• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلا سندھی مؤرخ جو شاعری میں بھی کمال رکھتا تھا

مر زاعیسیٰ خان ترخان، سندھ کے مقبول فرماںروائوں میں سے ایک تھا۔ جب اس نے974ھ میں وفات پائی تواس کا بیٹا مرزا محمد باقی تخت نشین ہوا ۔ یہ عادات واطوار میں اپنے باپ سے یکسر مختلف تھا۔ اس کو لوگوں کو پریشان کرنے اور ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے سے خوشی ہوتی تھی۔ جب شہنشاہ اکبر کی فوجوں نے بکھر پر حملہ کرکے اسے سندھ سے الگ کردیا تومرزا محمد باقی کے ہوش اڑ گئے اور اسے ٹھٹھہ میں اپنی حکومت کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ شہنشاہ اکبر کی فوجوں نے بکھر کا راستہ دیکھ لیا ہے، اب ان کو ٹھٹھہ میں داخل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔چنانچہ اس نے سیاسی مصلحتوں کو کام میں لاتے ہوئے چاہا کہ اپنی بیٹی کو اکبر کے حرم میں داخل کردے ۔ جب یہ بات اس کے رشتہ داروں کے علم میں آئی تو انہوں نے اسے ترخانیوں کی توہین پر محمول کیا اور تلواریں لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرزا محمد باقی نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنی بیٹی کو انتہائی قیمتی تحائف اور جہیز کے ساتھ شہنشاہ اکبر کی خدمت میں روانہ کردیا ۔ شہنشاہ اکبر، اگرچہ پڑھا لکھا نہیں تھا ، لیکن اس کی تربیت بیرم خان نے کی تھی اور اس کو ابوالفضل جیسے مشیر اورمربی ملے تھے ۔ وہ اس صورت حال کے پس منظر کو بخوبی سمجھ گیا تھا ، چونکہ اس کا ارادہ زیریں سندھ کے علاقوں کوبھی اپنے تصرف میں لانا تھا ، اس لئے اس نےمرزا محمد باقی سے رشتہ داری قبول نہیں کی،جس کے نتیجے میں یہ ترخانی شہزادی بے نیل ومرام واپس چلی آئی ۔ اس واقعہ کا فوری ردعمل یہ ہوا کہ مرزا باقی اپنے رشتہ داروں اور عوام کی نظروں سے گر گیا اور لوگ کھلے بندوں ا س کے خلاف باتیںکرنے لگے ۔

مرزا محمد باقی ان سیاسی کمزوریوں کے باوجود صاحبان علم وفضل کو بہت عزیز رکھتا تھا اور ان کے حسب حال سر پرستی اور قدردانی کرتا تھا ۔ چنانچہ جب اس نے اپنی تخت نشینی کے بعد سید احسن استر آبادی کی صاحب فنون وکمالات ہونے کی شہرت سنی تو اپنے متوسلین میں شامل کرلیا۔ سید احسن استر آبادی ، خاندان سادات سے تعلق رکھتے تھے، ان کے جداعلیٰ نے وہاں سے ہجرت کی تھی اورمغلوں کی ابتدائی گت وتاز کے زمانے میں ٹھٹھہ کو اپنا وطن بنایا تھا ۔ سید احسن استر آبادی نے انیس سال کا طویل عرصہ مرزا محمد باقی کی رفاقت اور سرپرستی میں گزارا۔ مرزا محمد باقی نے ان کی ہر ممکن طریقہ پر سرپرستی اور قدردانی کی ۔ چونکہ وہ ایک متشرح اور متقی بزرگ تھے، اس لئے عوام پر ان کا اثر بہت اچھا تھا ۔ مرزا محمد باقی آئے دن کی شورشوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کی طعنہ زنی سے تنگ آگیا ، جس کی وجہ سے اس نے اپنے پیٹ میں تلوار گھونپ کر خودکشی کرلی ، جس کے بعد سید حسن استر آبادی کسی اور امیر کا توسلا ڈھونڈنے کی بجائے گوشہ نشین ہوگئے ۔ ابھی ان کی گوشہ نشینی کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کے یہاں سنہ990ھ کے لگ بھگ ایک لڑکے کی ولادت ہوئی ، جس کا نام سید طاہر محمدرکھا گیا اس وقت ٹھٹھہ عالم اسلام کے نامور عالموں کا مرکز تھا ،بخد ، کوفہ، مصر، شام، عراق، اصفہان، مشہد اور اسی قسم کے دوسرے شہروں کے علما یہاں آکر اکٹھے ہوگئےتھے۔ایک مورخ کے بیان کے مطابق ٹھٹھہ کی چار سودرس گاہوں میں مختلف علوم وفنون کی تعلیم دی جاتی تھی ۔سید حسن استرآبادی نے اپنے بیٹے سید طاہر محمد کی تعلیم کا خصوصی انتظام کیا ۔اس کے باوجود اس کی ابتدائی تعلیم وتربیت کا حال تفصیل سے نہیں ملتا ہے ، جس کی بنا پر کوئی بات وثوق سے کہی جائے۔ البتہ یہ بات اس کے اپنے بیان سے واضح ہے کہ اس نے اپنے سلسلہ تعلیم کو نامکمل چھوڑ دیا تھا اور سنہ1015میں مرزا غازی بیگ بن مرزا جانی بیگ کی ملازمت اختیار کرلی تھی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ شہنشاہ جہانگیر نے1015ھ میں اپنی تخت نشینی کے بعد مرزا غازی بیگ کے عہدہ ومنصب میں اضافہ کیا اور اسے ٹھٹھہ کے علاوہ ملتان کی بھی صوبہ داری تفویض کردی تھی ۔ اس زمانہ میں ہرات کےحاکم حسین خان شاملونےقندھار کا محاصرہ کرلیا ۔شہنشاہ جہانگیر کواس کی خبر ملی تو اس نے مرزا غازی بیگ کو ایک علیحدہ فوج کے ساتھ حسین خان شاملو کی سرکوبی کے لئے قندھار جانے کی ہدایت کی ۔

سید طاہر محمد ، چونکہ مرزا غازی بیگ کے متوسلین میںسے تھا، اس لئے اسے مرزا غازی بیگ کے ہمراہ ٹھٹھہ سے قندھار روانہ ہونا پڑا چونکہ اس کو کسی بھی قسم کی معرکہ آرائی سے دلچسپی نہ تھی وہ میدان حرب وضرب میں اپنے جوہر دکھانے کی بجائے فکرو نظر کے دریچے کھولنا چاہتا تھا ۔ اس نے بڑی بے کیفی اور بے دلی کے ساتھ مرزا غازی بیگ کی ہم رکابی اختیار کی ۔ جب مرزا غازی بیگ نے ( جس کی عمر اس وقت26سال تھی) قندھار پہنچ کر حسین خان شاملو کو شکست دی اور شاہ عباس والی ایران سے مراسلات کے ذریعے دوستانہ تعلقات قائم کرلئے تو شہنشاہ جہانگیر نے اس کی وفاداری اور کارکردگی سے خوش ہوکر اس کے مراتب میں مزید اضافہ کیا ، اور قندھار کی صوبہ داری مرحمت کی جب سید طاہر محمد نے یہ دیکھا کہ مرزا غازی بیگ کے واپس لوٹنے کا امکان نہیں ہے تو اس نے اس سے اپنے ٹھٹھہ جانے کی اجازت چاہی ۔ مرزا غازی کا دربار عالموں، شاعروں، اور قصہ خوانوں کا دربار تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ سید محمد طاہر اس سے رخصت ہوکر ٹھٹھ چلاجائے ، لیکن جب اس نے بہت زیادہ خواہش ظاہر کی تو مجبورہوگیا ۔

سید محمد طاہر نے ٹھٹھہ پہنچنے کے بعد ایک بار پھر اپنا سلسلہ تعلیم وتربیت جاری رکھا اس نے مولانا محمد اسحاق بکھری سے علوم کی تعلیم وتربیت حاصل کی اس سے فراغت پانے کے بعد میرظہیر الدین شکرالہی شیرازی کی خدمت میں خاقانی اور انوری کے قصائد پڑھے ۔ اسکے بعد شعرگوئی پر توجہ دی اور ’’ نسیانی‘‘ تخلص اختیار کیا چنانچہ لوگ اسے میر طاہر محمد نسیانی پکارنے لگے ۔اس کے کچھ دنوں بعد سید طاہر محمد نسیانی خان، شاہ بیگ کے مصاحبوں میں شامل ہوگیا ۔ ایک دن اس سے عادل خان نے ترخانوں اور ارغونوں کے حالات کے بارے میں گفتگو کی اور کہا کہ ارغونوں اور ترخانوں نے سندھ پر حکومت کی ہے، لیکن ان کے حالات گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں کسی نے بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے اگر تم لکھو تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی ۔یہ بات سید طاہر محمد کے دل میں اتر گئی اور وہ کہنے لگا کہ وہ ترخانوں اور ارغونوں کی تاریخ ضرور لکھے گا لیکن وہ کسی وجہ سے اسے جلد مکمل نہیں کرسکا بعد میں جب مرزا غازی بیگ کا قندھار میں انتقال ہوگیا اور اس کی تفصیل لوگوں کے علم میں آئی تو سید طاہر محمد نے اپنی تاریخ لکھنا شروع کی ، جس میں اس نے سومرہ کے حالات سے لے کرمرزا شاہ حسن مرزا شاہ بیگ ، مرزا جانی بیگ اور میر غازی بیگ کی وفات تک کے حالات و واقعات لکھے ہیں۔

جب سید طاہر محمد نسیانی نے اپنی تاریخ مکمل کرلی تو اس کانام سندھ کے مورخین میں شامل ہوگیا اس طرح وہ پہلا سندھی مورخ تھا ، جس نے سندھ کے حالات اور واقعات پر قلم اٹھایا اس سے پہلے سندھ کے بارے میں کوئی تاریخ نہیں لکھی گئی تھی بعض لوگ منہاج المالک یعنی چچ نامہ کو سندھ کی پہلی تاریخ خیال کرتے ہیں۔ وہ سندھ کی پہلی تاریخ اس لئے قرار نہیں پاسکتی کہ اسے ابوبکر بن حامدالکومی نے عربی سے فارسی زبان کا لبادہ پہنایا تھا اور اس میں صرف محمد بن قاسم کے فتوحات اور راجہ داہر کے ساتھ لڑائیوں کے تذکرے رقم ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس سے سندھ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد کے حالات پرروشنی پڑتی ہے لیکن سید طاہر محمد نسیانی کی تاریخ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اسے ٹھٹھہ کے رہنے والے شخص نے لکھا اور تمام معاصرانہ تفصیل فراہم کی ہےجو دوسری تواریخ میں نہیں ملتی ہے۔ اس کے بعد تاریخ معصومی لکھی گئی لیکن اس میں اور اس کے بعد کی تما م تاریخی کتب کے حوالوں میںتاریخ طاہری سے استفادہ کیاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسےسندھ کی تاریخ میں بنیادی ماخذ کا درجہ دیاگیا ہے۔

تاریخ طاہری، سید طاہر محمد کا عظیم الشان کارنامہ ہے اس حیثیت سے اس نے سندھ کےتاریخ دانوںمیں جو شہر ت حاصل کی ہے وہ کسی اور کو نہیں مل سکی۔ طاہر نسائی کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ وہ شاعر بھی تھا ۔ میر علی شیر قانع نے مقالان الشعرامیں، شاعر کی حیثیت سے اس کا ذکر کیا ہے۔ اور س کی غزلوں کے بعض اشعار نقل کئے ہیں۔طاہر نسائی کی شاعری میں معیار کا اندازہ اس کے مختلف اشعار اور نظموں سے بھی ہوتا ہے ، جو اس نے اپنی اپنی تاریخ میں جابجا درج کئے ہیں۔اس کی مثنویوں میں ’’ نازونیاز‘‘ خاصی شہرت رکھتی ہے۔ اس میں اس نے عمر ماروی کا قصہ نظم کیا ہے جو سندھ کی عوامی کہانیوں میں سب سے زیادہ نمایاں مقام رکھتا ہے۔

سید طاہر محمد نسیانی نے 1051میں وفات پائی اور ٹھٹہ کے قریب مکلی کے قبرستان میں مدفون ہوا۔ 

تازہ ترین