• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آبادی کا مقابلہ کرنے کیلئے یورپی یونین کو مالیاتی قوانین پر دوبارہ غور کرنا ہوگا

ولفگنگ منچا

برطانیہ کے یورپی یونین میں رکن رہنےکیلئے مہم کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سب سے اہم وجہ متوسط آمدنی والے ووٹرز کی متعدد مسائل کو سمجھنے میں عمومی ناکامی ہے۔یہ کوتاہی برطانیہ کے لیےنئی نہیں ہے۔ یہ لیٹ سائیکل سرمایہ داری کا ایک وسیع رجحان ہے۔

23 مئی سے 26 مئی کے دوران ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات سے پہلے یورپی یونین کی صورتحال ایسی دہری نہیں ہے جیسی کہ یہ تین سال قبل برطانیہ میں تھی۔ یورپی لبرلزم کی حمایت کے خلاف بغاوت کی کارروائی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ اس بار مرحلہ، یورپ بھر میں روایتی اعتدال پسندی جماعتیں تقریبا یقینی طور پر اکثریت برقرار رکھیں گی۔تاہم قوم پرست اعتدال پسند جماعتیں کئی رکن پارلیمان حاصل کریں گی، آئندہ یورپی پارلیمنٹ میں اہم فیصلے کے توازن کیلئے کافی مثبت اشارہ ہے۔ لہٰذا ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیسا ہونا چاہیے؟ جواب دینا آسان ہے لیکن اسے پورا کرنا مشکل ہے، مسئلہ حل کریں۔ میتوٹو سلوپینی کی لیگ، میرین لی پین کی نیشنل ریلی یا نگیل فارج کی بریگژٹ پارٹی میں جنگ کے بعد کے دور میں بے مثال اشتعال کا درجہ ان میں مشترکہ ہے، جس کی ووٹرز حمایت کرتے ہیں۔ اشتعال ایک طاقتور محرک ہے۔

برطانیہ اور اٹلی میں مثبت مجموعی قومی پیداوار کی ترقی مستحکم پیداوار اور حقیقی قابل خرچ آمدنی میں پوشیدہ ہے۔اگر آپ آمدنی گروپس کے مطابق قابل خرچ آمدنی کے ٹکڑے کریں،تو آپ دیکھیں گے کہ ان سب میں متوسط ووٹر باقی رہ جائیں گے۔ مستحکم اصل آمدنی بریگژٹ کا تنہا سبب نہیں ہے۔ یہاں نرم عوامل ہیں جو اعدادوشمار سے آسانی سے نہیں پکڑسکتے، تاہم شمالی اٹلی کے صنعتی انہدام کاری زونز اور شمالی انگلینڈ کے غریب طبقوں میں وہ نظر آتے ہیں۔

یورپ میں زیادہ تر حکومتوں کی سادگی کم آمدنی والے ووٹرز کی معاشی جدوجہد کے پیچھے ایک عنصر ہے۔اس پر غور کرنے کیلئے،یوروزون ممالک کو 1992 کے ماسٹرچ معاہدے میں سرایت کردہ مالی نظم ضبط پر نظرثانی کرنا چاہیے۔اس کے اور یورپی یونین کے درمیان بات چیت انتہائی پرو سائیکلیکل ہے۔

جب 2011 میں ماریو مونٹی اٹلی کے وزیراعظم بن گئے،انہوں نے خسارے کو مجموعی قومی پیداوار کیلئے ضروری 3 فیصد سے نیچے دھکیل دیا،حد جس کی اب تک خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ نتیجہ کے طور پر اٹلی 2013 میں یورپی یونین کے انتہائی ضروری خسارے کے طریقہ کار سے خود کو نکالنے میں کامیاب رہا، تاہم کافی بھاری قیمت پر ایسا کیا۔ اس پالیسی نے مرکزی دھارے کی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو ڈبودیا۔ اس کے برعکس اسپین اور پرتگال سادگی کی بدترین حدوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ دونوں ممالک کو اب اعتدال پسند بائیں بازو کی مرکزی جماعتیں چلا رہی ہیں۔ اسپین کے انتخابات میں پیڈرو سنچنچ اچھے نتائج حاصک کرنے میں کامیاب رہے اور ہرتگال کے وزیراعظم انتونیو کوسٹا اکتوبر کے انتخابات کے بعد اپنے عہدے پر برقرار رہتے نظر آتے ہیں۔

بظاہر جرمنی کا سیاسی مرکز غالب نظر آتا ہے۔ ملک کی بیروزگاری کی شرح 1980 کی نچلی ترین سطح پر ہے۔ تاہم انتہائی مالی استحاکم کی پالیسی نے جرمنی کو وسیع بیرونی سرپلس اور عوامی شعبے کی سرمایہ کاری کی گرانی میں چھوڑ دیا۔ اب جرمنی کے اپنے نافذ کردہ آئینی اصول،نام نہاد قرض کے وقفے کے مستقبل کے بارے میں بحث جاری ہے۔ جب جرمنی نے تقریبا دس سال پہلے تیزی سے مالی خسارے کو محدود کرنے کے لیے فیصلہ کیا ، مجھے تعجب ہوا کہ یوروزون ممالک نے اصول کے خلاف احتجاج نہیں کیا جویوروزون کے عدم توازن میں اضافے کا پابند تھا۔

دیگر کے ساتھ جرمن ماہر اقتصادیات کی جانب سے مسئلے کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ لیکن اصول کو تبدیل کرنا ناممکن نہیں تو یہ کافی مشکل ہوگا۔ دو سال قبل،اس وقت ملک پر حکمرانی کرنے والا عظیم اتحاد با آسانی یکجا ہوکر دو تہائی کی ضروری اکثریت سے آئینی قرض کا وقفہ منظور کرلیا۔اس کے بعد سے،اسے ختم یا تبدیل کرنے کیلئے جرمن پارلیمنٹ کے متعدد جماعتوں میں بٹنے نے دو تہائی اکثریت جمع کرنا مشکل ہوگیا۔ انتخابات سے پتہ چلتا ہے کہ 2017 کے انتخابات تک سیاسی طور پر پارہ پارہ کرنے کے عمل میں اضافہ ہوا۔

اگر سیاسی مرکز کی جماعتیں سیاسی انتہا پسندی کے مقاصد پر توجہ کرنا چاہتی ہیں، انہیں متعدد اقدامات میں سے پہلے قدم کے طور پر مالیاتی پالیسی کے بارے میں دوبارہ سوچنے سے آغاز کرنا چاہیے۔انہیں عام ووٹر کی معاشی اور سماجی حیثیت پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہوگی، جو مشینی عمل بننے اور امیگریشن کی وجہ سے دباؤ کے تحت مھسوس کرتا ہے۔ اٹلی میں اوسط آمدنی کمانے والا پہلے کشمکش میں ہے۔ اوسط آمدنی والا جرمن ووٹر کو ابھی بھی حفاظتی جال اور نسبتا استحکام حاصل ہے لیکن عالمی سپلائی چینز میں منتقلیوں اور ٹیکنالوجی جھٹکوں سے غری محفوظ ہے۔ سرمایہ کاری کے تحت پبلک سیکٹر نے ان کے عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے۔

اس ہفتے کے آغاز میں جرمنی کی مرکزی بائیں بازو کے گروپ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے یوتھ ونگ کے رہنما نے بی ایم ڈبلیو کی اجتماعی ملکیت کا مطالبہ کیا۔ یہ وقت کی ایک علامت ہے، جرمنی اور ایس پی ڈی نے 1950 کی دہائی سے اس طرح قوم پرستی پر بحث نہیں کی ہے۔

اگر ہمارے رہنما سیاسی انتہا پسندی کے خلاف جنگ ہارنے پر تلے ہوئے ہیں تو یہ کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ہر وقت تمام قوانین کے سات جڑے رہیں، اپنے خلاف جانے والے انتخابات کیلئے روس یا فیس بک کو اموردالزام ٹھہرائیں ، اور جب آپ اپنے آئندہ اجلاس کیلئے برسلز میں ہوں تو اصلاحات پر اعتراضات جاری رکھیں جو یوروزون کو بہتر کرسکیں۔ لیکن یہ بالکل وہی ہے جو ان میں سے کچھ اس وقت کررہے ہیں۔

تازہ ترین