• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیاسی جماعتیں ملک کو ’’معاشی گرداب‘‘ سے نکالنے کیلئے ایک ہوجائیں

تحریک انصاف کی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی نت نئے بحرانوں سے دوچار ہے اور معاشی بحران سب سے بڑا ہے پاکستان سابقہ حکومت اور حکمرانوں کی مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ہے اور حکومت کو بڑا مسئلہ تباہ شدہ معیشت کو پٹڑی پرلانا اور پسے ہوئے طبقات کو ریلیف دینا ہے اگرچہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی کوششوں سے چین ،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ، ملائیشیا اور دیگر دوست ممالک سے اربوں ڈالر کی امداد موصول ہورہی ہے اورملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے مگر ابھی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتیں ایک ہوجائیں اور ملک کو اقتصادی اور معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے تب ہی عوام کو ریلیف ملنے کا امکان ہوسکتا ہے ۔ اپریل کے مہینے میں چند اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور مزید اہم واقعات کی توقع ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کے خلاف تحریک شروع کردی ہے جوں جوں آصف علی زرداری ،فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ،اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کے خلاف نیب اور ایف آئی اے گھیرا تنگ کررہی ہے توپیپلز پارٹی کے لب و لہجہ نے بھی اندرون سندھ بڑے بڑے جلسے کرکے وزیراعظم عمران خان کی پالیسیوں اور حکومت کو سخت نشانہ بنایا۔پیر کے روز اسمبلی اجلاس کے پہلے روز بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی سخت تقریر کی ان کی تقریر ان کے مزاج کے برعکس تھی اور ایسا محسوس ہوا اسمبلی میں نہیں جلسے سے خطاب کررہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے انتہائی سخت لہجے اور سخت الفاظ سے پیپلز پارٹی کی آئندہ سخت حکمت عملی کا اظہار ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف بلاول نے انتہائی سخت الفاظ استعمال کئے جس کا عمر ایوب نے بھی سخت الفاظ میں جواب دیا اورا سپیکر اسد قیصر نے بھی نوٹس لیا اور کہا کہ عمران خان منتخب وزیراعظم ہیں آپ غیر پارلیمانی الفاظ سے گریز کریں مگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ارکان کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا زبردست تبادلہ ہوا، پیپلز پارٹی کے ارکان اسپیکر اسد قیصر کے سامنے آگئے انہوں نے شدید نعرہ بازی کی اور اسپیکر اسد قیصر کو اجلاس برخاست کرنا پڑا۔ اجلا س کی خاص بات یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے اس احتجاج اور نعرہ بازی کے دوران مسلم لیگ (ن) کے لیڈران اور ارکان نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا جس سے پتہ چلتا ہے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف اورشہباز شریف حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کے موڈ میں نہیں کیونکہ میاں نوازشریف اپنی بیماری کی بنیاد پر مزید ریلیف لینے کی کوششوں میں ہیں مسلم لیگ(ن) کے رہنما حکومت کے خلاف صرف بیانات کی حد تک محدود رکھے ہوئے ہیں بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق میاں نواز شریف اور حکومت کے درمیان ڈیل آخری مراحل میں ہے اگر ڈیل مکمل نہ ہوئی تو شریف خاندان اور ان کے بچوں کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوجائے گا لہٰذا شریف خاندان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید پنگا لینے کی پوزیشن میں نہیںکیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل کر بھی پنجاب میں لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نوازشریف اور آصف علی زرداری سے متعدد ملاقاتیں کرچکے ہیں ، آصف علی زرداری تو اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کے حق میں ہیں مگر میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو مثبت جواب نہیں دیا، نوازشریف حکومت کو مزید موقع دینے کے حق میں ہیں ان کا موقف ہے کہ کسی تحریک یا گڑبڑ سے حکومت کو نہ ہٹایا جائے ورنہ جمہوریت پٹڑی سے اتر گئی اور مارشل لا آگیا تو ان کی زندگی میں جمہوریت کی بحالی ممکن نہیں ، ویسے بھی مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کسی سیاسی پارٹی کے اشارے پر سڑکوں میں آنے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اس میں کوئی شک نہیں حکومت نے ان آٹھ مہینوں میں بہت سے غلطیاں کی ہیں بالخصوص سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے ایسی معاشی پالیسیاں بنائیں جن کی وجہ سے اتنی مہنگائی ہوگئی کہ لوگ کچل کر رہ گئے اور وزیراعظم صاحب کو اپنے انتہائی قریبی ساتھی وزارت خزانہ واپس لے کر ٹیکنوکریٹ عبدالحفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپنا پڑا جو پیپلز پارٹی کے بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں جس کا طعنہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی دیا تاہم ان تمام باتوں کے باوجود یہ بات اظہر من شمس ہے کہ جب تک فوج اس حکومت کے ساتھ ہے کسی کو تبدیلی کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ فوج بھی ملک کے سرحدی حالات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پھنسی ہوئی ہے اگر موجودہ حکومت کو فوری طورپر ہٹا بھی دیا جائے تو متبادل کونسی جماعت ہے دوبڑی جماعتوں کے قائدین کے خلاف کرپشن کے چارجز ہیں ، مسلم لیگ (ن) کے قائدین تو سزائیں بھی کاٹ رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کیسوں کے فیصلوں کے قریب ہے۔اس وقت وفاقی سطح پر تبدیلیوں کا موسم ہے او ر بہت جلد اس موسم کی گرم ہوائیں پنجاب او ر کے پی کے تک بھی پہنچنے والی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میںاہم ردوبدل کیا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کا برملا اظہار کیا اورکہا کہ وزرا کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہوں جو کام نہیں کر ے گا اُسے باہر نکال پھینکیں گے، در حقیقت عمران خان صاحب کے اندر کام کرنے کی جو امنگ ہے اس پر پورا اترنے والے ہی وزارتوں میں چل سکتے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اتنی کم اکثریت کی حکومت میں وزرا کیخلاف سخت اقدامات اور وزرا کو نااہلی کی بنیاد پر فارغ کرنے کے بعد حکومت قائم رکھ سکتے ہیں کیونکہ وزرا کی اکثریت پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن)،مسلم لیگ (ق) سے آئی ہوئی ہے ہر وزیر تین سے پانچ لوگوں کا گروپ رکھتا ہے لیکن دوسری طرف عمران خان کے جو انتہائی قریبی ساتھی ہیںوہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان جو بات کرتے ہیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں اور پھر نقصان کی پرواہ نہیں کرتے نہ ہی کسی سے بلیک میل ہوتے ہیں اگر وہ بہت زیادہ دبائو میں آئے تو اسمبلی بھی توڑ سکتے ہیں اور صدارتی نظام کیلئے ریفرنڈم بھی کراسکتے ہیں جس کا اشارہ وزیر قانون فروغ نسیم نے بھی دیا ہے کہ ریفرنڈم کیلئے آئین میں گنجائش ہے اور کوئی بھی نظام نافذ کرنے کیلئے ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے آئین میں ترمیم ایک تہائی اکثریت یاریفرنڈم کے ذریعے کی جاسکتی ہے اور صدارتی نظام لایا جاسکتا ہے۔وزیر قانون کی طلب سے صدارتی نظام کی حمایت بہت معنی خیز ہے کابینہ میں ٹیکنو کریٹس کی شمولیت اس سلسلے کی کڑی ہے، صدارتی نظام کیلئے افواہوں میں صداقت نظر آرہی ہے کیونکہ عمران خان اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ اور اپنی جماعت کے اندر گروپ بندی سے بہت تنگ ہیں بلیک میل ہونا ان کی سرشت میں نہیں۔ وفاقی کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے بعد پنجاب میں اہم تبدیلیوں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ اس وقت وزیراعظم کے معتمد خاص جہانگیر ترین پنجاب کے دارالحکومت میں براجمان ہیں اس میں کوئی شک نہیں تحریک انصاف کی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے میں جہانگیر ترین کی دولت اور محنت شامل ہے جس کی وزیراعظم بھی قدرکرتے ہیں جہانگیر ترین او ر شاہ محمود قریشی کے درمیان اور ان اختلافات کو میڈیا میں لانے سے بھی وزیراعظم خاصے افسردہ اور پریشان رہے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ وزیراعظم وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کوبڑے جوش و جذبے سے لائے تھے مگر وہ وزیر اعظم کی سوچ اور افتار سے میچ نہیں کرسکے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین