• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مٹی سے برتن اور مجسمے بنانے کا رواج صدیوں پرانا ہے۔کرئہ ارض پر اپنی آمد کے ساتھ ہی بنو آدم کو جن اشیا کی ضرورت محسوس ہوئی ان میں خوراک ، اشیائے خورونوش رکھنے اور دیگر ضرورتوں میں استعمال ہونے والے برتن بھی شامل تھے۔ ابتداء میں انسان نے اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پتوں، لکڑی، ہڈیوں، پتھروں اورپھلوں کے چھلکوں کو برتنوں کے طور پر استعمال کیالیکن وقت گزرنے کے ساتھ آدمی کے تخیلات میں بھی جدت آتی گئی اور اس نے ان کا استعمال ظروف سازی میں کیا جس کے بعد برتنوں کی بناوٹ بھی تبدیل ہوتی گئی۔ اولادآدم نے پہلے پہل جوڑے کی صورت میں رہنا شروع کیاپھر اس جوڑے کے اشتراک سے نسل انسانی میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو اس نے خاندان کی شکل اختیار کی جس کے بعد معاشرے کی تشکیل ہوئی ۔ معاشرتی تقاضوںکے ساتھ ساتھ انسان کی ضرورتیں بھی بدلتی گئیں لیکن برتنوں کا وجودحضرت انسان کے لیے ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ۔خود کو زندہ رکھنے اور ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے پیٹ بھرنا بہت ضروری تھا۔ ارتقائی دورکے انسان تو پھل ، کچی سبزیوں، مویشیوں کے کچے گوشت سے شکم سیری کرتے تھے لیکن جب انہوں نے پتھروں کی رگڑ سے آگ جلائی اور اس پر گوشت بھون کر کھایا تو مذکورہ خوراک رکھنے اور محفوظ کرنے کے لیے برتنوں کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے لیے انسان نے ابتدامیں پھلوں کے چھلکے، پتوں، پتھروںاور ہڈیوں کو برتن کے طوپراستعمال شروع کیا۔ بھارت میں آج بھی پیپل اور برگد کے درخت کے پتوں کو برتن کے طور پر استعمال کا رواج عام ہے جسے ہندی زبان میں ’’دونا‘‘ کہتے ہیں۔

ہزاروں سال قدیم روایت کوحال ہی میں یورپ میں بھی اپنایا گیا ہے۔ پتوں سےظروف سازی کا تجربہ جون 2018ء میں جرمنی کی لیف ری پبلک نامی ایک کمپنی نے کیا اور وہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے برتن بنا رہی ہےجن کی تیاری کے لیے درختوں کےپتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔مذکورہ کمپنی کے دعوے کے مطابق، عام دھاتوں یا پلاسٹک سے بنائے جانے والے ظروف کے مقابلے میںان برتنوں میں کوئی کیمیکل یا مصنوعی رنگ استعمال نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے یہ انسانی صحت کے لیے ضرررساں اجزا سے محفوظ ہیں۔پتوں کو پلیٹ یا مختلف برتنوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے ان پر عام دھاگوں سے سلائی کی جاتی ہے۔ یہ دھاگے اور پتے زمین میں تلف ہو کر اس کی زرخیزی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔انسان جب شعور کی منزل پر پہنچا توبتدائی دور میں ہی اس نے مٹی کے برتن بنا کر انہیں آگ میں پکا کر مضبوط کرناشروع کیا۔زمین پر زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی انسان کو شکم سیری کے علاوہ پیاس بجھانے کے لیےکسی ایسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جس میں پانی بھر کر اپنی پیاس بجھائے جب کہ دیگر آبی ضرورتوں کے لیے بھی اسے پانی کے لیے برتنوں کی ضرورت ہوتی تھی۔۔ وہ ندی، نالوں ، دریا اور تالابوں کے کنارے جنگلی جانوروں کو پانی پیتے دیکھتا تھا ، ابتدا میں اس نے بھی یہی طریقہ اپنانے کی کوشش کی لیکن اس سے اس کی سیری نہیں ہوتی تھی جس کے بعد اس نے ہاتھوں کا پیا لہ بنا کر پیاس بجھانے کی کوشش ، بعد میں درخت کے پتوں کو پیالے کی شکل میں ڈھال کر اس میں پانی بھر کر پینا شروع کیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے اپنے روزمرہ کے استعمال کے لیے مختلف اشیاء تیار کیں ۔مٹی سے برتن بنانے کا ہنربھی انسانی ذہن کی اسی دور کی اختراع ہے۔

سندھ کی آمری اور موئن جو دڑو تہذیب جو ہزاروں سال قبل مسیح کی ہے، اس میں بھی مٹی سے ظروف سازی کے آثار ملے میں۔آمری گاؤںکے کھنڈرات سےدیگر نوادرات کے ساتھ ایسے برتن بھی برآمد ہوئے ہیں جو عمدہ ملائم بادامی یا سرخ و گلابی مائل گندھی ہوئی مٹی کے بنے ہوئے ہیں، جو ظروف سازی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ان میں سے بعض سفید اور بعض میں ہلکے سبز رنگ کے شیڈ نظرآتے ہیں۔ سندھ کےدیگر مقامات سے جو برتن دستیاب ہوئے ہیں، ان کی بناوٹ گلاب کے کٹورے جیسی ہے۔ سندھ کی تہذیب کے اثرات بلوچستان کے علاقے نال پر بھی مرتب ہوئے اور یہ ہنر وہاں بھی منتقل ہوگیا۔آمری کے کھنڈرات سے ملنے والا عمودی دیواروں والا مٹی کا کنستر ہے۔ اسی طرح طرح لمبے لمبے جار بھی ملے ہیں۔آمری اور موئن جو دڑو کے کھنڈرات سے مٹی کے چراغ بھی ملے ہیں۔ مٹی کے چراغ 60اور 70کی دہائی تک پاکستان کے علاوہ بھارت کے دیہی علاقوں میںبھی استعمال ہوتےرہے ہیں۔ آمری ثقافت میں برتنوں پر نہایت پیچیدہ قسم کی پچی کاری کی گئی ہےجب کہ نال سے ملنے والے ظروف پر جانوروں کی تصویریںبنی ہوئی ہیں۔

موئن جو دڑوکے کھنڈرات سے بھی کھدائی کےدوران مٹی کے برتن اور کھلونےبرآمد ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر چاک سےبنائےگئے ہیں ۔ ان میں ایک نمایاں برتن وہ رکابی ہےجو اونچے پائیدان پر جوڑی گئی ہے ۔ اسےچڑھاوے کا پائیدان کہا جاتا ہے ۔بعض برتنوں پر ایسی مہر کندہ کی گئی جس پرابھری ہوئی تحریریں ناقابل فہم زبان میں ہیں۔چند آبخورے بھی ملے ہیں جن کا پیندا تو ہے لیکن وہ پیندے پرکھڑے نہیں ہوسکتے ۔سندھ سے ظروف سازی کا ہنر چین، مراکش ،اندلس اور برصغیر منتقل ہوگیا۔

مٹی سے برتن بنانے والے کاریگر کو کمہار کہا جاتا ہے اور اولڈکراچی کی ایک بستی کمہار واڑے کے نام سے معروف ہے، جب کہ یہ برادری اندرون سنذھ کے علاوہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں رہتی ہے۔ نیوکراچی قبرستان کے سامنے واقع گوٹھ میں کمہار کے پیشے سے وابستہ افراد کی کثیر تعداد رہتی ہے جن کی ہنرمندی کے شاہ کار مٹی کے برتنوں کی صورت میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر بکتے نظر آتے ہیں۔ مٹی سے ظروف سازی کا فن دنیا کے ہر معاشرے میں موجود رہا ہے لیکن برصغیر میں اس ہنر نے عروج کی منازل طے کیں ۔آج بھی سندھ کے زیادہ تر کاریگروں کے ہاتھوں میں ایسا جادو ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مٹی کے ڈھیر کو چاک پر رکھ کر انتہائی خوبصورت برتن میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ان کی مہارت ایسی ہوتی ہے کہ بے اختیاراس پر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں آج بھی مٹی کے برتنوں سمیت دیگر اشیاء کی تیاری کا عمل جاری ہے بلکہ ان کا استعمال بھی کیا جاتا ہےلیکن ماضی کے مقابلے میں آج مٹی کے برتنوں کا استعمال انتہائی کم ہو گیا ہے۔دو دہائی قبل تک گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا۔ چکنی مٹی سے بنی ہوئی ہانڈیوی میں کھانے پکائے جاتے تھے ، اس دور میں ریفریجریٹر، ڈیپ فریراور واٹرڈسپنسر کا رواج بہت کم تھا ، اس لے شدید گرمی میں مٹی کے گھڑوں اور صراحیوں میں پانی بھر کر رکھا جاتا تھا جو انتہائی یخ اور سوندھا ہوتا تھا۔ مٹی کے آب خورےپانی پینے کے کام آتے تھے جبکہ مٹی ہی کے برتنوں میں چائے سمیت دیگر مشروبات بھی استعمال کی جاتی تھیں جب کہ دودھ ابالنے کے بعد اس میں بھر کر چھینکوں میں رکھا جاتا تھا۔ گھروں میں مٹی کے برتنوں کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا تھا، باورچی خانوں اور صحن میںبرتنوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ بچے بھی مٹی کے کھلونوں سے کھیلا کرتے تھے اور یہ کھلونے بچوں میں بہت زیادہ پسند کئے جاتے تھے لیکن آج ان کھلونوں کی تیاری اور استعمال میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

مٹی کے برتنوں میں پودے لگانے کے لئے مختلف سائز کے گملے بنانے کے علاوہ گھروں میں تازہ پھولوں کو سجانے کے لئے گلدستہ بنانے کا رواج آج بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں بنائے جانے والے برتن دیدہ زیب نہیں ہوتے تھے جب کہ آج کے کاریگر انتہائی نفاست سے کام کرتے ہیں۔ ان پر رنگوں اور برش کا استعمال کرکے نقش نگاری کے ایسے نمونے بنائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر سحر سا طاری ہوجاتا تھا۔ سکھر، خیرپور، شکارپور، جیکب آباد، گھوٹکی سمیت اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں مٹی کے برتن بنانے کی روایت آج بھی قائم ہے اور اس کا سلسلہ سندھ کی قدیم تہذیب و تمدن سے جڑا ہوا ہے۔بعض دیہی علاقوں میں یہ ہنر گھریلو اور کاٹیج انڈسٹری کی شکل اختیار کرگیا ہے اور اس کی اپنی ایک الگ شناخت بن گئی ہے۔ غیر ملکی سیاح انہیں سندھ کا ثقافتی تحفہ یا نوادرات کے طور پر اپنے ملک لے جاتے ہیں اور اپنے احباب کو تحفتاً پیش کرتے ہیں جب کہ مقامی کاروباری حضرات انہیں غیر ملکیوں کے ہاتھوں انتہائی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔

جدید سائنسی ترقی کے ثمرات سے جہاں لوگ فیض یاب ہوئے ہیں وہیں اس کے مضمرات سے سندھ کی ظروف سازانڈسٹری سے وابستہ ہنرمندوں کی کثیر تعداد متاثر ہوئی ہے۔ مقامی دست کاروں کے ہاتھوں سے مٹی سے برتن بنانے کا فن معدوم ہوتا جارہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا گھروں میں کم سے کم استعمال ہے۔سندھ کے شہری علاقوںمیں آج بہت کم گھرانے ایسے ہوں جہاں قدیم دور کی اس نشانی سے استفادہ کیا جاتا ہو ۔الیکٹرانک ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد، ریفریجریٹر ، ڈیپ فریزر اور واٹر ڈسپنسرکی بہتات ہوگئی ہے ، کچھ عشرےقبل تک جہاں محلے کے دو چار گھروں میں فریج یا ڈیپ فریز ہوتا تھااور وہاں لوگ انتہائی گرم موسم میں مٹکے یا صراحی کے سرد پانی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے، آج ایک گھر کے رقبے پر 6کابک نما اپارٹمنٹس کے ہر گھرانے کے پاس ڈیپ فریزر یا ریفریجریٹریا واٹر ڈسپنسر ہوتا ہے۔ تمام شہروں پلاسٹک، شیشے ،پتھر ، اسٹیل ، سلور ، کانسی اور تانبے کے برتنوں کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ بازاروں میں بھی مٹی سے بنے برتن خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

ماضی میں ہاتھ سے بنے ہوئے مٹی کے برتن ، کھلونے اور دیگر اشیاء ایک صنعت کی صورت اختیار کر گئی تھی،دیہی علاقوں میں چھوٹے بڑے کارخانوں کے علاوہ گھروں میں بھی بڑی تعدا دمیں مٹی کے برتن بنائے جاتے تھے لیکن جوں جوں ان کے استعمال میں کمی واقع ہورہی ہے، اس کے کاریگر بھی بے روزگار ہوتے جارہےہیں۔

اس صورت حال سے کمہاربہت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مٹی کی ہنڈیا میںپکایا ہوا سالن منفرداور خوش ذائقہ کے علاوہ سوندھاہوتا ہے ۔ مٹی کی ہانڈیوں کا استعمال اب بہ طور فیشن کراچی سمیت سندھ کے بڑے شہروں میں واقع اعلیٰ درجے کے ریستورنوں اور باکڑا ہوٹلوں تک محدود ہوگیا ہےجب کہ گھروں میں ان کا استعمال متروک ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں سالہ قدیم ظروف سازی کی صنعت توڑرہی ہے۔کمہاربرادری کا کہنا ہے کہ ہم صدیوں سے اس ہنر سے وابستہ ہیں اور نسل در نسل اس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں لیکن اب ہماری نئی نسل دوسرےروزگار تلاش کر رہی ہے۔ وہ مٹی کے برتن بنانے کا کام سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ان کا مؤقف ہے کہ ان برتنوں کی تیاری میں لاگت اور محنت بہت زیادہ ہےمگر اس کے مقابلے میں آمدنی انتہائی کم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برتن بنانے کے لیے ہم پہلے مٹی گوندھتے ہیں، پھر اسے مختلف سانچوںمیں ڈال کر یا اپنی فن کارانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف النوع شاہ کاروں میں ڈھالتے ہیں،ان پر رنگوں اوربرش کی مدد سے ڈیزائننگ کی جاتی ہے، ان پر پینٹنگز بنائی جاتی ہیں جو انتہائی مشقت طلب کام ہے لیکن پذیرائی نہ ملنے کے سبب اب اس کا مستقبل معدوم ہوتا جارہا ہے۔جدید دور میں جہاں مائیکرو اوون، کراکری، کے برتنوں کو فروغ ہوا ہے، وہیںچھوٹے بچوں میں مٹی کے کھلونے آج بھی مقبول ہیں۔دیہی علاقوں میں چھوٹے بچے ان کھلونوں کو گڈے گڑیا کی شادی کے کھیل میں بطور جہیزمٹی کے چھوٹے چھوٹے برتن دیتے ہیں، مٹی کی ہنڈیا میں فرضی کھانا پکاتے ہیں جب کہ دوسرے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔مٹی سے بنے ہوئے بچوں کے گلک آج بھی ملتے ہیں، جن میں بچے اپنا جیب خرچ جمع کرتے ہیں۔

مٹی سےظروف سازی کی صنعت کے قصہ پارینہ بننے کی وجہ سےوادی مہران کی قدیم ثقافت متاثر ہونے کے ساتھ ہماری معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کبھی یہ پاکستان کے دیہی علاقوں اور شہری مضافات کی اہم صنعت تھی جس سے لاکھوں لوگ روزگار حاصل کرتے تھے جب کہ نوادرات کی صورت میں مٹی سے بنی ہوئی اشیا کی غیرممالک کو برآمد سے ملکی خزانے کو زرمبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ اس قدیم صنعت کوحکومتی سطح پر نذرانداز کیے جانے کے بعدسے یہ رو بہ زوال ہے۔ اس سے وابستہ ہنرمندوں میں کام کے حوالے سے مایوسی بڑھی ہے۔ ماہر کاریگر یا تو وفات پاچکے ہیں یا پھرروزگارکے دوسرے شعبوں سے وابستہ ہوگئے ہیں۔وادی سندھ کی اس قدیم ثقافت کو مٹنے سے بچانے کے لیےمحکمہ آثار قدیمہ اور ثقافت سرکاری سطح پراقدامات کی ضرورت ہے۔ 

تازہ ترین