• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مرحبا، مرحبا، اے ماہِ رمضان مرحبا‘‘، آخر ہر طرف یہ صدائیں کیوں نہ بلند ہوں کہ ہمیں اللہ کریم کے ایک عالی قدر مہمان کے استقبال کا موقع اور سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ اس مہمان کا انتظار اور اس کی راہ میں دیدہ ودِل فراش کرنا سنّتِ بنویﷺ بھی ہے۔ نبی کریمﷺ رجب ہی سے یعنی دو ماہ قبل ہی اس ماہِ مبارک کی تیاریاں شروع کردیتے تھے۔ آپﷺ ماہِ رجب کے شروع میں دُعا فرمایا کرتے تھے’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔‘‘ 

حضرت عُمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ماہِ رمضان سے قبل لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آنے والا ہے۔ پس، اس میں نیّتوں کو درست کرلو۔ اس کی حُرمت کی تعظیم کرو، بے شک اللہ کے نزدیک اس مہینے کی بہت حُرمت(عزّت و آبرو) ہے، اس کی حُرمت کو پامال مت کرو۔‘‘ اسی طرح رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، یہ مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ 

اللہ تعالی نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا اور رات میں قیام کو نفل۔ اس مہینے میں جس شخص نے نفل عمل کیا، وہ اُس شخص کی طرح ہے، جس نے دوسرے مہینے میں فرض اداکیا اور جس شخص نے اس میں ایک فرض ادا کیا، وہ اُس شخص کی طرح ہے ،جس نے دوسرے مہینے میں ستّر فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنّت ہے۔ یہ غم خواری کا مہینہ ہے، یہ ایسا مہینہ ہے، جس میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے، اس مہینے میں جس نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا، وہ اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا سبب ہے اور اُسے اُس روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملے گا اور اُس کے ثواب میں بھی کمی نہ ہوگی۔ 

یہ ایسا مہینہ ہے، جس کا ابتدائی حصّہ رحمت، درمیانی حصّہ مغفرت اور آخری حصّہ جہنّم سے نجات کا ہے۔‘‘پھر یہ کہ اس ماہ کا صرف زمین ہی نہیں، آسمانوں پر بھی انتظار کیا جاتا ہے۔نبی کریمﷺنے فرمایا’’ماہِ رمضان کے استقبال کے لیے سارا سال جنّت سجائی جاتی ہے اور جب رمضان آتا ہے، تو جنّت کہتی ہے کہ’’ یا اللہ! اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لیے خاص کردے۔‘‘

اعلان سُننا کافی نہیں، خود بھی چاند دیکھیے

شعبان کی 29 تاریخ کو نمازِ مغرب کے بعد ہلالِ رمضان دیکھنا ،جہاں ایک مذہبی فریضہ اور ہمارے آقا و مولیٰﷺ کی سنّتِ مبارکہ ہے، وہیں یہ اسلامی تہذیب و تمدّن کی علامت بھی ہے، مگر بدلتے دَور کے ساتھ ہم اس اسلامی شعار کو بھی تقریباً فراموش ہی کرچُکے ہیں۔ ایک زمانے میں رمضان کا چاند دیکھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا، گھر بھر کے افراد کسی اونچے مقام سے آسمان پر نظر گاڑے ہوتے۔’’ اِدھر دیکھو‘‘،’’ وہ ذرا اُدھر، تارے کے پاس‘‘، ’’ارے…وہ سامنے والے درخت کی دائیں ٹہنی کے کچھ اوپر دیکھو، باریک سی سفید لکیر، چاند ہی تو ہے۔‘‘ 

اس طرح کے مناظر عام ہوتے تھے، مگر اب ہمارا سارا انحصار رویتِ ہلال کمیٹی کے اعلان پر ہوگیا ہے۔ چاند نظر آئے، نہ آئے، مگر اسے دیکھنے کی کوشش تو کرنی ہی چاہیے۔ سو، اس بار ماہِ مقدّس کا چاند دیکھنے کا خاص اہتمام کیجیے، خاص طور پر بچّوں کو اس عمل میں ضرور شامل کریں تاکہ وہ اپنی روایات سے آگاہ ہو سکیں۔ اور اگر خوش قسمتی سے چاند دِکھائی دے جائے، تو پھر نئے چاند کی دُعا پڑھ کے ،تہہ دِل سے ماہِ صیام کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کی دُعا بھی ضرور مانگیں۔

روزہ کیا ہے…؟؟

سال میں ایک ماہ کے روزے دراصل اُمّتِ مسلمہ کے لیے ایک اخلاقی، جسمانی اور روحانی تربیت کا ایک جامع پروگرام ہے۔ یہ صرف مسلمانوں ہی نہیں، سابقہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی امّتوں پر بھی فرض رہے ہیں، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔‘‘ (سورۃ البقرہ 183) گو کہ روزوں کے بہت سے طبّی فوائد ہیں، جن کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں، مگر روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں ماہِ رمضان کے روزوں کو مغفرت کا ذریعہ، گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال، جہنّم سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ، اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی اور روزے دار کی نیند کو عبادت، منہ کی بُو کو مُشک و عنبر سے بڑھ کر قرار دیا گیا ہے، مگر یہ سب بشارتیں اور خوش خبریاں اُن ہی کے لیے ہیں، جو روزہ اس کی اصل رُوح کے مطابق رکھیں۔ سو، ہمیں ابھی سے عہد کرلینا چاہیے کہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، جس سے روزہ، روزہ نہ رہے۔ غیبت، چغلی، جھوٹ، فراڈ، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری،گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے، بدزبانی وغیرہ سےحتی الامکان بچنے کی کوشش کریں گے تاکہ رمضان المبارک کی اصل برکات حاصل ہو سکیں۔

اگر خدا نہ خواستہ ہم اس ماہِ مقدّس میں بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں مبتلا رہے، تو ڈر ہے کہ کہیں ان احادیثِ مبارکہ کے مصداق نہ ہوجائیں کہ رسول اللہﷺکا ارشادِ گرامی ہے’’بعض روزے دار ایسے ہیں کہ اُنہیں روزے سے سوائے بھوک کے کچھ نہیں ملتا اور بعض راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کرنے والے ایسے ہیں کہ اُنہیں سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا۔‘‘( ابنِ ماجہ و نسائی )ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا’’ جو شخص (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے ،تو اللہ کو اُس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔‘‘

اہم مسائل سے واقفیت ضروری ہے

کس پر روزہ معاف ہے، کون روزہ چھوڑ سکتا ہے؟کان میں پانی یا دوا چلی گئی، انجیکشن لگوانا ہے یا ڈرپ، روزے کے دَوران کھٹّی ڈکار کے ساتھ کچھ پانی بھی حلق کی طرف آگیا، بھول کر کچھ کھا پی لیا، کُلّی کرتے ہوئے پانی حلق سے نیچے اُتر گیا،اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں، جو عموماً روزے داروں کے ذہنوں میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح، خواتین اور نوجوان بھی بعض مخصوص مسائل کے سبب پریشان رہتے ہیں۔ 

بعض اوقات اس طرح کے معاملات پر شرعی ہدایات سے ناواقفیت کی وجہ سے روزہ ضایع بھی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں روزے سے متعلق کم ازکم بنیادی فقہی مسائل سے تو واقف ہونا ہی چاہیے۔ اس موضوع پر مارکیٹ میں بہت سی کُتب دست یاب ہیں، آپ اُن سے استفادہ کرسکتے ہیں یا پھر رہنمائی کے لیے کسی عالمِ دین سے رجوع کیا جانا چاہیے۔نیز، اگر آپ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، تو مختلف مدارس کی ویب سائٹس اور پیجز بھی اس حوالے سے خاصے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

سحر و افطار کے اوقات گپ شپ کے لیے نہیں

نبی کریمﷺ کا تو ہر ہر لمحہ ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزرتا تھا، مگر رمضان المبارک میں عبادات مزید بڑھ جاتی تھیں۔ اُمّ المومنین، حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں’’جب ماہِ رمضان شروع ہوتا، تو رسول اﷲﷺ نوافل میں اضافہ کردیتے، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دُعائیں کرتے۔‘‘ گو کہ ماہِ مقدّس کی ہر ساعت ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، نعمتوں سے بھرپور ہے، مگر سحر وافطار کے وقت کا ایک الگ ہی مقام ہے۔ 

ایک تو یہ کہ سحری کھانے کو باعثِ برکت قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’اﷲ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔‘‘ (طبرانی)اسی طرح احادیثِ مبارکہؐ میں افطار کرنے اور کروانے کی بھی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں وقت عبادت اور قبولیت دُعا کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں، مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عام طور پر ان اوقات کو گپ شپ، محض کھانے پینے یا پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ضایع کردیا جاتا ہے۔ 

نمازِ تہجّد کی فضیلت سے کون واقف نہیں کہ یہ ایک ایسی نماز ہے، جو نبی کریمﷺ نے کبھی تَرک نہیں کی، اسے عام دنوں میں ادا کرنا ذرا مشکل ہو تا ہے، مگر رمضان میں تو اس کی ادائی بہت آسان ہے، مگر پھر بھی بہت سے لوگ اس کا اہتمام نہیں کر پاتے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ خواتین سحری تیار کرنے اٹھیں، تو سب سے پہلے خود نمازِ تہجّد ادا کرلیں، پھر گھر کے بڑوں کو بھی اٹھا دیں تاکہ وہ بھی ان قیمتی لمحات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ 

اسی طرح، افطار کے وقت بے مقصد مشاغل میں وقت گزاری کی بجائے تلاوت اور دیگر ذکر و اذکار میں مصروف رہنا چاہیے، خاص طور پر خُوب عجز و انکساری سے بارگاہِ باری تعالیٰ میں ہاتھ پھیلانے چاہئیں کہ یہ دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’ افطار کے وقت روزہ دار کی دُعا کو رَد نہیں کیا جاتا۔‘‘ علاوہ ازیں، بہت سے لوگ رمضان المبارک کی مقدّس راتوں کو مجلس آرائی، تاش یا دیگر کھیل کود کی نذر کر دیتے ہیں، یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ان راتوں کو غنیمت جانیے، کیا معلوم پھر کبھی نصیب ہوں، نہ ہوں۔‘‘

خواتین پر ترس کھائیے…!!

ایسا لگتا ہے، جیسے ماہِ مقدّس میں خواتین کا کام صرف گھر والوں کی خدمت ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ سحر میں طرح طرح کے لوازمات موجود ہوں، تو افطار میں بھی کوئی کسر نہیں رہنی چاہیے، پھر اگر گھر میں کوئی روزے سے نہیں، تو اُس کے لیے بھی کھانے پینے کا اُسے ہی انتظام کرنا ہے۔ ٹھیک ہے، خواتین کو فطری طور پر خود بھی اپنے گھروں والوں کا خیال رکھنے کا شوق ہوتا ہے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سارا بوجھ اُنہی پر ڈال کر خود کَن انکھیوں سے اُن کی کارکردگی جانچتے رہیں۔ 

یہ مہینہ خواتین کے لیے بھی اُتنا ہی اہم ہے، جتنا کہ مَردوں کے لیے۔ لہٰذا اُنھیں بھی تلاوت، نوافل اور دیگر عبادات کے ساتھ آرام کا اُتنا ہی موقع ملنا چاہیے، جتنا مَرد اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نیز، اگر کبھی نمک، ،مرچ کم زیادہ ہوجائے، تو آپے سے باہر نہ ہوں کہ خواتین بھی روزے سے ہوتی ہیں اور بغیر چکھے پرفیکٹ کھانا بنانا کچھ اتنا آسان امر نہیں۔

قرآنِ پاک پڑھیے اور خُوب پڑھیے

رمضان المبارک کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ’’ ماہِ قرآن‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ،جو راہِ راست دِکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘( سورۃ البقرہ186) یوں رمضان اور قرآن کے درمیان ایک خاص تعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ماہ کے دَوران ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآنِ پاک سے مزیّن کرے۔ 

عام تجربے کی بات ہے کہ ماہِ رمضان میں جتنا قرآنِ پاک پڑھا جاتا ہے، شاید سال بھر میں بھی اِتنا نہیں پڑھا جاتا۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا’’ اے میرے ربّ! میں نے بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے روکا۔پس، اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔‘‘ اور قرآن کہے گا کہ’’ میں نے اسے رات کو نیند سے روکے رکھا۔پس، اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔‘‘ حضورﷺنے فرمایا’’ ان دونوں یعنی روزے اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘ نبی کریمﷺ ماہِ رمضان میں حضرت جبرائیلؑ ؑکے ساتھ قرآنِ پاک کا دَور فرماتے اور بہ کثرت تلاوت کرتے ۔ 

نیز، صحابۂ کرامؓ بھی رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرتے، جب کہ صلحائے اُمّت کا آج بھی یہی طریقہ ہے۔ امامِ مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ سمیت کئی بزرگانِ دین سے متعلق روایات ہیں کہ وہ ماہِ رمضان میں روزانہ ایک قرآنِ پاک ختم کیا کرتے تھے۔چوں کہ آج کا دَور، مصروفیات کا ہے، لہٰذا ہم اس قدر تو تلاوت نہیں کرسکتے، مگر اتنا تو ہو سکتا ہے کہ کم از کم ایک بار تو قرآنِ پاک ضرور ختم کرلیں اور کیا ہی اچھا ہو کہ ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھتے جائیں تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ ہمارا ربّ ہم سے چاہتا کیا ہے؟

زکوٰۃ و صدقات ضایع نہ ہونے پائیں

ہمارے ہاں ہر سال ماہِ رمضان میں زکوٰۃ اور صدقات کی مَد میں اربوں روپے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک قابلِ تعریف کام ہے، تاہم اس ضمن میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح زکوٰۃ کا ادا کرنا ضروری ہے، اُسی طرح اُسے حق دار تک پہنچانا بھی شرعی تقاضا ہے، جسے عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس ماہ کے دَوران پیشہ وَر بھکاری شہروں پر یلغار کر دیتے ہیں اور پھر اُن کے شور شرابے، ڈرامے بازیوں، کھینچا تانی میں ضرورت مندوں اور پیشہ وَروں میں تفریق مشکل ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے پیسے کسی ترتیب کے بغیر خرچ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس بار آپ زکوٰۃ کے ساتھ، صدقات کی بھی شرعی طور پر تقسیم کا نظام وضع کرلیں، جو بے حد آسان ہے۔ 

ایسا کیجیے، ایک کاپی پین لے کر بیٹھ جائیں اور ایسے قریبی رشتے داروں کی فہرست بنالیں، جو آپ کی مالی مدد کے محتاج ہیں، پھر عزّتِ نفس برقرار رکھتے ہوئے اُن تک اُن کا حق پہنچا دیجیے۔ اگر رشتے داروں میں کوئی ایسا نہ ہو، تو جان پہچان والوں سے پوچھ لیں۔ اس تھوڑی سی محنت سے آپ سفید پوش ضرورت مندوں تک پہنچ جائیں گے اور یوں آپ کا پیسا’’ اندھا دھند‘‘ تقسیم کی بجائے کسی حقیقی، شرعی ضرورت مند کے کام آ سکے گا۔

صرف آپ ہی روزے دار نہیں

آپ روزہ رکھتے ہیں، تو اچھا کرتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باقی لوگوں پر کوڑا اُٹھا لیں۔ یقین جانیے، بعض افراد روزہ رکھ کر پورے گھر کے لیے پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں۔ بے چاری خاتونِ خانہ اتنی آہستگی سے برتن اٹھاتی ہیں کہ اُن کی ہلکی سی بھی آواز نہ گونجے۔ اسی طرح گھر، بچّوں کے لیے افطار تک قید خانے میں بدل جاتا ہے، بے چارے سارا دن دُبکے بیٹھے رہتے ہیں۔ پھر گھر ہی کیا، دفاتر، بازاروں، گاڑیوں حتیٰ کہ مساجد تک میں ایسے’’ کیسز‘‘ مل جاتے ہیں، جن کا روزہ دوسروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسا نہ کیجیے، کچھ صبر، تھوڑی سی برداشت لازم ہے اور یہی روزے کا پیغام ہے۔

گراں فروش ہم ہی تو ہیں…!!

ہر برس کرسمس کے موقعے پر دنیا بھر میں’’ سیل‘‘ لگ جاتی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں سیل ہوتی بھی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ غریب عیسائی بھی کرسمس کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ اب ذرا اپنی طرف دیکھیے۔ ہمارے ہاں رمضان سے قبل ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ شروع ہوجاتا ہے، جو رمضان تک آسمان کو چُھو لیتا ہے۔ 

یہ ناجائز منافع خور امریکا یا افریقا سے نہیں آتے، بلکہ ہم لوگ ہی لُوٹ مار مچا کر ماہِ مقدّس کا تقدّس مجروح کرتے ہیں۔پھل، دال، بیسن، آئل، کس کس کا ذکر کریں، ہر چیز ہی مہنگے داموں بیچی جاتی ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ ایسا کرنے والے دوسروں کو اخلاقیات کا بھاشن بھی خُوب دیتے ہیں۔ حکومت کو تو چھوڑیے، اگر ہم چاہیں، تو’’ اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت بھی گراں فروشی کے خلاف مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 

آپ کسی کاروبار سے وابستہ ہیں، تو ابھی تہیہ کر لیجیے کہ اس بار رمضان میں مصنوعی مہنگائی نہیں کریں گے۔ یقین مانیے، آپ کی یہ کوشش دوسروں کو ناجائز منافع خوری سے روکنے کا سبب بنے گی اور اس سے روزے داروں کو بھی آسانی ہوگی، جو آپ کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔پھر یہ کہ عوام کو بھی مہنگی اشیاء کی خریداری تَرک یا اُس میں کمی کرکے ناجائز منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس طرح دستر خوان کچھ ہلکا تو ہو گا، مگر بھلا بھی ہمارا ہی ہوگا۔

کچھ عادات سے چھٹکارا بھی تو پایا جا سکتا ہے

چوں کہ ماہِ رمضان اپنی رُوح کے مطابق ایک تربیتی پروگرام ہے، تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم بہت سی ناپسندیدہ عادتوں سے مستقل طور پر چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ بے تحاشا تمباکو نوشی کرتے ہیں اور عام دنوں میں اس سے رُکنا ممکن نہیں ہوتا، تو پھر آپ کے لیے یہ مہینہ ایک بہترین موقع ہے۔ 

ہمّت کیجیے، ہر روزے کے ساتھ سگریٹس کی تعداد کم کرتے جائیں اور پندرہ سے بیس رمضان تک صفر پر لے آئیں۔ ابتدا میں پریشانی تو ہوگی، مگر روزے، تلاوت اور ذکر و اذکار کی برکت سے تمباکو نوشی سے جان چُھوٹ جائے گی۔ اسی طرح کچھ ہمّت سے کام لیا جائے، تو مختلف اخلاقی بیماریوں سے بھی نجات پائی جا سکتی ہے۔   

تازہ ترین