• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سید اقبال محسن

کراچی کے ساحل سے 280کلو میٹر دور گہرے سمندر میں تیل کی تلاش کے لیے ملکی اور غیر ملکی کمپنیزسرگرمِ عمل ہیں، سائنسی تحقیق کی رُو سے کام یابی کی اُمّید ہے

بحیرہ عرب کے گہرے پانی میں کراچی کے ساحلوں سے 280 کلو میٹر دور پچھلے تین ماہ سے تیل اور گیس کی تلاش کے لیے ڈرلنگ جاری ہے۔ اس کنویں کو پانچ ہزار پانچ سو فیٹ گہرائی تک کھودا جائے گا اور تاحال پانچ ہزار فیٹ تک کھدائی ہو چکی ہے۔ اگلے تین ہفتوں میں جو دو چار ہاتھ لب بام رہ گئے ہیں وہاں تک بھی رسائی ہو جائےگی ۔

پچھلے پچاس برسوں میں وقتاً فوقتاً مختلف تیل کی کمپنیوں نے ہمارے سمندری حدود میں بارہ کنویں کھودے۔ یہ کنویں ساحلوں سے دس سے پچاس کلومیٹر دوری پر ہے ۔موجودہ کنواں جسے کیکڑا۔1کا نام دیا گیا ہے ۔ساحل سے 280کلو میٹر دور اور گہرے پانی میں ہے۔ سمندر کی تہہ میں جن چٹانوں میں ڈرلنگ کی جارہی ہے وہ ان چٹانوں سے بالکل مختلف ہیں جو پچھلے بارہ کنوئوں میں کھودی گئی تھیں ۔

کیکڑا سے پہلے جو کنویں کھودے گئے ان کے نام صدف اور شارک تھے ۔پیٹرولیم کی صنعت میں ایسے نام رکھنے کا رواج ہے جو سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے۔ اس کنویں کی منصوبہ بندی اور ارضی طبیعیاتی سروے کئی سالوں سے ہو رہے ہیں۔

اس منصبوے کواطالوی کمپنی Eni جوپاکستان میں چالیس سال سے کام کررہی ہے اور گیس کے کئی بڑے ذخائر دریافت کرچکی ہے ۔اس کے ساتھ دو پاکستانی کمپنیاں بھی اشتراک کررہی تھیں ،ان میں سے ایک کا حصہ 33 فی صد تھا ۔بعدازاں دنیا کی ایک بہت بڑی کمپنی EXXONنے اعلان کیا کہ وہ اس منصوبے میں پارٹنر بننا چاہتی ہے اور ہر ایک کا حصہ 25 فی صد ہوگا ۔

اس اعلان نے ہلچل مچا دی،کیو ںکہ Exxon پچاس برس پہلے بھی ہمارے ہاں تلاش کا کام کر چکی تھی اور انہوں نے ساری گیس دریافت کی تھی لیکن اتنی بڑی کمپنی ایک ذخیرے کے لیے بیٹھے رہنا مفید نہیں سمجھتی تھی۔ اب پچاس سال بعد اس کی واپسی ایک بڑا واقعہ ہے اور اونچی توقعات کا باعث بھی۔

اس کنویں کی ڈرلنگ کے لیےEni نے ایک غیرمعمولی بڑا بحری جہاز Seipam نامی کرائے پر حاصل کیا جو ہزاروں ٹن وزنی مشینیں اور ہزاروں فٹ لوہے کے ڈرلنگ پائپ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جہاز جنوری کے مہینے میں ہمارے ساحل پر پہنچ گیا تھا اوربلاتاخیر ڈرلنگ کا آغاز کیاگیا۔ جہاز پر کوئی دوسو کا عملہ متعین ہے ،جس میں انجینئرز اور جیالوجسٹ سے لے کر ملاح اور باورچی تک شامل ہیں تین چھوٹے پانی کے جہاز ہمہ وقت کراچی کی بندرگاہ سے خوراک ودیگر ضروریات لانے لے جانے پر مامور ہیں۔ ایک ہیلی کاپٹر بھی بھاگ دوڑ کرتا رہتا ہے۔ اور ڈرلنگ بغیر کسی وقفے کے ہفتے کے ساتوں دن اور چوبیسوں گھنٹوں جاری ہے۔

سمندر میں ڈرلنگ کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بڑے وزنی جہاز کو پانی پر ساکت کھڑا کر دیا جاتا ہے، جس پر ڈھائی سو فیٹ اونچی ایک رگ ( Rig )نصب ہوتی ہے، اس رگ کی مدد سے لوہے کے چھ انچ والے 90 فیٹ لمبے پائپ پانی میں اتارے جاتے ہیں۔ انہیں یکے بعد دیگر جوڑتے ہوئے سمندر کی تہہ کی چٹان تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ڈرلنگ صحیح معنوں میں اب شروع ہوتی ہے یعنی چٹانوں میں چھید کرتی ہوئی پانچ ہزار یا چھ ہزار فیٹ تک چلتی ہوئی ذخیرے والی چٹان میں داخل ہوجائے۔ البتہ اس چٹان کے مسامات تیل اور گیس سے لبریز ہوں گے یا خالی۔ یہ درست سائنسی اندازے ٹیکنالوجی کا مہارت سے استعمال اور کسی قدر خوش بختی پر منحصر ہے۔

ہمالیہ کی چوٹیوں سے جوبرف پگھلتی ہے اور ندی نالے ڈھلانوں سے اترتے میدانوں میں بڑے دریائوں کی شکل اختیار کرتے ہیں تو ایک طرف تو دریائے گنگا اور برہم پترا خلیج بنگال میں جاگر تے ہیں اور دوسری طرف دریائے سندھ اور ا س کے معاون دریا ،پانی ، ریت اور مٹی بحیرہ عرب میں پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ریت اور مٹی کا بہت بڑا زیر آب ذخیرہ وجود میں آتا ہے جو بنگال فین اور انڈس فین کے نام سے موسوم ہے۔ یہی وہ انڈس فین ہے، جس کے ایک حصے میں تیل اور گیس کی تلاش کی جا رہی ہے ۔ پہلے خشکی پر واقع انڈس ڈیلٹا میں جستجو کی گئی لیکن کامیابی نہ ملنے پر سمندر میں دور جا کر بڑی گہرائی میںانڈس فین کی چٹانوں میں ڈرلنگ کی جا رہی ہے۔ کیکڑا۔1جس سے ہم نے بڑی توقعات لگا رکھی ہیں۔

تیل کا ذخیرہ وجود میں آنے کی کچھ شرائطہ ہوتی ہیں۔ اول تو یہ کہ ان ریت اور مٹی کی تہوں میں اتنےجاندار یعنی سمندری حیاتی اور اور نباتاتی انواع اقسام پھلتی پھولتی رہی ہوں کہ جن کے گلنے سڑنے سے گیس پیدا ہوتی ہے۔اول تو یہ کہ مائع تیل اور دوئم یہ کہ تیل اور گیس اپنے ہلکے پن کی وجہ سے اوپر کی چٹانوںمیں داخل ہو کر بڑے ذخیرے کی شکل اختیار کر لیں۔ سوئم یہ ذخیرہ کرنے والی چٹانوں سے ڈھکی ہوں جو اس قیمتی معدنی دولت کو سمندر کے پانی میں پھیلنے سے بچائیں تب ہی یہ ممکن ہے کہ جب ایک کمپنی کا عملہ ہزاروں فیٹ چٹانوں میں چھید کرتا ہواا پنے ٹارگٹ پر پہنچتا ہے تو وہاں وہ ذخیرہ محفوظ ہو۔

جدید ارضیاتی سروے اور اس کنویں کی اب تک کی معلومات کی بنیاد پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 3 سے 8 ٹریلین کیوبک فیٹ گیس جو سوئی کے ذخیرے سے کم نہیں اور 500 ملین بیرل تیل جو ملک کے تیل کے کل ذخائر سے زیادہ ملنے کا امکان ہے اور یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ انڈس فین کے ا س حصے میں ایسے ایسے کئی مقامات ذخیروں سے بھرے ہوں اور اس صورت میں تیل کی دنیا میں پاکستان کی حیثیت ہی تبدیل ہو جائے گی۔

اور ہم نے پانچ ہزار فیٹ چٹانوں کی کھدائی کر لی ہے اور تیل ملنے کی کئی شرائط ہمیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں لیکن ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ ماضی بعید کے لاکھوں برسوں میں جب دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ریت اور مٹی کے ڈھیر لگا رہا تھا تو کیا وہاں اتنا حیوانی اور نباتاتی مواد ہر سال پیدا ہوتا تھا جو بھاری مقدار میں تیل اور گیس کی شکل میں ڈھل جائے۔

یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ڈرلنگ کے اپنے ٹارگٹ پر پہنچ جانے پر ہی مل سکے گا لیکن اس بات پر اطمینان کا اظہار کر سکتے ہیں کہ اتنے گہرے سمندر میں اتنی مشکل کھدائی بغیر کسی حادثے یا واقعے کے جاری ہے ۔اس کام میں کام یابی پوری قوم کے لیے بہت ہی اچھی ثابت ہوگی ۔

تیل کی تلاش میں یہ معمول کی بات ہے کہ ایک کنواں نتائج نہیں دیتاتو دوسرا یا تیسرا ، اگر عزم مصمم ہو اور عمل پیہم جاری رہے تو کامیابی کبھی دور نہیں ہوتی۔

تازہ ترین
تازہ ترین