• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ ماہر لسانیات اور سندھی زبان کے محقق

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

سندھی دنیا کی قدیم ترین زبان ہے۔ زبان کی خوبصورتی اس کے لوک ادب کے مربوط حصے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ سندھی زبان میں موجود لوک ادب کے ورثے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ نثری ادب کا ہے جبکہ دوسرا حصہ شاعری پر مشتمل ہے۔ لوک ادب عام لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے جو زبان کے خالص پن و ثقافت کو زندہ رکھنے کا ذریعہ کہلاتا ہے۔ سندھ میں ہر دور میں اعلیٰ پائے کے شاعر اور ادیب زبان کے فروغ میں مصروف رہے۔ صوفی شاعری کا اہم حصہ سندھی زبان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ شاہ عنایت صوفی، شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت سچل سرمست، خواجہ محمد زمان لنواری والے و دیگر شعرا شامل ہیں۔ آزادی سے پہلے سندھ کے لوگ باشعور اور تعلیم یافتہ تھے۔ سندھ کے لوگوں میں شعور بیدار کرنے اور تعلیمی، سیاسی شعور اور سماجی بیداری میں سندھی ادیبوں اور دانشوروں کا اہم کردار ہے۔ ان دانشوروں اور ادیبوں میں قابل ذکر نام شیخ ایاز، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ، مرزا قلیچ بیگ، حسن علی آفندی، محمد ابراہیم جویو، علامہ آئی آئی قاضی اور دیگر شامل ہیں۔

موجود ہ عہد میںڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سندھ میںتعلیمی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔وہ پاکستان کے معروف محقق، مورخ، ادیب، ماہر تعلیم اور دانشور تھےاور انہیں سندھ کی ثقافت اور تاریخ پر ایک ’’اتھارٹی‘‘ کی حیثیت حاصل تھی ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی علم و ادب اور تحقیقی کاموں کیلئے وقف کردی۔انہوں نے بڑے بڑے علمی منصوبوں کا آغاز کیا اور عمدگی سے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا بچپن غربت کے ماحول میں گزرا لیکن ان کی شخصیت کا یہ نہایت روشن پہلو ہے کہ تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، 16دسمبر 1917ء میںگوٹھ جعفر خان لغاری، ضلع سانگھڑمیںپیداہوئے۔ ان کے والد علی محمد خان ان کی ولادت کے صرف چھ ماہ بعد انتقال کرگئے لیکن مرتے وقت انہوں نے وصیت کی کہ میرے بچے کو پڑھانا، جسےنبی بخش بلوچ کے چچا ولی محمد خان نے پورا کیا۔ اس زمانے میں گوٹھ جعفر خان لغاری میں کوئی باقاعدہ اسکول نہیں تھا لہٰذا چچا نے انہیں گائوں کے ہندو استاد سومل کے پاس ابتدائی تعلیم کیلئے بھیجا جہاں ڈاکٹر نبی بخش نے ابتدائی حروف تہجی اور اعداد سیکھے۔ اس کے بعد 1924ء میں گوٹھ پلیو خان لغاری کے پرائمری اسکول میں داخل ہوئے۔ مارچ 1929ء میںوہ مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے نوشہروفیروز کے مدرسے و ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ 1936ء میں سندھ میںمیٹرک کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد ڈی جے کالج میں داخلہ لیا لیکن مالی مشکلات کی بنا پر یہاں تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔1937میں وہ جونا گڑھ گئے،جہاں بہاء الدین کالج میں داخلہ لیا۔ 1941ء میں انہوں نے اس کالج سےبی اے آنرز میں پہلی پوزیشن حاصل کی جس کی بنا پر انہیں سو روپے ماہوار مہابت فیلو شپ وظیفہ (بنام نواب مہابت خان والی ریاست جونا گڑھ) ملا۔ 1945ء میں انہوں نے ایل ایل بی اور اس کے بعد ایم اے (عربی) فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ انہوں نے اموی دور کے ایک باغی سردار، منصور بن جمہور کے سندھ پر تسلط پر اپنا پہلا تحقیقی مقالہ لکھا جو حیدرآباد دکن کے معروف علمی و تحقیقی رسالے ’’اسلامک کلچر‘‘ میں شائع ہوا جس کیلئے شعبہ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبدالرشید نے معاونت کی۔

1945ء میں برطانوی حکومت نے مرکزی سطح پر برصغیر میں ڈاکٹریٹ کیلئے اسکالر شپ کا اعلان کیا۔ بلوچ صاحب نے آل انڈیا سطح پر اس مقابلے میں کامیابی حاصل کی اور 16؍اگست 1946ء کو بمبئی سے امریکا روانہ ہوئے جہاں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں"A Programme of Teacher Education New State of Pakistan"کے نام سے تحقیقی مقالے کا آغاز کیا اور 1949ء میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کرکے تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے واپس پاکستان پہنچے۔ پیر الہیٰ بخش اور ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کے اصرار پرنبی بخش بلوچ، علی گڑھ چھوڑ کر سندھ مسلم کالج کراچی میں لیکچرار مقرر ہوگئے۔ 1950ء میں وزارت اطلاعات و نشریات پاکستان میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی افسر بطور خاص اور بعدازاں بیرونی نشریات کے شعبے میں قدرت اللہ شہاب کے ماتحت خدمات انجام دیں۔ 1951ء میں انہیں اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر دمشق میں پاکستانی سفارت خانے میں پریس اتاشی مقرر کیا گیا۔ ستمبر 1951ء میں علامہ آئی آئی قاضی کی ترغیب پر انہوں نےسندھ یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم میں بحیثیت پروفیسرخدمات کا آغاز کیاوہاںپاکستان کا پہلا’’ ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن‘‘ شعبہ تعلیم قائم کیا اور اس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ دسمبر 1973ء میں نبی بخش بلوچ کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور اسی سال انہیں ’’ نیشنل میرٹ پروفیسر‘‘کا درجہ بھی عطا کیا گیا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے جنوری 1976ء میں سندھ یونیورسٹی میں سندھی شعبے کا آغاز بھی کیا۔وہ سندھ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے بانی بھی تھے۔ نبی بخش بلوچ نے جولائی 1979ء تا 1982ء اسلام آباد میں قائم قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ آپ نے ادارے میں پہنچتے ہی علمی و تحقیقی منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اعلیٰ معیار کے تحقیقی مجلے کا انگریزی زبان میں اجرا کیا۔ یہ مجلہ "Journal of Historic and Culture" کے نام سے شروع ہوا جس میں نبی بخش بلوچ نے بھی تحقیقی مقالات لکھے اور دیگر محققین سے لکھوائے۔ نبی بخش بلوچ سے پہلے یہ ادارہ چھوٹی بڑی دس بارہ کتابیں ہی شائع کرسکتا تھالیکن انہوں نے محض چار سال کے عرصے میں 34؍نئی کتابیں لکھوائیں جن میں سے 25؍کتب شائع کرائی گئیں۔ ان کتب میں سے 5؍سندھ سے متعلق ہیں جن میں مولانا عبداللہ لغاری کی روایت کردہ مولانا عبیداللہ سندھی کی ’’کابل کی ڈائری‘‘ جسے ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے مرتب کیا، شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو جلدوں پر مشتمل سندھ سے بمبئی کی علیحدگی کی تاریخی دستاویزات بھی شائع کیں۔ انہوں نے دیگر تحقیقی منصوبے جن پر کام کا آغاز کیا، وہ یہ ہیں۔

(1)پورے پاکستان کے تعمیراتی آثار کا مطالعہ

(2)ٹھٹھہ اور مکلی قبرستان کی تعمیرات کا مطالعہ

(3)اوچ شریف بہاولپور کی تعمیرات کا مطالعہ (مقبرہ بی بی جیوندی)

(4)لاہور کی تعمیرات کا مطالعہ

(5)زیریں سندھ میں لکڑی کی تعمیرات کا مطالعہ

نبی بخش بلوچ نے مسلمانان پاک و ہند کی مستند، متعصبانہ آراء سے پاک اور صحیح تاریخ دنیا کے سامنے لانے کا ایک عظیم منصوبہ ترتیب دیا جس کی پہلی فتح نامہ سندھ پر نبی بخش بلوچ نے خود شب و روز محنت کرکے اس کا مستند فارسی متن مع انگریزی مقدمہ تحریر کیا اور اس پر انگریزی میں مفید حواشی بھی تحریر کی۔ اس کتاب کا عربی میں ترجمہ دمشق سے کرایا اور وہیں سے کتاب 1983ء میں شائع کرائی۔ ابھی یہ منصوبہ ہی تھا کہ 1983ء میں نبی بخش بلوچ کو اس ادارے سے فارغ کردیا گیاجس کے بعد یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ انہوں نےلوگوں کی اوطاقوں میں بیٹھ کر سائلوں سے ان کے سینوں میں محفوظ لوک ادب کے ایک ایک نکتے کو نکلوا کر انہیں کتابی شکل میں پیش کیا۔ڈاکٹر بلوچ نے ان گیتوں کی مشہور اقسام کو لوک ادب کی متعلقہ اور تحقیق کے بعد جمع کیا۔ نثر کے ذخیرے میں لوک کہانیوں، عشقیہ داستانوں کے موضوعات پر بھی ڈاکٹر صاحب نے بڑا کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں سندھی لوک کہانیوں کی سات جلدیں مرتب کی گئی ہیں۔ ان کی اردو کتابوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کی ایک مثال ’’سندھ میں اردو شاعری‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے 1658ء سے 1935ء تک کے سندھ کے 71؍شعرا کے حالات زندگی اور کلام کا انتخاب پیش کیا۔نومبر 1980ء میں نبی بخش بلوچ کو اسلام آباد میںبین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ یہ عہدہ نبی بخش بلوچ نے اے۔کے بروہی کی ایما پر قبول کیا جو اس یونیورسٹی کے پہلے ریکٹر مقرر کئے گئے تھے۔ بلوچ صاحب نے 3؍جنوری 1981ء کو شاہ فیصل مسجد کمپلکس کے ایک کمرے میں 1980-81ء کے تعلیمی سال کا آغاز اے۔کے بروہی صاحب سے کرایا۔ اس کے بعد اکتوبر 1981ء تک تمام ذیلی ادارے قائم کردیئے جن میں بورڈ آف اسٹڈیز، سلیکشن بورڈ، اکیڈمک کونسل، فنانس کمیٹی وغیرہ شامل ہیں۔ اگست 1982ء میں بلوچ صاحب کو اس عہدے سے سبک دوش کردیا گیا۔جس کے بعد انہوں نے قومی ہجرہ کونسل میں مشیر کا عہدہ سنبھالا۔ اس علمی منصوبے کے بارے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ فرماتے ہیں۔ ’’گزشتہ 1400 ؍برسوں کے دوران مسلمانوں نے علم کے ہر شعبے میں خدمات انجام دیں۔ ان کی علمی و تحقیقی کتب میں سے بہت سی فنا ہوچکی ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جو کتب بچ گئی ہیں، ان میں سے 100؍کتب کے معیاری انگریزی تراجم شائع کئے جائیں ۔ اس منصوبے کے تحت 4؍کتب میں نے شائع کروائیں اور 9؍کتب پر کام مکمل کرایا تھا۔ اس کے ساتھ ہی 4؍مزید کتب شروع ہونے والی تھیں کہ انہیں اس ادارے سے ہٹا دیا گیا۔

ان 100؍عظیم کتب کے تعارف کیلئے نبی بخش بلوچ نے انگریزی میں ایک کتاب ’’اسلامی تہذیب کی عظیم کتابیں‘‘ کے نام سے لکھی جسے قومی ہجرہ کونسل نے 1989ء میں شائع کیا۔ بلوچ صاحب نے ان 100؍عظیم کتب کے مخطوطات کے حصول کیلئے جن کتب خانوں سے معاونت حاصل کی، ان میں سلیمانیہ کتب خانہ استنبول، ظاہری خانہ دمشق اور شاہی کتب خانہ رباط شامل ہیں۔ ان 100؍عظیم کتب میں عالم اسلام کے جن محققین، حکماء، سائنسدان، ریاضی دان اور علما کی بہترین کتب کا انتخاب کیا گیا، ان میں شاہ ولی اللہ، الخوارزمی، ابو ریحان، البیرونی، ابن سینا، یعقوب ابن اسحاق الکندی، ابن نفیس، ابن رشد، الغارابی، عمر خیام، محمد ابن زکریا الرازی اور دیگر شامل تھے۔

15؍فروری 1991ء میں بلوچ صاحب کو سندھی زبان کا بااختیار ادارے کا اولین چیئرمین مقرر کیا گیا۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے اس ادارے کے قیام کے وقت تین مقاصد قرار دیئے تھے جو یہ ہیں۔(1)سندھی کی تعلیم(2)سندھی زبان کا فروغ (3)سندھی زبان کا استعمال۔ سندھی زبان کے بااختیار ادارے کی سربراہی کے دوران میں نبی بخش بلوچ نے اشاعتی پروگرام پر بھرپور توجہ دی اور محض 27؍ماہ میں 25؍علمی و تحقیقی کتب شائع کیں۔ اادارے کےاشاعتی پروگرام کے تحت بلوچ صاحب نے نہ صرف نئی کتب لکھوائیں بلکہ بعض قدیم و نایاب کتب کے جدید ایڈیشن بھی شائع کرائے ۔انہوںنے اس ادارے میں مارچ 1994ء تک خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے بیک وقت پانچ زبانوں سندھی، اردو، انگریزی، عربی اور فارسی میں علمی و تحقیقی خدمات انجام دیں اور تقریباً 150؍کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ آپ نے جامع سندھی لغات (پانچ جلدیں)، یک جلدی سندھی لغت لکھیں، دائرۃ المعارف بریٹانیکا کیلئے بلوچستان اور سندھ پر مضامین اور دائرۃ المعارف الاسلامیہ کیلئے کندابل بلوچستان میں گندھارا پر مضمون تحریر کئے۔ اس کے علاوہ بے شمار انگریزی کتب اور فارسی میں کتب لکھیں ۔ڈاکٹر نبی بخش نے ساری زندگی علم اور کتاب سے محبت کی۔ وہ ایک نادر اور قیمتی کتب خانے کے مالک تھے۔ ہمہ وقت لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ شکار، ڈاکٹر صاحب کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ آرٹ کے وہ دلدادہ تھے۔ موسیقی سے بھی ان کو کافی لگائو تھا۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ جب وہ کولمبیا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے گائوں پہنچے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گھر پہنچ گئی جن میں اکثریت مریضوں کی تھی۔ ان لوگوں نے ڈاکٹر بلوچ سے درخواست کی کہ وہ مریضوں کا معائنہ کریں۔ انہوں نے ان لوگوں سے معذرت کی جس پر لوگ ناراض ہوئے اور کہا کہ ’’باہر سے ڈاکٹر بن گئے ہو۔‘‘ جب ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ تعلیم کے شعبے کے ڈاکٹر ہیں تو لوگوں میں سے کسی نے انہیں مخاطب ہوکر کہا کہ ’’پھر یہ کہو نا کہ ماسٹر ہو!‘‘ سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی تحریروں کو ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف مجموعے کی شکل دی بلکہ انہوں نے 10؍جلدوں پر مشتمل شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مجموعہ کلام مرتب کیا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے انہیںستارئہ امتیاز اور صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ 2005ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے آپ کی گرانقدر ادبی خدمات کے صلے میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ’’کمال فن ادب انعام‘‘ سے نوازا۔ اس کے علاوہ ستارئہ قائداعظم، تمغہ امتیاز، ہلال امتیازعطا کیا۔ 6؍اپریل 2011ءکوعارضہ قلب کے سبب حیدرآباد میں انتقال کرگئے۔ نبی بخش بلوچ کی وصیت کی روشنی میں ان کی تدفین سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ان کے دیرینہ ساتھی علامہ آئی آئی قاضی کے پہلو میں کی گئی۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تحریریں ہمارے نوجوانوں کیلئے رہنمائی کا درجہ رکھتی ہیں ۔ڈاکٹر نبی بخش کی خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں جن کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ان کی شخصیت اور ان کا علمی و ادبی ذخیرہ بالکل ہی منفرد نوعیت کا حامل ہے۔ وہ جدید علم کے عالم ہونے کے ساتھ سندھ کی قدیم تہذیبی روایات کے امین بھی تھے۔ ڈاکٹر نبی بخش نے سورج کی طرح ہمیشہ علم و شعور کی روشنی کو پھیلایا۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ قوموں کی تقدیریں محض دعائوں اور آرزوئوں سے بدلا نہیں کرتیں، اس کیلئے مسلسل محنت و جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش نے بھی ہمیشہ جدوجہد کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ آپ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا لیکن کبھی بھی غربت آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنی۔ محنت، جستجو اور لگن انسان کو کامیابی کے راستے پر لے جاتی ہے اور انسان اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو بھی اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دینی چاہئے اور مسلسل ہمت و حوصلے سے تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے رہیں تاکہ وطن عزیز پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔

تازہ ترین