• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ بیٹا ،آپ کے ابو نےمجھے کہا ہے کہ میں آپ کو کھلونے دلوا دوں۔‘‘

’’اچھا ٹھیک ہے، پر انکل، ابو کہاں ہیں؟‘‘

’’ بیٹا انھیں کوئی کام ہے ، اسی لیے انھوں نے مجھے آپ کو کھلونے دلانے کا کہا ہے۔‘‘

بچہ، اپنے رشتہ دار یا گھر میں روزانہ نظر آنے والی شکل پر بھروسہ کرتے ہوئے، انسان کے اندر چھپے بے حس بھیڑیے کے ساتھ چل پڑتاہے اور پھر ہمیں سسکیوں اور چیخوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا اور ایک دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد والدین یہی سوچ سوچ کر ہر لمحہ ہلکا ن ہوتے رہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ننھی کلی یا معصوم پھول سے صرفِ نظر کیوں کی؟ کیوں ان لوگوں کے سہارے اپنے فرشتوں کو چھوڑ دیا جو شیطان سے بھی دو ہاتھ آگے، بے حسی اور ہوس کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔

ہزاروں اس قسم کے دلخراش واقعات میں سب سے زیادہ ملوث افراد بچے کے قریبی رشتہ دار، محلہ دار اور والدین کے شناسا پائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات میں متاثرہ بچے کے والدین بھی کسی حد تک قصور وار ہوتے ہیں، جو کسی بھی وجوہات کی بنا پر اپنے باغ کے پھولوں کی دیکھ بھال دوسرو ں کے حوالے کرد یتے ہیں۔

ملک میں روزانہ10بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زینب کا واقعہ کی گرد ابھی چہروں سے ہٹی نہیں تھی کہ فرشتہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور بعدازاں قتل کے واقعےنے سب کے دل دہلا دیے۔ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچوں سے بات کرنی چاہئے اور ان کے خلاف ہونے والے آئے روز کے واقعات کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ پولیس کو اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دینے چاہئیں اور مجرموں کو ایسی قرار واقعی سزائی دلوانی چاہیے کہ آئندہ کسی بھی درندہ صفت شخص کی اس قسم کا بہیمانہ فعل کرنا تو کجا اس بارے میں سوچتے ہوئے بھی روح کانپ اٹھے۔

ہم زینب یا فرشتہ یا انہی جیسے معصوم فرشتوں کے واقعات کی تفصیل میں جائے بغیرآپ سے درخواست کرتے ہیں کہ خدارا اپنے بچوںکی حفاظت خود کریں اور اس ضمن میں قریبی رشتہ داروں پر بھی بھروسہ کرنے سے گریز کریں کیونکہ جتنی محبت، توجہ اور ذمہ داری سے آپ بچوں کی دیکھ بھال خود کرپائیں گے، دوسرا اس کا دس فیصد بھی نہیں کرپائے گا۔ یہی قانونِ قدرت ہے اور یہی فطرت کا تقاضا ہے۔ اپنے بچوں کو جنسی، ذہنی اور جذباتی استیصال سے بچانے کیلئے والدین کو درج ذیل اقدامات کرنے ضروری ہیں:

٭ بچے جیسے ہی تین سال سے اوپر پہنچیں ، انہیں جسم کے اعضائے مخصوصہ کو خود سے دھونے کا طریقہ سکھائیں ، ساتھ ہی انہیں سمجھائیں کہ وہ کبھی بھی کسی کو ،آپ سمیت ، انہیں چھونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب انہیں Good Touch اور Bad Touchکے بارے میں آگاہی مل جانی چاہئے۔

٭ بچے گھر میں اکیلے ہوںتو انہیں اندر سے دروزاہ بند رکھنے کی تاکید کریں، اور آپ کے پاس دروازے باہر سے کھولنے والی چابی ہو۔ انہیں ہدایت دیں کہ وہ کبھی کسی اجنبی کیلئے دروزاہ نہ کھولیں ۔ آپ کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کو کن لوگوں کی موجودگی پر اعتبار ہے ۔ آپ کو اپنے بچوں کے ٹیوٹر، ملازمین ، ماسیوں اور دور دراز کے رشتہ داروں کے گھر بھی اچھی طرح معلو م ہوں۔

٭ آپ کا بچہ جب بھی باہر ، دوستوں کے ساتھ یا اکیلا کھیلنے کیلئے جائے تو اس پر نظر رکھنا آپ کی خود کی ذمہ داری ہے تاکہ آپ دیکھ سکیں وہ کن لوگوں میں گھلتا ملتاہے ، اور کیسے کھیلوںمیں دلچسپی رکھتاہے۔ مزید یہ کہ بچے کے تما م دوستوں، سہیلیوں کے گھر کا پتہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے اور ا ن کے والدین سے بھی آپ کی جان پہنچان ہونی چاہئے۔

٭ یہ اصول بھی یقینی طور پر لاگو کریں بلکہ بچوں کو اچھی طرح باورکروادیں کہ گھر میں آپ کی اجازت کے بغیر کون کون نہیں آ سکتا، چاہے آپ خود بھی گھر پر موجود ہوں۔

٭ آپ کا بچہ اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ باہر جانے یا تنہائی میں وقت گزارنے سے گھبراتا ہے یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتاہے تو اسے مجبور نہ کریںبلکہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں وہ آخرایسا کیوں کررہاہے ۔ ساتھ ہی اس کا بھی خیال رکھیں کہ آپ کا بچہ کسی بڑی عمر کے فرد کےساتھ اٹیچمنٹ تو پسند نہیں کرتا۔

٭ بچوں کو کوئی بھی نئی مووی یا ویڈیودینے سے قبل اسے خود دیکھیں یا کوئی بھی کتاب دینے سے پہلے خود مطالعہ کریں ۔ ساتھ ہی کیبل ٹی وی پر آنے والے چینلز پر نظر رکھیں۔ ’’پیرنٹل کنٹرول‘‘ کا آپشن ضرور استعمال کریں۔ ان کارٹون چینلز پر بھی نظر رکھیں جس کے پروگرامز میں بوس وکنار کے مناظر معیوب نہیں سمجھے جاتے۔

٭ اسکول سے آنے کے بعد بچے سے اس دن کی تفصیلات پوچھیں، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بچوں کو آپ سے شیئر کرنی چاہئے۔

٭ بچے کے روّیے میں اگر تبدیلی آرہی ہے، وہ چپ چاپ ہے، یا جارحانہ روّیہ اپنا رہاہے ، کھانے پینے میں نخرے کررہاہے ، کسی سوچ میں گم ہے یا بات بات پر رونے لگاہے تو اس کی چھان بین کیجئے۔ بچے کے علم میں لائے بغیر اس کی تفتیش کیجئے۔ اسے پیار سے دوستی سے پوچھیں کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔ اگر بچہ کسی مخصوص شخص کے بارےمیں شکایت کرتا ہے تو اس معاملے میں خاموشی اختیار مت کیجئے۔

٭ بچے خاص طور پر بچیاں بلوغت کو پہنچنے لگیں تو آپ جنسی معاملات کے بارے میں خود سے درست آگہی دیں۔ اگر آپ یہ کام نہیں کریں گی تو پھر اسے یہ سب باتیں دوسروں سے بےہودہ تشبیہات کے ساتھ ملیں گی جو ان کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔

٭ آپ کے پاس وسائل ہوں تو گھرکے اہم حصوں خصوصاً داخلی راستوں پر کیمرے لگائیں تاکہ ہر آنے جانے والے کا چہرہ ریکارڈ ہوسکے۔ یہ کیمرے موبائل فون سے بھی آپریٹ ہوتے ہیں اور والدین گھر کے باہر سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ گھر پر کیا ہورہاہے۔

٭ شاپنگ مال، پارک ، مقامی بازار یا وہ مقامات جہاں ہجوم ہوتاہے ، وہاں بچوں کا ہاتھ پکڑے رکھیں ، کیونکہ ان مقامات پر بچوں کے گم ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

٭بچوں کو سختی سے منع کریں کہ وہ کسی سے بھی کوئی چیز لے کر کھانے کی کوشش نہ کریں، چاہے وہ چیز انہیں کتنی ہی مرغوب کیوں نہ ہو۔

٭ بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لے جانے کی ذمہ داری خود انجام دیں اور بچوں کو باور کروائیں کہ والدین یا انتہائی بھروسہ مند رشتہ دار جیسے چچا یا ماموں کے علاوہ انہیں کوئی وصول کرنے نہیں آسکتا۔

٭ بھروسہ مند اسکول وین میں اگر بچے اسکول آتے جاتے ہیں تو وین ڈرائیور کو تنبہیہ کریں کہ جب تک بچہ گھر میں یا اسکول میں داخل نہ ہوجائے وہ وہاں سے حرکت نہ کرے۔ 

تازہ ترین