• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

عالمی کپ کرکٹ، جوش و جذبات، نئے ریکارڈ، تماشائیوں کا جنون

انگلینڈ اور ویلز کے میدانوں پر آج30 مئی سے شروع ہونے والے ورلڈ کرکٹ کپ کے مقابلوں میں14جولائی کو لارڈز میں فائنل میں جیتنے والی ٹیم کو چالیس لاکھ ڈالر جب کے دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کو بیس لاکھ ڈالر کی انعامی رقم دی جائے گی۔مجموعی طور پر اس سال آئی سی سی اس ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی ٹیموں کو ایک کروڑ ڈالر کے نقد انعامات تقسیم کرئے گی۔سیمی فائنل میں حصہ لینے والی ٹیموں کو آٹھ لاکھ ڈالر دیے جائیں گے۔ یہ ٹورنامنٹ چھیالیس دن تک جاری رہے گا اور اس انگلینڈ اور ویلز کے گیارہ میدانوں پر اس کے میچ کھیلے جائیں گے۔دوسرے مرحلے تک پہنچنے والی چھ ٹیمیں ایک ایک لاکھ ڈالر کی انعامی رقم کی حقدار ہوں گی۔فائنل اور سیمی فائنل کے علاوہ اگر باقی تمام میچوں کی انعامی رقوم کو جمع کر لیا جائے تو فائنل کی فاتح ٹیم اس ٹورنامنٹ سے تقریباً پچاس لاکھ ڈالر کی رقم جیب میں لے کر اپنے وطن واپس لوٹے گی۔ ان مقابلوں کے دوران سنسنی خیز لمحات ،جوش و جذبات، نت نئے ریکارڈ ، کھلاڑیوں کے فتح اور ناکامی سے دوچار چہرے، تماشائیوں کا جنون عروج پر ہوگا،آسٹریلیا اب تک سب سے زیادہ پانچ مرتبہ ورلڈ کپ کی فاتح رہ چکی ہے جبکہ بھارت اور ویسٹ انڈیز دو دو مرتبہ فائنل میں کامیابی حاصل کر سکیں ہیں۔ پاکستان اور سری لنکا نے ایک ایک مرتبہ فائنل میں ٹرافی اٹھائی ہے۔ اب تک ہونے والے گیارہ عالمی کپ مقابلوں میں سے آسٹریلیا سات فائنل کھیلنے کا اعزاز رکھتی ہے۔پاکستان نے1992میں عمران خان کی قیادت میں آسٹریلیا نیوزی لینڈ میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ 25 مارچ 1992 کو کھیلے گئے فائنل میں پاکستان کے قائد عمران خان نے 7500 پاؤنڈ کی لاگت سے بنی ٹرافی اٹھائی جب ان کی ٹیم نے انگلینڈ کو 27 رنز سے شکست دی تھی۔اس بار ورلڈ کپ 1992کے فارمیٹ کے تحت ہورہا ہے۔دنیا کی دس ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف ایک ایک میچ کھیلیں گی۔نو گروپ میچوں کے بعد چار ٹاپ ٹیمیں سیمی فائنل میں کوالی فائی کریں گی۔چار سال قبل آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کی تھی۔2015کے ورلڈ کپ کے آغاز میں پاکستانی ٹیم کے وکٹ کیپر عمر اکمل تھے اور سرفراز احمد کو ٹیم میں جگہ بنانے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ابتدائی میچوں کے بعد جب ٹیم جنوبی افریقا کے خلاف آکلینڈ میں اہم ترین میچ کھیلنے پہنچی تو اس وقت تک میڈیا سرفراز احمد کے لئے مہم تیز کرچکا تھا۔شائقین کرکٹ بھی مصباح الحق اور وقار یونس کی سلیکشن پالیسیوں سے ناراض تھے۔اسی دباو میں آکر سرفراز احمد کو میچ کھلانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ اننگز اوپن کریں گے۔سرفراز احمد نے جب اپنے سنیئر معین خان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ منع نہ کرو اننگز اوپن کرانے کی حامی بھرلو،سرفراز احمد نے دنیا کے بہتر ین پیس اٹیک کے خلاف تیز پچ پر اوپنر کی حیثیت سے 49رنز بنائے اور پانچ کیچ لے کر پاکستان کی جیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔قسمت کی دیوی سرفراز احمد پر مہربان تھی اور وہ مین آف دی میچ بن گئے۔اس جیت کے ساتھ ہی پاکستان ٹیم اگلے میچ کھیلنے آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ پہنچی۔جہاں اس کا مقابلہ آئرلینڈ سے تھا یہ وہی آئر لینڈ ٹیم تھی جس نے2007کے ورلڈکپ میں جمیکا میں پاکستان کو شکست دی تھی اور شکست کے غم سے کوچ باب وولمر کا انتقال ہوگیا تھا۔سرفراز احمد نے ایڈیلیڈ اوول میں آئر لینڈ کے خلاف سنچری بناکر پاکستان کو کوارٹر فائنل میں پہنچا دیا۔ورلڈ کپ کے ان دومیچوں سے سرفراز احمد کی قسمت نے پانسہ پلٹا اور پھر چار سال سے سرفراز احمد پاکستانی ٹیم کے لئے تینوں فارمیٹس میں ناگزیر ہیں۔2016میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے انہیں ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان بنایا اب سرفراز احمد ٹیسٹ اور ون ڈے کے بھی کپتان ہیں۔سرفر ازاحمد کی کپتانی میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے2017میں آئی سی سی چیمپنز ٹرافی جیتی اور اس وقت پاکستان ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ایک ہے۔سرفراز احمد قسمت کے دھنی ہیں۔انہوں نے مشکل ترین حالات اور سخت مخالفت کے باوجود اپنے کیئریئر میں کئی اعزاز ات جیتے ہیں۔ان کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم آئی سی سی انڈر19ورلڈ کپ جیت چکی ہے اور اس سال کراچی میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پاکستان سپر لیگ کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔اب سر فراز احمد کی نظریں2019کے ورلڈ کپ پر مرکوز ہیں۔پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے مشن ایمپوسیبل کو پوسیبل بنانا چاہتی ہے۔سرفراز احمد پر امید ہیں کہ پاکستانی ٹیم ان کی کپتانی میں یہ ٹائٹیل بھی جیتے گی۔ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم اپنا پہلا میچ 31مئی کو ٹرینٹ برج ناٹنگھم میں دو بار کی سابق چیمپئن ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ سے کرے گی۔سرفراز احمد اپنی زندگی کا دوسرا ورلڈ کپ کھیلیں گے۔پاکستان ٹیم میں پانچ کھلاڑی کپتان سرفراز احمد، شعیب ملک، محمد حفیظ، وہاب ریاض اور حارث سہیل ایسے ہیں جنہیں اس سے قبل بھی ورلڈ کپ کھیلنے کا تجربہ ہے جبکہ 10 کھلاڑی پہلی بار ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔پاکستان ورلڈ کپ میں اپنی مہم شروع کرنے سے قبل دس لگاتار ون ڈے اور تین لگاتار ون ڈے سیریز ہار چکا ہے۔آسٹریلیا کے ہاتھوں پانچ صفر سے کلین سوئپ اور انگلینڈ سے چار صفر سے وائٹ واش ہونے والی ٹیم میں دو بار تبدیلی کی گئی ہے۔پاکستانی فیلڈنگ انگلینڈ کی سیریز میں کئی سوالات چھوڑ گئی ہے جبکہ بولنگ لائن نے بھی مایوس کیا ہے۔ انضمام کی سلیکشن کمیٹی نے ورلڈ کپ کے لیے اسکواڈ میں تین تبدیلیاں کرتے ہوئے فہیم اشرف، جنید خان اور عابد علی کو ڈراپ کر کے محمد عامر، وہاب ریاض اور آصف علی کو پندرہ رکنی اسکواڈ میں شامل کیا ہے۔اکستانی ٹیم میں ان تبدیلیوں کی بظاہر وجہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بولنگ کی ناکامی ہے۔ پاکستان کو اس سیریز میں چار صفر سے شکست ہوئی ہے۔چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بولنگ میں تجربے کا فقدان نظرآیا لہٰذا محمد عامر اور وہاب ریاض کی شکل میں دو تجربہ کار بولرز کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ محمد عامر نے دو سال قبل چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں میچ وننگ کارکردگی کے بعد سے اب تک 14 ون ڈے میچوں میں صرف پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں جن میں سے نو میچ ایسے ہیں جن میں انہیں ایک بھی وکٹ نہیں مل سکی ہے۔محمد عامر کو ان کی مایوس کن کارکردگی کے بعد ابتدائی ٹیم میں جگہ نہیں ملی تھی ، انہیں انگلینڈ کے دورے پر لے جایا گیا تھا تاہم چکن پاکس کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ انگلینڈ کے خلاف ایک بھی ون ڈے میچ نہیں کھیل سکے۔ پہلے ون ڈے میں وہ ٹیم کے رکن تھے لیکن وہ میچ بارش کی نذر ہو گیا تھا۔محمد عامر کی حالیہ کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سال قبل چیمپینز ٹرافی کے فائنل کے بعد سے وہ 14 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں صرف پانچ وکٹیں حاصل کر پائے ہیں جن میں سے نو میچ ایسے بھی ہیں جن میں انھیں ایک بھی وکٹ نہیں مل سکی۔آصف علی بھی عامر کی طرح ابتدائی اسکواڈ میں شامل نہیں تھے تاہم وہ انگلینڈ کے خلاف حالیہ دورے میں ساؤتھمپٹن اور برسٹل کے ون ڈے میچوں میں نصف سنچریاں بنا کر کپتان اور کوچ کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ رواں برس ہی قومی ٹیم کا حصہ بننے والے عابد علی کی جگہ ا سکواڈ میں آئے ہیں جنھیں انگلینڈ کے خلاف ایک ہی میچ کھیلنے کا موقع ملا جس میں وہ قابلِ ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔محمد عامر کی طرح وہاب ریاض کی ٹیم میں شمولیت بھی چونکا دینے والا فیصلہ ہے۔ وہاب ریاض دو سال سے ون ڈے ٹیم میں شامل نہیں تھے۔ انھوں نے اپنا آخری ون ڈے انٹرنیشنل چیمپیئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف ایجبسٹن میں کھیلا تھا جس میں وہ بولنگ کرتے ہوئے ان فٹ ہو گئے تھے لیکن اس سے قبل وہ آٹھ اعشاریہ چار اوورز میں 87 رنز دے چکے تھے۔ورلڈ کپ میں پاکستانی جیت کا انحصار بولنگ لائن کی کارکردگی،اچھی فیلڈنگ اور بیٹنگ لائن کی مستقل مزاجی پر ہوگا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو یقین ہے کہ ورلڈ کپ میں ٹیم اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی دکھائے گی۔سرفراز احمد نے کہا کہ جب آپ فیورٹ کے طور پر کسی میگا ایونٹ میں جاتے ہیں تو مسئلہ ہوتا ہے لہذا انڈرڈاگ رہنے کا فائدہ ہوتا ہے۔س ٹیم کے پندرہ کے پندرہ کھلاڑی ٹرمپ کارڈ ہیں اور کسی ایک کھلاڑی پر انحصار نہیں کیا جارہا بلکہ ہر کھلاڑی کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔ ٹیم نے اس عالمی مقابلے کے لیے جو سخت محنت کی ہے وہ میدان میں نظر آئے گی۔انھوں نے کہا کہ محمد حفیظ اور شعیب ملک ٹیم کے دو سینئر کھلاڑی ہیں اور ان کے وسیع تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔سرفراز احمد نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ ٹیم کی تشکیل میں ان کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ ٹیم تیار کرتے وقت سب کی مشاورت شامل ہوتی ہے۔سرفراز احمد نے کہا کہ ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے جو ملاقات کی تھی اس میں انھوں نے ٹیم کو یہی مشورہ دیا کہ دلیری اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کھیلنا۔سرفراز احمد نے کہا کہ وہ ورلڈ کپ کے تمام نو میچوں کو ایک جیسی اہمیت کے ساتھ کھیلیں گے صرف بھارت کے خلاف میچ پر ہی نظر نہیں ہوگی۔ورلڈ کپ مقابلوں میں بھارت سے کبھی نہ جیتنے کے بارے میں سوال پر سرفراز احمد نے کہا کہ ’ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے دو سال قبل چیمپینز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کو بھاری فرق سے شکست دی تھی۔سرفراز احمد نے فٹنس ٹیسٹ پاس نہ کرنے کے باوجود عماد وسیم کو ٹیم میں شامل کیے جانے کے بارے میں کہا کہ فٹنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا ہے۔عماد وسیم نے ایک کے سوا تمام فٹنس ٹیسٹ کلیئر کیے ہیں، ان کے گھٹنے کا مسئلہ ہے اور انہیں ٹیم کے کامبی نیشن میں اہمیت کے پیش نظر شامل کیا گیا ہے۔مکی آرتھر تین سال پہلے پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ بنے تھے ورلڈ کپ کی کارکردگی ان کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گی۔مکی آرتھر سے جب ورلڈ کپ کے بعد ان کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ اس کا انحصار پاکستان کرکٹ بورڈ پر ہوگا۔یاد رہے کہ مکی آرتھر اور دیگر کوچنگ ا سٹاف کا معاہدہ ورلڈ کپ تک کا ہے۔مکی آرتھر کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کھلاڑیوں پر مکمل بھروسا ہے اور ٹیم اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گی۔ ان کی پہلی ترجیح ہوگی کہ لیگ میچوں میں کامیاب ہوکر سیمی فائنل لائن اپ میں جگہ بنائی جائے۔ اگر کنڈیشنز خشک ملیں تو ہمارے بولرز کو ریورس سوئنگ کا موقع ملے گا۔مکی آرتھر نے کہا کہ بابراعظم ایک باصلاحیت بیٹسمین ہیں جن کا کردار بہت اہم ہوگا۔ یہ ٹیم فرد واحد پر انحصار نہیں کرتی بلکہ یہ پندرہ کھلاڑیوں کی ٹیم ہے۔ورلڈ کپ کا مشن شروع ہوچکا ہے۔پاکستانی ٹیم انگلینڈ میں ہے اور چار ون ڈے میچوں کی شکست نے ٹیم انتظامیہ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔مکی آرتھر نے کہا کہ ہم دنیا کی نمبر ایک ٹیم انگلینڈ سے مقابلہ کررہے تھے تاہم بیٹنگ لائن کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔ پاکستان نے تقریباً ہر میچ میں 300 سے زائد رنز بنائے جس سے بیٹنگ لائن کی اچھی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جب ہم یہاں آئے تو لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم 280 رنز کی ٹیم ہیں، ہم نے اس تاثر کو ختم کیا، بیٹنگ لائن کی کارکردگی سے مجھے اطمینان ملا ہے اور میں اچھی کارکردگی کے لیے پر امید ہوں۔فیلڈنگ پر مجھے تشویش ہے۔ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کھلاڑیوں،ٹیم انتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گی اگر پاکستانی ٹیم نے توقعات پوری نہ کیں تو پھر کئی لوگوں کو گھر رخصت ہونا پڑے گا اور پھر نئے پاکستان میں نیا کرکٹ کلچر سامنے آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین