باہر نہ کر سکے۔

مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری پر خدشات کے سائے
تفریحی مقام، بنجوٹ میں شجرکاری کے موقعے پر لی گئی تصویر

آئی ایم سی تعلیم، صحت اور ماحولیات جیسے شعبوں میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔اس کے تحت کئی اسکولز چل رہے ہیں، تو کمپنی نے مختلف علاقوں میں اسپتال بھی تعمیر کروائے ہیں۔ اسی طرح ماحول کو شفّاف بنانے کے کئی منصوبوں پر بھی عمل پیرا ہے، جن میں سے ایک’’ ملین ٹری منصوبہ‘‘ بھی ہے۔ سو، ہمیں بھی شجرکاری مہم میں شامل کرنے کے لیے بلند پہاڑی علاقے، بنجوٹ لایا گیا۔ جی ہاں، لایا ہی گیا تھا، کیوں کہ کوئی اپنی مرضی سے ایسے خطرناک راستے پر جانے کا رِسک نہیں لے سکتا۔ مینگورہ سے بنجوٹ کی طرف سفر شروع کیا، تو سب خوش تھے۔ ہلکی بارش، سردی، ہر طرف ہریالی، بہت مزا آرہا تھا، لیکن جوں ہی خطرناک چڑھائی شروع ہوئی، سب کو اللہ یاد آگیا۔ کئی دوست تو درمیان ہی میں ہمّت ہار بیٹھے، آگے جانے سے معذرت کرلی اور جو آگے کا سفر جاری بھی رکھے ہوئے تھے، اُن کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ کئی ایک نے تو احتیاطاً بیوی بچّوں سے فون پر بات بھی کر لی کہ نہ جانے پھر بات ہو، نہ ہو۔ گاڑی میں خاموشی تھی یا پھر’’ اللہ ہُو‘‘ کی صدائیں۔ خطرناک پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے گاڑیاں کئی بار بند ہوئیں، چلیں اور بالآخر اللہ اللہ کرکے منزل پر پہنچ ہی گئیں۔ وہاں ایسا دِل فریب منظر ہمارا منتظر تھا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔کاروباری زبان میں یوں سمجھیے کہ’’ ساری قیمت وصول ہوگئی۔‘‘ تیرتے بادل، یوں لگتا کہ جیسے اجنبی مہمانوں کو چُھونا چاہ رہے ہوں، پھر ہلکی ہلکی برف باری بھی الگ ہی سماں باندھ رہی تھی۔ وہاں پہلے ہی سے شجرکاری کے انتظامات کردیے گئے تھے، سو سب نے اپنے اپنے حصّے کے پودے لگائے اور واپس لَوٹ آئے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ سوات جیسی جنّت نظیر وادی جائیں اور قدرت کے حسین نظاروں سے لُطف اندوز ہوئے بغیر پلٹ آئیں، لہٰذا، کئی سیّاحتی مقامات کی سیر بھی ہمارے شیڈول میں شامل رہی۔

تازہ ترین