• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

زوجۂ رسولؐ،امّ المومنین حضرت عائشہ کا لقب صدیقہ اور حمیرا، کنیت امّ عبداللہ تھی۔آپ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور امّ رومان بنت عامرؓ کی صاحب زادی تھیں۔ عرب میں کنیت رکھنا شرافت کا معیار اور علامت سمجھی جاتی تھی، اس لیے سیّدہ عائشہؓ کو اس کا زیادہ خیال ہوا۔ ایک دن انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا،یا رسول اللہ ﷺ عرب کی خواتین کنیت سے مشہور ہیں آپ ﷺ میری کنیت تجویز فرما دیں۔آپ نے فرمایا، تم اپنی کنیت عبداللہ کے نام کی نسبت سے ام عبداللہ رکھ لو۔ حضرت عبداللہ سیّدہ عائشہ ؓکے بھانجے تھے۔

سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قرن اوّل کے اُن چند گِنے چُنے افراد میں سے تھیں جن کی پیدائش ایک مسلمان گھرانے میں ہوئی۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی ولادت کے بعد اول دن ہی سے اپنے والدین کو مسلمان پایا۔ سیّدہ عائشہؓ بعثت نبوی کے چار سال بعد پیدا ہوئیں۔ یوں آپ کا سنِ ولادت 9 قبل ہجرت ہے۔

آپ ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک تھیں، جن کے کانوں نے کفرو شرک کی آواز تک نہیں سُنی۔ حضرت عائشہؓ کا بچپن حضرت سیّدنا صدیق اکبرؓجیسے عظیم المرتبت باپ کے زیرسایہ بسر ہوا۔ایامِ طفولیت ہی سے وہ عام بچّوں سے ممتاز تھیں۔آپ بے حد ذہین تھیں۔ اپنے بچپن کے ایّام کی تمام باتیں یاد تھیں۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی کوئی اور بات نہ تھی کہ ان کی صاحب زادی تاج دارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نکاح میں آئے۔ چناں چہ شوال کے مہینے میں پانچ سو درہم حق مہر پر آپ ﷺ کا نکاح ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خود خطبہ نکاح پڑھایا۔

سیّدہ عائشہ سے نکاح کے بعد آنحضرت ﷺ تین سال تک مکہ معظمہ میں رہے۔ حضور اکرم ﷺ کو سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے بے حد محبت تھی، حتیٰ کہ فضل و کمال اور دیگر اوصافِ حمیدہ کے اعتبار سے بھی آپ ﷺ کو سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ بے حد محبوب تھیں۔

ربیع الاول سن 11 ہجری میں رسول اللہ ﷺنے وفات پائی۔ تیرہ دن علیل رہے، پھر جب رسول اللہ ﷺمرض وفات شروع ہوا تو کچھ دن تک آپ ﷺ باری باری ازواج مطہراتؓ کے ہاں جاتے رہے، لیکن جب بیماری نے شدت اختیار کی اور آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہراتؓ سے اجازت چاہی کہ آپ ﷺ کی تیمارداری سیّدہ عائشہ ؓکے ہاں کی جائے، تمام ازواج مطہراتؓ نے اس بات کی اجازت دے دی۔ رسول اللہﷺ سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے ہاں تشریف لے آئے، پھر وصال تک آپ ﷺ انہی کے ہاں رہے۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓسورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھ کر رسول اللہ ﷺکے ہاتھوں پر دم کرتی تھیں۔

سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓمیں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کی رضا جوئی کی صفت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ وہ رسول اللہ ﷺکی خوشنودی کی خاطر ہمیشہ کمر بستہ رہتی تھیں۔ رسول اللہﷺ کے قرابت داروں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ پردے کا بڑا اہتمام فرماتی تھیں۔ نہایت فیاض، غریب پرور اور مہمان نواز تھیں۔ ایک مرتبہ عبداللہ بن زبیرؓ نے انہیں ایک لاکھ درہم بھیجے۔ انہوں نے اسی وقت سب رقم غرباء اور مساکین میں تقسیم کردی۔اس دن وہ روزے سے تھیں۔ شام ہوئی تو خادمہ نے کہا کہ ام المومنین کیا اچھا ہوتا کہ آپ نے اس رقم سے کچھ گوشت ہی افطار کے لیے خرید لیا ہوتا۔ عروہ ابن زبیرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس ستّر ہزار درہم کی رقم آئی۔ انہوں نے ان کے سامنے (یعنی عروہ کے سامنے) ہی ساری رقم راہ خدا میں خرچ کردی اور دوپٹے کا پلو جھاڑ دیا۔

حدیث، فقہ، شاعری، انساب، تاریخ عرب اور طب غرض ہر فن میں آپ کو کمال حاصل تھا، کیوںکہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر عمل کا بغور مطالعہ کرتی رہتی تھیں اور حضور ﷺکی باتوں کو نہ صرف شوق سے سنتی تھیں بلکہ ان کی جزئیات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ چناں چہ اس امر کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان سے پوچھا کہ حضورﷺکس طرح کلام فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ حضور ﷺ تم لوگوں کی طرح باتیں نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ اس طرح کلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص چاہتا تو بہ آسانی حضورﷺ کے کہے ہوئے الفاظ گن سکتا تھا۔

علمی حیثیت سے سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو نہ صرف مسلمان عورتوں بلکہ دوسری امہات المومنینؓ اور صحابہؓ و صحابیاتؓ پر فوقیت حاصل تھی۔ ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جسے ہم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس سے متعلق کچھ معلومات نہ ملی ہوں۔ امام زہری فرماتے ہیں: سیدہ عائشہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں۔ اکابر صحابہ ان سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ عروہ ابن زبیرؓ کا قول ہے قرآن، فرائض، حلال و حرام، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم، سیدہ عائشہؓ سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں دیکھا۔

امام زہریؓ فرماتے ہیں کہ اگر تمام مردوں کا اور امہات المومنین ؓکا علم ایک جگہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ ؓکا علم وسیع تر ہوگا۔نبی اکرمﷺ کے وصال کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔اس عرصے میں وہ عالم اسلام کے لیے رشدوہدایت اور علم و فضل کا مرکز بنی رہیں۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓسے دو ہزار دو سو دس احادیث مروی ہیں۔ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی ان سے منقول ہے۔

سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓکا شمار مجتہدین صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ اس حیثیت سے ان کا مقام اس قدر بلند ہے کہ ان کا نام حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ وہ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں فتوے دیتی تھیں۔ حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے تلامذہ کی تعداد دو سو تک بیان کی جاتی ہیں، جن میں متعدد اکابر صحابہ کرام کے علاوہ تابعین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔خطابت کے لحاظ سے بھی بہت ممتاز تھیں۔

سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓکی وفات منگل کی شب 17 رمضان المبارک 58 ہجری میں ہوئی۔ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا سنِ وفات 57 ہجری ہے۔ وفات کے وقت ان کی عمر تریسٹھ سال تھی۔حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کے گھر پر بہت سی مشعلیں روشن کی گئیں۔ آنے والی عورتوں کی اتنی کثرت تھی کہ گھر کے اندر اور باہر ہجوم اور جم غفیر دکھائی دیتا تھا۔سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے وصیت کی تھی کہ موت کے فوراً بعد مجھے دفن کردیں، چناںچہ رات ہی کو عشاء کی نماز کے بعد جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔ اس رات جنت البقیع میں اس قدر ہجوم تھا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ہجوم دیکھنے میں نہیں آیا۔

علم ودانائی کی باتیں

امّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:٭ کم کھانا تمام بیماریوں کا علاج ہے اور شکم سیری بیماری کی جڑ ہے۔٭مہمان کی خاطر زیادہ خرچ کرو، کہ یہ اسراف نہیں۔٭عبادتوں میں افضل ترین عبادت عاجزی ہے۔٭مصیبتوں کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کی حفاظت شکر کے ساتھ کرو۔٭آدمی کے برا ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ وہ اچھا ہے۔٭زبا ن کی حفاظت کرو کہ عزت اور ذلت کی یہی سزاوار ہے۔٭تمہارے لیے خیر اسی میں ہے کہ شر سے باز آجائو۔٭حق کا پرستار ذلیل نہیں ہوتا، چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہوجائے اور باطل کا پرستار عزت نہیں پاتا،چاہے چاند اس کی پیشانی پر نکل آئے۔٭جب معدہ بھر جائے تو فکر کمزور پڑجاتی ہے اور حکمت و دانائی کی صلاحیت گونگی ہوجاتی ہے۔٭عظمت صرف ایک فیصد ودیعت کی جاتی ہے اور ننانوے فیصد محنت و ریاضت سے ملتی ہے۔

تازہ ترین