• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹلی دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتا ہے، جس کی ایک وجہ ان سیاحوں کا یہاں ایک طرف جُھکے ہوئے ٹاور کے ساتھ ایسی تصویریں بنوانا ہے، جیسے وہ اسے سہارا دے رہے ہوں۔ اٹلی کی یہ جُھکی ہوئی عمارت پِیسا ٹاور ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جب بھی پِیسا ٹاور کو تلاش کریں گے، زیادہ تر آپ کو ایسی ہی تصاویر دیکھنے کو ملیں گی، جن میں لوگ اس گِرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیے کھڑے ہیں۔

مینار کی سب سے بڑی وجہ ِ شہرت اس کا ایک طرف جھکاؤ ضرور ہے لیکن صرف یہ ہی اس کی وجہ شہرت نہیں ہے، بلکہ یہ مینار رومن طرز تعمیر کا ایک شاہکار بھی ہے۔

مینار کے تعمیراتی خدوخال

اس تاریخی مینا رکا تعمیراتی کام8 اگست1173 ء کو شروع کیا گیاتھا۔ اس عجوبے کی 294 سیڑھیاں اور کُل 8منزلیں ہیں۔

پیسا مینار، چرچ کیتھیڈرل کی عمارت کا حصہ ہے جو اٹلی کے شہر پیسا میں واقع ہے۔ یہ اٹلی کے دارالحکومت سے چار سو کلو میٹر دور ایک خوبصورت شہرہے۔ بارہویں صدی میں بننے والی کیتھیڈرل عمارتوں میں سے ایک عمارت ’’پیسا ٹاور‘‘بھی ہے۔ یہ عمارت دنیا کےسات عجائبات میںسے ایک ہے۔قدیم رومن انداز میں اس ٹاور کا طرز تعمیر گرجا گھر کی وجہ سے خصوصی طور پر بنایا گیاتھا۔پیساٹاور​گرجا گھر کے حصے کے طور پر جانا جاتا ہے، جس میںایک قبرستان بھی موجود ہے۔

یہ مینار اپنے جھکاؤ کی طرف 183.27 فٹ جبکہ بلند ی کی طرف 186فٹ اونچاہے۔اس میں تاحال وہ پُرانی گھنٹیاں موجود ہیں جو اس کی تعمیر کے وقت لگائی گئی تھیں۔مگر اب وہ نا قابل استعمال ہو چکی ہیں۔اس حیرت انگیز شاہکار کی تعمیر 200سال یعنی 2صدیوں میں مکمل ہوئی۔تعمیر میں ہونے والی تاخیر کی وجہ اس میں ہونے والےمسلسل تعمیراتی مسائل تھے، جو وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے تھے۔جب اس مینار کی ایک منزل تعمیر ہو چکی تھی تو اچانک تعمیر اتی عملے کو معلوم ہوا کہ مینا ر ایک طرف مٹی میں دھنستا جا رہا ہے۔جس پر مزید تعمیر روک دی گئی اور 100سال تک یہ تعمیر محض اس لیے رُکی رہی کہ ماہرین کے مطابق مٹی پختہ ہونے کے بعد ہی دوسری منزل استوار کرنے کا آغازکیا جا سکے گا، کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ پہلی منزل کا جھکاؤ بھی مٹی کے خشک ہونے سے ختم ہو جائے گا۔ایسے جھکاؤ کو ختم کرنے کی کوششیں 1275ء میں کی گئی تھیں۔لیکن جب 1301ء میں اس کی تعمیر نو کا سلسلہ از سرنو شروع کیا گیاتو اس وقت تک اس کی 6منزلیں تعمیر ہو چکی تھیں۔ 1350ء میں مینا ر کی تعمیر کا عمل مکمل ہوا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ میناراپنی مقررہ جگہ سے اب تک 6میٹر جھک چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ ہر سال 0.25انچ یعنی ایک ملی میٹر کی رفتار سے جھک رہا ہے۔

حفاظتی وجوہات کے باعث بندش

اس مینا ر کو 1990ء میںحفاظتی وجوہات کے پیش نظرعوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ اس دوران مینار کے جھکاؤ کو روکنے کی مسلسل کوششیں کی گئیں، جس پر 20ملین پاونڈ کی رقم بھی خرچ کی گئی۔ ماہرین نے اس کی ایک جانب سے 70ٹن مٹی نکال لی ہے، جس کے بعد یہ مینار 48سینٹی میٹر تک سیدھا ہو چکا ہے اور اس نے حرکت کرنا بند کردی ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اب یہ مینار 300سال تک اپنا بوجھ برداشت کر سکے گا ۔

ایک دہائی تک اس کے جھکاؤ کو روکنے کی کوششیں کی گئیں اور بالآخر 2001ء میں اسے عوام کیلئے کھول دیا گیا۔ یہ وہی مینار ہے جس کی آخری منزل سے مختلف چیزوں کو گرا کر گیلیلیو نے کشش ثقل کے بارے میں اپنے تجربات کئے تھے۔

پیسا ٹاور آخر گِرتا کیوں نہیں؟

آپ نے دیکھا ہوگا کہ زلزلے کے نتیجے میں بظاہر اچھی خاصی مضبوط اورمستحکم نظر آنے والی عمارتیں چند سیکنڈ میں زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف جُھکا ہوا او رپانچ سو سال پرانا پیسا ٹاور آخر کسی بھی حادثے کے نتیجے میں گِرنے سے کیسے محفوظ رہتا ہے؟ اَرتھ کوئیک انجینئرنگ اور سُوائل اسٹرکچر کے ماہرین نے یہ معمہ بھی بالآخر حل کرلیا ہے۔

یونیورسٹی آف برسٹل کے 16انجینئرز کے گروپ کی تحقیق کا مرکزی پوائنٹ یہ تھا کہ 1280ء سے لے کر اب تک، جس خطے میں یہ ٹاور واقع ہے، وہاں کم از کم چار زوردار زلزلے وقوع پذیر ہوچکے ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ جھکا ہوا ٹاور ہر بار محفوظ رہتا ہے؟

اس ٹاور کی ایک طرف جھُکی ہوئی حالت کو دیکھتے ہوئے پہلی رائے یہی ہوتی ہے کہ کوئی بھی درمیانے درجے کا زلزلہ اس ٹاور کو شدید نقصان پہنچانے یا زمین بوس کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ حیران کن طور پر ابھی تک ایسا نہیں ہوا، جس پر اسٹرکچرل انجینئرز حیران ہیں۔

زلزلہ شناسی (سیسمولوجیکل)، جیو ٹیکنیکل اور اسٹرکچرل انجینئرنگ سے متعلق دستیاب تمام معلومات کا جائزہ لینے اور اس کے عملی اثرات پر غور کرنے کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پِیسا ٹاور کی بقاء کی وجہ ایک سائنسی رجحان یا کرشمہ قرار دیا جاسکتا ہے، جسے ڈائنامک سُوائل اسٹرکچر انٹرایکشن (DSSI) کا نام دیا گیا ہے۔

ٹاور کی قابلِ ذکر اونچائی اور سختی کے ساتھ جب اس کی بنیاد میں موجود مٹی کی نرمی اور لچک کو شامل کیا جاتا ہے تو کسی بھی لرزش کی صورت میں ٹاور کےڈھانچے میں اس طرح حرکت پیدا ہوتی ہے کہ وہ زمین میں پیدا ہونے والے زلزلے کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ 500سال پُرانے اس ٹاور کی بقاء کی بنیادی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محققین رپورٹ میں کہتے ہیں،’’اسے آپ خوش قسمتی کہیں کہ اس کی بنیاد میں شامل مٹی جو ابتدا میں اس کے جھکاؤ کی وجہ بنی تھی، وہی آج اس کی بقاء کی ضمانت بن چکی ہے‘‘۔

تازہ ترین