• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح اٹھنے سے لے کر رات گئے بستر پر جانے تک ہر روز ایک جیسا معمول اپنائے رکھنا ہماری خواتین کی مجبوری یا ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ مگرسلام ہے ایسی خواتین کو جو اپنے خاندان کی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے خود کو بھولی بیٹھی ہیں اور اپنی ذات کی نفی کرکے اپنا "Me"ٹائم بھی گھر کو دے دیتی ہیںلیکن پھر بھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔ ماں، بہن، بیٹی یا بیوی ہونے کے ساتھ خواتین انسان بھی ہیں۔ انہیں بھی اسٹریس ہوسکتاہے، وہ بھی بیمار پڑ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ گھر والوں کی ساری ٹینشن بھی وہ اپنے ذہن پرسوار کرلیتی ہیں، جنہیں نکالنا اتنا ہی ضروری ہے، جیسے سانس کیلئے آکسیجن کا ہونا۔

بحیثیت خاتون خانہ ان کی عظمت سے انکار نہیں، تاہم دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے، جس سے نہ صرف انھیں اپنے آپ کو سمجھنے کا موقع ملے گا بلکہ وہ دوسروں کو بھی بہتر انداز سے سمجھ سکیں گی۔ اس طرح انھیں اپنی زندگی کی گاڑی آگے بڑھانے میں اوربھی لطف آئے گا۔ اپنا آپ کھوجنے، خود سے ملاقات کرنےاور اپنی ہی ذات سے کوئی بات کرنے کیلئے وقت نکالیں، پھر دیکھیں کیسے آپ اپنی زندگی سے لطف اٹھاتی ہیں۔

اپنے دماغ کو ’’ڈی کلٹر‘‘ کریں

ڈی کلٹر کا مطلب ہےصاف کرنا، چھان پھٹک کرنا، منظم کرنا وغیرہ۔ دراصل ہمارے دماغ میں وسوسے، خوف اور انزائٹی نے اکثر ہی بلاوجہ ڈیرہ ڈالا ہوتاہے اور وہ خواب جو ادھورے رہ جاتے ہیں، ڈرائونے خواب بن کر ڈراتے ہیں۔ لوگ ان چیزوں کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو دکھ دیتے رہتے ہیں، جو انہیں زندگی میں حاصل نہیں ہوئیں۔ ایسی تمام باتوں اور خیالات کو دماغ سے نکالیں، آدھا ایک گھنٹہ خالی الذہن بیٹھنے کی کوشش کریں، کوئی کتاب پڑھ لیں، ورزش کرلیں، اپنی پسند کا میوزک سن لیں وغیرہ وغیرہ۔ سب سے بہترین کام یہی ہے کہ آپ صرف اپنے بارے میں سوچیں۔ اگر آپ یہ کام روزانہ نہیں کرسکتیں تو ہفتے میں تین سے چار بار ضرور کریں۔

خود کو نظرا نداز نہ کریں 

ورکنگ ویمن اپنےا ہداف پورے کرنے کیلئے دفتری امور میں مصروف رہتی ہیں جبکہ گھریلو خواتین گھر والوں کو خوش رکھنے کے چکر میںگھن چکر بنی رہتی ہیں۔ اگر وہ خود پر دھیان نہیں دیں گی، اپنے بارے میں نہیں سوچیں گی، مصروفیت میں یا جان بوجھ کر خودکو نظر انداز کرتی رہیں گی تو اس سے ان کی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت بھی متاثر ہونے لگے گی اور ایک دن آئے گا کہ وہ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گی۔ انھیں بہت سے مسائل جیسے ڈرائونے خواب، توجہ بھٹکنا اور کاموںمیں گڑبڑ ہوجانا وغیرہ کا سامنا ہو سکتاہے۔ ان کے دماغ میں منفی سوچیں جنم لینا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آ پ اپنے لیے وقت نکالیں اور اپنے سراپے پر توجہ دیں، نہ کہ گھر داری کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے روبوٹ کی طرح زندگی گزارتی چلی جائیں۔ اپنے آپ کو نظر انداز کرنا چھوڑیں اور اپنی صحت، خوراک، نیند اور سماجی زندگی پر توجہ دینا شروع کریں۔

’’می ٹائم‘‘ سے اسٹریس دور کریں

اپنے اندر سے اسٹریس ختم کرنے کا میکینزم آپ کے جسم و دماغ میں ہوتا ہے۔ ’’می ٹائم ‘‘ خود کو سمجھنے اور اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرنے میں مدد کرتاہے۔ حقیقت میں، یہی ’’می ٹائم‘‘ آپ کو بحرانوں سے نکالتا ہے، آپ کے مسائل کا انوکھا حل بتاتا ہے۔ صرف آپ ہی نہیں، ہر وہ شخص جو مسائل میں الجھا ہوا ہے، اسے می ٹائم یا وقفے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرآپ سمجھتی ہیں کہ گھر والوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارنے سے یا اپنا وارڈ روب ٹھیک کرنے سے آپ کو اس حوالے سے مدد مل سکتی ہے تو آپ غلط ہیں۔ زندگی میں کچھ لمحات ایسے ہوتےہیں، جب آپ کو صرف خود سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اورآپ کے مافی الضمیر (conscience)سے بڑھ کر آپ کی کوئی مد د نہیں کرسکتا۔

’می ٹائم‘ آپ کا ہی ٹائم ہے

ورکنگ مدر ہو یا فل ٹائم گھریلو مائیں، ان کو اپنے لئے فرصت کا ایک لمحہ بھی نصیب نہیں ہوپاتا، جس سے ان کا اسٹریس بڑھتا چلا جاتاہے۔ ’می ٹائم‘دراصل آپ کو ایسے ہی ریچارج کرتاہے، جیسے آپ موبائل فون ریچارج کرتی ہیں۔ بہت سی خواتین زندگی کی ترجیحات میں سے اپنی ذات کو نکال باہر رکھتی ہیں۔ بہت سی خواتین ایک جیسے معمولات گزارتے گزارتے نروس بریک ڈائون کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔ آپ کو ’می ٹائم‘ کی دستیابی کیلئے آ پ کے شریک حیات کو بھی سوچنا چاہئے۔ آپ خود کا خیال رکھیں گی تبھی تو ایک اچھی ماں کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاپائیں گی۔ جس طرح بھوک میں آپ کے معدے کو کھانے کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح ذہن کو بھی چاہئےکچھ نیا، کچھ مختلف، کچھ ایسا جو پہلےکبھی نہ کیا ہو اور اس سب کیلئے آپ باہر جاسکتی ہیں، مراقبہ کرسکتی ہیں، کسی دوست سے ڈھیروں باتیں کرسکتی ہیں، سیلون یا پارلر جاکر اپنا ہیئر اسٹائل تبدیل کرواسکتی ہیں، پیڈی کیوراور مینی کیور کرواتے ہوئے ریلیکس کرسکتی ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ خود کو تازہ دم محسوس کریں گی اور پھر سے نئی توانائی کے ساتھ اپنی فیملی کو ٹائم دینے لگیں گی، لیکن آخری بات وہی کہ اپنے لئے ہفتے میں چار سے پانچ بار ’می ٹائم‘ نکالیں اور خود کو کھوجیں۔

تازہ ترین