• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے اوراق کے مطالعے سے بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ برصغیر میں پہلی مسجد 1612ء کے دوران مہاراشٹر کے قلعہ اُرک کے قریب اُورنگ آباد میں ملک عنبر نامی راجہ نے تعمیر کرائی۔ اس مسجد کی تعمیر کے ٹھیک 45سال بعد 1657ء کے دوران سندھ کے قدیم شہر قمبر کے گائوں گھٹھڑ کا محلہ رئیس گل محمد تعمیر کرائی گئی۔ قمبر ان دنوں محض ایک چھوٹا سا علاقہ تھا، لیکن اب یہ شہر، شہدادکوٹ کے ساتھ منسلک ہوکر تعلقہ کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ تعلقہ کا درجہ دینے میںوزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کا اہم کردار رہا۔ یہ خطہ پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ اور محترمہ بینظیر بھٹو کا حلقہ انتخاب بھی رہا ہے۔

2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس تعلقہ کی مجموعی آبادی 13لاکھ اکتالیس ہزار بیالیس نفوس پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی حدود بلوچستان کے علاقے خضدار، جعفر آباد، جھل مگسی، دادو اور جیکب آباد سے ملتی ہے۔ جبکہ دریائے سندھ کے کنارے جنم لینے والی دنیا کی قدیم ترین تہذیب و تمدن کا حامل شہر موئنجودڑو یا لاڑکانہ سے محض 23کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ قمبر کی یہ 362سال قدیم مسجد گھٹھڑ کا شماراب جامع مسجد میں ہوتا ہے۔ 20ہزار مربع فٹ اراضی پر سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی جبکہ اینٹوں کو جوڑنے کے لئے چونا، ٹاٹ، دالوں کا مرکب استعمال کیا گیا تھا، مسجد کا مرکزی اور داخلی دروازہ ساگوان کی لکڑی پر خوبصورت گل کاری کندہ کرکے نصب کیا گیا جبکہ دروازے اوپری حصے پر پتھروں کو تراش کر دیدہ زیب نقش و نگار بنائے گئے مسجد کے بالائی حصے اور عین سامنے دائیں و بائیں جانب دو چھوٹے مینار ہیں۔ جن سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ جب علاقے میں بجلی نہیں تھی اور لوگ تیل کے دیئے جلاکر روشنی کا انتظام کرتے تھے، ان دنوں ایک مینار پر کھڑے ہوکر موذن اذان دیا کرتا تھا، تاکہ علاقے کے مکینوں کو اسلام اور فلاح کی دعوت بہ آسانی پہنچ سکے۔ جامع مسجد گھٹھڑ کا داخلی راستے پر ایک راہداری ہے جسکے دونوں جانب نمازیوں کے بیٹھنے کیلئے پہاڑی پتھروں کے سلیپ رکھے ہیں جبکہ چھت پر مینار کے بغیر ایک گنبد ہے جو راہداری کو گرمیوں کی تمازت میں بھی ٹھنڈک کا احساس دلاتا ہے۔ مسجد کی دیواروں پر چونے اور ٹاٹ کا اس قدر نفاست سے پلستر کیا گیا ہے کہ اس پر ہاتھ پھیرنے اور قریبی جائزے کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ موجودہ عہد کا تیار کردہ سیمنٹ ہے، یا زمانہ قدیم کے لوگوں کی مقامی اشیاء کا مہارت کا استعمال ہے۔ مسجد میں ساگوان کی لکڑی سے بنا منبر اور اسکے قریب پیش امام کا حجرہ قابل دید ہے۔ جس کے رنگ آج بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اُس دور میں وقت کے لئے گھڑی کا استعمال معدوم تھا، مگر موجودہ عہد میں اس مسجد میں جابجا جدید گھڑیاں نصب ہیں۔ جبکہ دیواروں پر خانہ کعبہ، مسجد نبوی ؐ کی تصویروں کے علاوہ قرآنی آیات اور درود شریف کے بینر بھی آویزاں ہیں۔ مسجد کی اندرونی دیواروں، محرابوں، چھت اور گنبد پر ایرانی اور مغلیہ دور کے نقش و نگار بناکر اسے منفرد بنایا گیا۔ مسجد کے داخلی دروازے کے دائیں اور بائیں جانب دو بڑے طاق ہیں جن میں کبھی چراغ جلا کرتے تھے، مگر اب یہ جائے نماز اور پلاسٹک کی ٹوپیاں رکھنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

قمبر شہدادکوٹ کی یہ تاریخی اور قدیم جامع مسجد کبھی یہاں کی چھوٹی بندرگاہ کے مسلمان ملازمین اور مزدوروں اور ملاحوں سے آباد تھی، اس کی تعمیر و مرمت، تزین و آرائش پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، لیکن اب یہ مسجد ایک کمیٹی کی زیرنگرانی قائم و دائم ہے اور اس کی بقاء کے لئے علاقے کے مخیر افراد خصوصی توجہ دیتے ہیں، مگر اس تاریخی مسجد کو حکومت اور وزارت مذہبی امور کے علاوہ محکمہ آثار قدیمہ کی خصوصی توجہ درکار ہے۔

تازہ ترین