• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختار احمد کھٹی، ٹنڈوغلام علی

18ویں صدی کے اوائل میں سندھ پر کلہوڑا خاندان کی حکم رانی قائم ہوئی۔تالپوروںکے شاہی خاندان کے سردار جو سندھ میں آباد ہوگئے تھے، کلہوڑوں کے بہت قریب آگئے اور ان کی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے۔اس قبیلے کا جد اعلیٰ میر شہداد خان تالپور تھا، جوترقی کرکےکلہوڑا فوج کا سپہ سالار بن گیالیکن پھر ن کےکلہوڑوں کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور کلہوڑا حکم ران نے تالپور سرداروں کو قتل کرادیا۔ اس کے جواب میں1779ء میں تالپور سرداروں نے کلہوڑا حکم راں ، نواب عبدالنبی کلہوڑو کو اقتدار سے معزول کرکے اس کے تمام اختیارات سلب کرلیے۔ نواب عبدالنبی وہاں سے فرار ہوکر قندھار پہنچا اوروہاں کے حاکم تیمورشاہ سے مدد کا طلب گار ہوا۔ تیمور شاہ نے اس کی بھرپور اعانت کی اور عبدالنبی افغانوں کے بڑے لشکر کے ساتھ سندھ واپس آگیا ۔1789ء میںہالانی کے میدان میں تالپوروں اور کلہوڑوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں تالپور فاتح رہے اور سندھ پر ان کی حکومت مستحکم ہوگئی۔ 1843ءمیں برطانوی فوج نے چارلس جیمر نیپئر کی زیر کمان حیدر آباد اور میر پور خاص میں میانی کی جنگ میںتالپوروں کو شکست دے کر ان کے اقتدار کا خاتمہ کردیا، لیکن اس کے خاندان کے بعض افراد سندھ میں اس کے بعد بھی خدمات انجام دیتے رہے، انہی میںسے ایک میر بندہ علی تالپور ہیں۔

ضلع بدین سے تعلق رکھنے والی میر بندہ علی خان تالپور1904میں ٹنڈو غلام علی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی جب کہ اعلیٰ تعلیم یورپ میں حاصل کی۔ وہ ا مغربی تہذیب و تمدن کےدل دادہ ہونے کے ساتھ مذہب سے گہری وابستگی رکھنے والے نفیس اور شریف النفس انسان تھے۔

بمبئی سے سندھ کےالحاق کے خاتمے کے بعد سندھ کےجو چیف ایگزیکٹومقرر ہوئے ان میں میر بندہ علی خان تالپور کا نام بھی شامل ہے جو 18 اپریل1940 کو سندھ کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور 7 مارچ1941 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ سیاسی طور پر میر بندہ علی خان تالپور کا تعلق آل انڈیا مسلم لیگ سے تھا ۔ ان کی جاگیر ایک لاکھ ایکڑ اراضی رقبےپر مشتمل تھی مگر اس کے علاوہ 80 ہزار ایکڑ رعیتی زمین کے بھی میر بندہ علی خان مالک تھے۔ میر بندہ علی خان تالپورکے آباء و اجدادنے ٹنڈو غلام علی شہر کو 1843 میں ایک چھوٹے سے گاوٗں کی صورت میں بسایا تھا اور یہ شہر آج بھی انہی کے نام سے معروف ہے۔میر غلام علی خان تالپور اپنے تمام کنبےکے ساتھ یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔انگریزوں نے ان کوایک بڑی جاگیر گزر بسر کے لیےدی تھی۔ ان کے آخری وارث میر محمد بخش تالپور تھے جن کی کوئی اولاد نہیں تھی اور میر بندہ علی خان ان کے بھانجے تھے، جنہیں انہوں نے گود لے رکھا تھا۔وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی وصیت میں میر بندہ علی خان تالپور کو اپنا وارث و جاںنشین نامزد کرکے دنیا سے رحلت فرما گئے تھے۔ میر بندہ علی خان تالپور دیار غیر سے اعلی تعلیم کے حصول کے بعد وطن واپس آئے۔ اس زمانے میں انگریزوں کے خلاف تحریکیں چل رہی تھیں۔ انہوں نے بھی تحریک آزادی میں شامل ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغازاوران کا شمار بلند پایہ منجھے ہوئے سیاستدانوں اور قائد اعظم کے قریبی رفقاء میں ہونے لگا۔ انہیں اپنے ہم عصر سیاست دانوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہوگئی تھی، جن میں سر حاجی عبداللہ ہارون، سر غلام حسین ہدایت اللہ، سر شاہنواز بھٹو، جی ایم سید، قاضی فضل اللہ، خان بہادر ایوب کھوڑو، میر غلام علی خان تالپور آف ٹنڈ و محمد خان، سید میراں محمد شاہ، اللہ بخش سومرو وغیرہ شامل تھے۔

میر بندہ علی خان تالپور نے تحریک آزادی کے علاوہ سندھ کی بمبئی سےعلیحدگی کی جدوجہد میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے1843ء میں میانی صاحب کے میدان میںمیں تالپوروں کے ساتھ جنگ میںسندھ پر قبضے کرنے کے 4 سال بعد1847 میںاسے بمبئی صوبہ میں شامل کیا تھا۔ سندھ اپریل1936 میں سندھ بمبئی سےعلیحدہ ہوا اور کراچی میںخود مختار اسمبلی اور حکومت قائم بنی جو 1947 تک برقرار رہی۔14اگست1947 کو تقسیم ہند کے نتیجہ میں وطن عزیز پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور سندھ پاکستان کا حصہ قرار پایا۔

پاکستان کے قیام کے بعدبھی میر بندہ علی خان تالپور نے ملکی سیاست میں سرگرم حصہ لیا تاہم بابائے قوم، قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور ان کے چند سال بعد قائد ملت، لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد انہوں نےسیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔آخری بار ان کو سیاسی منظرنامے پر اس وقت دیکھا گیا جب صدارتی انتخابات میں انہوں نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد ایوب خان کی پارٹی ، کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل، ذوالفقار علی بھٹو، میربندہ علی تالپور کو محترمہ فاطمہ جناح سے اپنی وابستگی کے اعلان دست بردار کرانے کے خصوصی مشن پر ٹنڈو غلام علی پہنچے۔ وزیر مواصلات محمد خان جونیجو(گورنرمیر محمد خان اور پیر صاحب پگارا کے نمائندے کی حیثیت سے) بھٹو صاحب کے ہمراہ تھے۔میر صاحب ان سے سندھی تہذیب کے مطابق روایتی اور پرتپاک اندازمیں ملے، لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کے انتہائی اصرار کے باوجود اپنے فیصلے سے دست بردار ہونے سے انکار کردیا۔

میر بندہ علی خان تالپور میںقدرت نے سیاسی مستقبل بینی کی بھی خداداد صلاحیت کوٹ کوٹ کربھر رکھی تھی، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب متحدہ پاکستان کے (70) کے آخری عام انتخابات میں انہوں نے بدین سے قومی اسمبلی کی وہ نشست خالی چھوڑ دی جہاں سے وہ باآسانی جیت سکتے تھے۔ میر صاحب کے فیصلے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے دیگر کئی حلقوں سمیت بدین کی اسی نشست پر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ میر صاحب کے اس فیصلے پر ان کے حلقہ احباب خاصے مایوس تھے اوران سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا تقاضا بھی کرتے رہے، تاہم میر بندہ علی خان تالپور کا کہنا تھا کہ ملک میں تبدیلی کی ہوا چل چکی ہے آنے والا وقت بھٹو کا ہوگا اور ان کی وہ پیش گوئی الیکشن کے نتائج میں درست ثابت ہوئی۔

تقسیم ہند سے قبل جب میر بندہ علی تالپور سندھ کے چیف ایگزیکٹو تھے تو انہوں نے اپنے دورحکومت میں سکھر کی مسجد منظر گاہ کی تعمیر کا تاریخی فیصلہ کیا جس پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا جسے میر صاحب نے اپنی حکمت عملی سے نمٹایا۔میر بندہ علی خان تالپور کے ٹنڈو غلام علی میں واقع یورپی طرز کے بنگلے میں جدید سازوسامان کے ساتھ قرآن پاک کے انگریزی ترجمے پر مشتمل نسخے بھی موجود رہتے تھے، جن کی تلاوت کرنا ان کا روزمرہ کامعمول بتایا جاتا ہے۔ میر بندہ علی خان تالپورمرتے دم تک اپنی ہر صبح کا آغازسائلین سے ملاقاتیں کرکے کرتے رہےاوردرجنوں ضرورت مندافراد کی درخواستیں وصول کرکے بغیر انہیں پڑھے، ان پر احکامات جاری کرتے تھے اور مذکورہ سائل کو اس کی مطلوبہ چیز یا رقم میر صاحب کے منشی سے اسی وقت مل جاتی تھی۔ میر بندہ علی خان تالپور سےجب ان کے رفقاء اس دریا دلی کے بارے میں سوالات کرتے تو وہ جواب دیتے کہ ’’ ہم نے کبھی کوئی تنکا تک نہیں توڑا اور نہ ہی محنت و مشقت کی ضرورت پیش آئی، مالک نے ہمیں خود ہی عطا کردیا، شاید اسی لئے عطا کیا ہے کہ ہم اللہ کی مخلوق تک ان کا حق پہنچائیں۔ان کے شناسا افراد کا کہنا ہے کہ وہ بہت خدا ترس انسان تھے۔ ا اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کی خصوصی اہمیت دل میںموجزن رہتی تھی۔ وہ اپنے ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کے علاوہ رہائش کے لیے گھر،ان کے اہل خانہ کے تناسب سے مہینے کا راشن(گیہوں،چاول) جسے سندھی میں ورو کہا جاتا ہے ، ان کے خاندان کے تمام افراد کو کوموسم کی مناسبت سےملبوسات کے جوڑے،،دودھ دینے والی گائے یا بھینس بھی دیتے تھے۔ اس مشفقانہ روئیے کے باعث ان کے ملازمین خوش حال زندگی بسر کرتے تھے۔ میر بندہ علی خان تالپور کے دو صاحبزاے ہیںجن میں بڑے کا نام میر غلام علی خان تالپور ہےجب کہ چھوٹے کا نام میر محمد حسن عرف میر بابو خان تالپور ہے۔

میر بندہ علی خان تالپور نے 71 برس کی عمر میں 1975 کو اس فانی دنیا سے کوچ کیا۔ ان کی نماز جنازہ میں سیکڑوںافراد نے شرکت کی۔ ان کےجسد خاکی کو شہرکی انتہائی قدیمی اور ان کی آبائی امام بارگاہ میر محمد حسن تالپور میں سپرد خاک کیاگیا۔ میر بندہ علی خان تالپور کی وفات کے بعد عرصہ دراز تک ان کےدونوں بیٹے سیاست سے کنارہ کش رہے۔ میر بندہ علی خان تالپور کے بڑے صاحبزادے میر غلام علی خان تالپور کے ملک سے کافی عرصہ باہر رہنے کے دوران ٹنڈو غلام علی کے عوام کی دلی خواہش اور ماضی میں تالپور خاندان کے کارناموں کی وجہ سے میر بندہ علی تالپور کےچھوٹے صاحبزادے ، میر محمد حسن عرف میر بابو خان تالپور یونین کونسل کے ناظم اور بعد ازاں دو بارپیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ٹنڈو غلام علی کے عوام کے مسائل حل کرائے، ٹنڈو غلام علی میں فلاح و بہبود کے کام کیے اور شہر کو مثالی شہر بنادیا، نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا۔

عوام کے دکھ درد دور کرنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے جس طرح سے میر بندہ علی تالپور کوشاں رہتے تھے، یہی جذبہ ان کے دونوں بیٹوں کے دل میں بھی موجود ہے ۔ میر غلام علی تالپور بیرون ملک کی رہائش کو خیر باد کہہ کروطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکرپاکستان واپس آگئے اور اب وہ اپنے گاؤں میں ہی رہتے ہیں، ٹنڈو غلام علی میں ان کے بنگلے پر آج بھی عوام کی پریشانیوں کے تدارک کے لیے ہر صبح دربار لگتا ہے، عوام کے مسائل سنے جاتے ہیں اورضرورت مندوں کی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علاقے میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ،جو ہر وقت ان پر جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتے ۔

غلام علی خان تالپور نے شہر میں نظام تعلیم، صحت اور صفائی سمیت فراہمی آب و نکاسی آب کے مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل کرائے ہیں۔اانہوں نے ٹنڈوغلام علی میں علم و ہنر کے فروغ کے لیے متعدد اسکول گود لئے ہیں۔ میر غلام علی خان تالپور کو ضلع بدین کی تعلیمی اصلاحی کمیٹی کے چیئرمین ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ تالپور خاندان کی نیک نامی اور ایثار و قربانی کا ہی ثمر ہے کہ ضلع کے بلدیاتی انتخابات میں میر غلام علی خان تالپور کانام زد کردہ پینل بلا مقابلہ منتخب ہوتا ہےجس کی مثال حالیہ بلدیاتی انتخابات ، ہیں جن میںتالپور خاندان کی حمایت یافتہ سماجی شخصیت حاجی محمد صدیق خاصخیلی کا پورا پینل انتخابات میں بلا مقابلہ جیتاہے۔ میر غلام علی تالپور 2018کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد اپنے آباءو اجداد کے بسائے ہوئے شہر کی ترقی اوراپنے مرحوم والد کے نقوش پا پر چلتے ہوئے وہاں کے باشندوں کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

تازہ ترین