• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن مافیا کی وجہ سے عمرکوٹ ضلع میں منشیات کا کاروبار عروج پر ہے۔ شہروں، قصبات، گاؤں ، گوٹھوں میں یہ زہر کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے اور اس مذموم دھندے کو مبینہ طور پر بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہےجس کی وجہ سے پولیس اور ایکسائز جیسے ذمہ دار ادارے خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ عمر کوٹ کا ضلع جو حیدرآباد کے مشرق میں 140کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے، ماروی سے منسوب لوک داستانوںکی وجہ سےمعروف ہے۔عمر کوٹ کو سندھ کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہےاور یہ شہررومانوی داستانوں کے علاوہ بعض تاریخی قصے بھی اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے ۔ جب افغان حکم راں شیر خان نے ہندوستان پر حملہ کیا اور مغلیہ سلطنت کے دوسرے باشاہ ، ہمایوں کو شکست دے کرتاج و تخت پر قبضہ کرنے کے بعد شیرشاہ سوری کا لقب اختیار کیاتو ہمایوں کو وہاں سے جان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کرنا پڑی تھی۔ ہمایوں بادشاہ نے ہندوستان سے نکل کر لاہور کی راہ لی مگر افغان فوج نےاس کا پیچھا کیا اور وہ یہاں سے بھاگ کر ملتان جا پہنچا ،مگر اسے وہاں سے بھی نکلنا پڑاوہ سندھ میں عمر کوٹ پہنچا اور اپنی شکست خوردہ فوج کے ہمراہ عمرکوٹ کے سرکاری باغ کے نزدیک پڑاؤ ڈالا ۔یہیں اکبر کی پیدائش ہوئی جو سلطنت مغلیہ کا تیسرا بادشاہ بنا اور اپنے کارناموں کی وجہ سے’’ مغل اعظم ‘‘ کا لقب اختیار کرکے شہرت پائی۔ پریشان حال مغل بادشاہ ہمایوںنےاپنے فرزندکی پیدائش کی خوشی میں مشک نافہ کی ڈلی توڑ کر اپنے ہم راہیوں میں تقسیم کی ،ہمایوں بادشاہ کے پاس شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد کچھ نہ بچا تھا اس وجہ سے اس نے مشک نافہ تقسیم کیا ۔ عمر کوٹ کے راجہ کو اپنے مخبروں کے ذریعے ہمایوں بادشاہ کے عمر کوٹ آنے کی خبر ملی تو وہ خود جلاوطن بادشاہ کےاستقبال کے لیے آیا اوراسےخوش آمدید کہا۔ افغانوں نے ہمایوں کو یہاں بھی چین سے نہیں رہنے دیا جس کے بعد وہ ایران میں پناہ گزین ہوا۔ ایران کے بادشاہ طہماسپ نے اسے خوش آمدید کہا اور ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ۔ اس کا بیٹا اکبر اپنے چچا کامران مرزا کے ہاتھ لگ گیاجس نے اس کی پرورش کی۔ عمرکوٹ قصبہ کی مغربی سمت میں اکبر کی جائے پیدائش کے مقام پر ایک یادگار بھی قائم ہے۔ علاوہ ازیں یہاں کا مشہوراور قدیم قلعہ عمرکوٹ بھی سیاحوں کے لیے پرکشش حیثیت رکھتا ہے ۔بے شمار تاریخی حوالوں سے مشہور سندھ دھرتی کے اس قدیم شہر کو گزشتہ چند سالوں سے کرپٹ مافیا نے اپنے زیر تسلط رکھاہوا ہے۔ کرپٹ مافیا کی وجہ سے شہر میں منشیات کا کاروبار بھی زور پکڑ گیا ہے۔ ویسے تو یہ کاروبار سالہا سال سے جاری ہے لیکن اس کے خلاف وقتاً فوقتا ً کارروائیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔24جنوری 2015میں ڈپٹی کمشنر عمرکوٹ نے منشیات کے خلاف ایک سیمینار میں اس زہر سے نجات اوراپنے عملے کو ضلع کے تمام تعلقوں میں اینٹی نارکوٹکس ری ہیلی ٹیشن سینٹر، سری جے انسٹیٹوٹ آف سائیکولوجی سینٹرزکو قائم کرنے کی ہدایت دی تھی ،اس موقع پر انہوں نے منشیات کی روک تھام کے لیے ایک آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔سماجی حلقوں کے مطابق ڈپٹی کمشنر کا خطاب محض لفظی بیان بازی سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوا اور منشیات فروشی کا کاروبار عروج پکڑتا رہا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کھلے عام یہ شرم ناک کاروبار کررہےہیں۔ 5جنوری 2016کو اللہ والا چوک پر معذور ایسوسی ایشن کے صدر محبوب خاصخیلی کی قیادت میںپولیس کی سرپرستی میں چلنے والے منشیات اور گٹکے کے اڈوں اور اس کی فروخت کے خلاف دھرنا دیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑک بند کر دی جس کے باعث کئی گھنٹے ٹریفک معطل رہی تھی۔26جنوری 2018کوعمر کوٹ کی حدود میں مقامی پولیس کی جائے میرپور خاص پولیس نے منشیات کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کی تھی ۔ ڈی آئی او ایکسائز پولیس میرپورخاص نے خفیہ اطلاع پر عمرکوٹ کے شہر بچابند کے مقام پر کار کی تلاشی کے دوران 10 کلو افیون برآمد کرکے 2ملزمان کو گرفتارکر لیا۔پولیس نے گرفتار ملزمان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیاتھا۔منشیات فروشوں عبدالرحیم بروہی اور محمد فاروق بروہی نےگرفتاری کے بعد ذرائع ابلاغ کے سامنے انکشاف کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ نواب شاہ سے عمرکوٹ افیون اسمگلنگ کرتے ہیں،انہوں نے مزید بتایا کہ ہم اس سے پہلے بھی افیون کی اسمگلنگ کرچکے ہیں لیکن اس بار پکڑ میں آ گئے ۔

یہ بات تشویش ناک ہے کہ عمر کوٹ پولیس کی جانب سے منشیات فروشوں کی بیخ کنی اور ان کے اڈوں کے خاتمے کے لیے اب تک کوئی بھی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی شاید اس کی وجہ مبینہ طور سے بااثر شخصیات کی مداخلت ہے۔ قابل افسوس امریہ ہے کہ منشیات کا کاروبار رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی جاری ہے اور نشے کے عادی افراد کھلے عام نشہ کرتے دیکھے جاسکتےہیں ۔ احترام رمضان آرڈیننس کی موجودگی کے باوجودپولیس کی جانب سے نہ تو منشیات فروشوں اور نہ نشے کے دھتی افراد کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔عمرکوٹ ضلع کےتمام شہروں چھور، کنری، ڈھورونارو سامارو، پتھورو اور دیگرقصبات و گاؤں میں منشیات فروشی کا کاربار جاری ہےجس میں سرعام چرس،زہریلی شراب ،افیون فروخت کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ زہریلے گٹکے، سفینہ ظفرانی 2100 مین پوڑی عمرکوٹ میں ہی تیار کیے جارہے ہیں اور ان کے کئی کارخانے دن رات مضر صحت گٹکے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ مذکورہ کاروبار کو بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن پولیس کو بھی ہر ماہ باقاعدگی سے بھتہ دیا جاتا ہے۔باوثوق درائع کے مطابق شہر میں چلنے والے کچھ شراب کے اڈے پولیس اہل کاروں کی ملکیت ہیں۔ زہریلی شراب اور گٹکے سفینہ کی وجہ سے دل ، جگر،گردوں کے عوارض اور منہ کے کینسر میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران عمرکوٹ، کنری، سامارو سمیت دیگر شہروں میں مضر صحت گٹکے، اور زہریلی شراب کی وجہ سے درجنوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ عمرکوٹ اور دیگر علاقوں میں دیسی شراب کی 2000 سے زائدبھٹیاں موجود ہیں ۔ ان سے سپلائی ہونے والی شراب عام طور سے گلی کوچوں میں دستیاب ہے اور ہرجگہ وائن شاپس موجود ہیں لیکن موٹرسائیکلوں پر کرائے کے ایجنٹ بھی شہر کے مختلف علاقوں، محلوں اور گاؤں میں شراب فروخت کرتے ہیں جب کہ انہیں پکڑنے سے پولیس ، انٹی نارکوٹکس اور ایکسائز کا محکمہ چشم پوشی اختیار کرتا ہے۔

سول سوسائٹی ، سماجی و مذہبی رہنماؤں نےمنشیات فروشی کے کاروبار پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان کا تقدس پامال اور رمضان آرڈیننس پر عمل درآمد نہ کرنے والے پولیس اہل کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین