• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1520قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسفؑ کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ اُنہوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔

نام و نسب اور قرآنِ کریم میں ذکر

حضرت موسیٰ ؑ کا نام اور نسب مبارک یوں ہے ،موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عازر بن یعقوبؑ بن اسحاق ؑ بن ابراہیم ؑ۔ حضرت موسیٰؑ کی پیدائش مِصر میں ہوئی۔ حضرت ہارونؑ آپؑ کے حقیقی بڑے بھائی تھے۔ حضرت موسیٰؑ کی دُعا کی بہ دولت اللہ تعالیٰ نے اُنھیں بھی نبوّت عطا فرمائی اور حضرت موسیٰؑ کا مددگار بنایا۔اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت موسیؑ کی حیاتِ طیبہ کے واقعات قرآنِ کریم کی مختلف سورتوں میں بیان فرمائے ہیں، کہیں تفصیل سے اور کہیں اختصار کے ساتھ۔ جب کہ آپ ؑکا اسمِ مبارک قرآنِ پاک میں 128بار آیا ہے۔

فرعون کا خواب اور حضرت موسیٰؑ کی پیدائش

حضرت ابنِ عبّاسؓ اور حضرت ابنِ مسعودؓ سے مروی ہے کہ فرعون نے خواب دیکھا تھا کہ گویا ایک آگ بیت المقدس کی طرف سے چلی آرہی ہے اور اُس نے مِصر کے گھروں اور تمام قِبطیوں (یعنی بنی اسرائیل کے مخالف فرعونیوں کے گروہ) کو جلا ڈالا، لیکن بنی اسرائیل کو آنچ تک نہ آئی۔ فرعون نے بیدار ہونے کے بعد اپنے مُلک کے تمام کاہنوں، نجومیوں، جادو گروں او دیگر ماہرین کو جمع کیا اور سب سے اس خواب کی تعبیر معلوم کی، جس پر اُنہوں نے جواب دیا’’ بنی اسرائیل میں ایک بچّہ پیدا ہوگا اور اُس کے ہاتھوں اہلِ مصر کی ہلاکت ہوگی۔‘‘ (ابنِ کثیرؒ)نیز، بنی اسرائیل کے ہاں بھی شروع ہی سے یہ بات مشہور تھی کہ’’ اُن ہی میں ایک بچّہ پیدا ہوگا ،جو بڑا ہوکر فرعون کا تختہ اُلٹے گا اور بنی اسرائیل کے پاس مِصر کی باگ ڈور آئے گی‘‘، یہ خبر فرعونِ مِصر کو بھی اُس کے درباریوں نے پہنچا دی تھی ۔لہٰذا،اس خواب کے بعد وہ مزید فکرمند ہوگیا اور اُس نے حکم جاری کردیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے تمام لڑکے قتل کردیے جائیں۔ اس حکم کے بعد، فرعون کے حواریوں اور اُس کی سپاہ نے ہر ممکن اقدام اٹھا لیا کہ کوئی نومولود لڑکا زندہ نہ بچ پائے، لیکن اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بنی اسرائیل کے ہزاروں نومولود بچّے ذبح کردیے گئے۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب قِبطی سرداروں نے فرعون سے کہا کہ’’ اگر بنی اسرائیل کے لڑکوں کا اِسی طرح قتلِ عام ہوتا رہا، تو ہمیں آئندہ خدمت گار ملنا مشکل ہوجائیں گے اور پھر ہمارے یہ کم تر، گھٹیا اور غلیظ کام کون کرے گا؟‘‘ اس پر فرعون نے حکم جاری کیا کہ ایک سال چھوڑ کر بچّے قتل کیے جائیں۔ ان ہی حالات میں حضرت موسیٰؑ پیدا ہوئے۔ نجومیوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ بچّہ پیدا ہوچُکا ہے۔ اِس اطلاع نے فرعون کو بدحواس کردیا اور اُس کی سپاہ نے گھر گھر تلاشی شروع کردی۔ حضرت موسیٰؑ کے بھائی، حضرت ہارونؑ سالِ امان میں پیدا ہوئے تھے، جب کہ حضرت موسیٰؑ قتل والے سال میں پیدا ہوئے، مگر اللہ نے اُن کی حفاظت کا سامان اس طرح فرمایا کہ اُن کی والدہ پر معمول کے مطابق حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے، جس سے فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں نہ آئیں، یوں ولادت کا مرحلہ تو خاموشی سے گزر گیا اور حکومت کے علم میں نہ آسکا، لیکن ولادت کے بعد بھی قتل کا اندیشہ موجود تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کا حل بھی موسیٰؑ کی والدہ کو سمجھا دیا۔ چناں چہ اُنہوں نے بچّے کو صندوق میں لِٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابنِ کثیر) قرآنِ پاک میں ارشاد ہے’’ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ اُسے دودھ پلاتی رہے اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو، تو اُسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج و غم نہ کرنا، ہم یقیناً اُسے تیری طرف لَوٹانے والے ہیں اور اُسے اپنے پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ القصص7:) علّامہ طبریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کی والدہ نے تین دن آپؑ کو دودھ پلایا اور چوتھے دن لکڑی کے صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا، جب کہ بعض دیگر مفسرّین نے دودھ پلانے کی مدّت تین ماہ بیان کی ہے۔

حضرت موسیٰؑ فرعون کے محل میں

صندوق دریا میں بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لبِ دریا تھا۔ فرعون کے نوکروں نے صندوق اٹھایا اور فرعون کی بیوی، آسیہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آسیہ بے اولاد تھیں، تواُنہوں نے جب صندوق میں ایک حَسین و جمیل چاند جیسے بچّے کو لیٹے دیکھا، تو فریفتہ ہوگئیں۔ بے اختیار بچّے کو گود میں اُٹھایا اور جلدی سے فرعون کے پاس لے گئیں اور بولیں’’ یہ میری اور تمہاری(دونوں کی) آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرنا، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔‘‘(سورۃ القصص9:) اہلیہ کی شدید خواہش کے پیشِ نظر فرعون نے بادل نہ خواستہ پرورش کی اجازت دے دی۔ اُدھر حضرت موسیٰؑ کی والدہ نے اُنہیں دریا کے سُپرد تو کردیا تھا، لیکن وہ بے قرار تھیں۔ چناں چہ اُنہوں نے حضرت موسیٰؑ کی بہن، مریم بنتِ عمران کو بھائی کی خبر گیری کے لیے بھیجا۔ مریم دُور سے صندوق کو دیکھتے ہوئے دریا کے کنارے کنارے چلتی ہوئی فرعون کے محل تک پہنچ گئی، جہاں فرعون کی بیوی دیگر عورتوں کے ساتھ بڑی دیر سے معصوم بچّے کو دودھ پلانے کی کوششوں میں مصروف تھیں، لیکن کوئی آیا اُنہیں دودھ پلانے اور چُپ کروانے میں کام یاب نہیں ہو رہی تھی۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے ’’اور ہم نے پہلے ہی سے اُس پر دائیوں کے دودھ حرام کردئیے تھے۔‘‘(سورۃ القصص13:) جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا، بھوکے بچّے کی بے تابی دیکھ کر آسیہ کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ حضرت موسیٰؑ کی بہن، مریم دروازے پر کھڑی یہ سب منظر دیکھ رہی تھیں۔ بالآخر بول پڑیں’’کیا مَیں تمہیں ایسا گھرانہ بتائوں کہ جو تمہارے لیے اس بچّے کو پالیں اور اس کی خیر خواہی سے پرورش کریں۔‘‘(سورۃ القصص13:) فرعون کی بیوی کی خواہش پر مریم جلدی سے جاکر اپنی والدہ کو محل میں لے آئیں اور حضرت موسیٰؑ نے فوری طور پر اپنی والدہ کی چھاتی سے لگ کر دودھ پی لیا۔ یوں اللہ نے آپؑ کی والدہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دِکھایا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’تو ہم نے ان کو ان کی ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائیں اور جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچّا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔ (سورۃ القصص13:)آسیہ نے حضرت موسیٰؑ کی والدہ سے استدعا کی کہ وہ محل ہی میں رہنے لگیں اور اس بچّے کی پرورش کریں، لیکن اُمّ ِ موسیٰؑ نے انکار کردیا کہ میرے شوہر اور بچّے پریشان ہوں گے۔ اس پر آسیہ بچّہ اُنھیں دینے پر مجبور ہوگئیں۔ پھر اُس نے بچّے کے لیے وظیفہ بھی مقرّر کردیا، یوں اللہ کی شان دیکھیے کہ جس بچّے کے خوف سے فرعون نے ہزاروں بچّے ذبح کروا دئیے، وہ بچّہ فرعون ہی کی زیرِ نگرانی اور سرکاری تحفّظ میں پروان چڑھنے لگا ۔

فرعون کے منہ پر طمانچا

حضرت موسیٰؑ رضاعت کی عُمر تک اپنی والدہ کے پاس ہی پرورش پاتے رہے۔پھر جب آپ ؑکا دودھ چھڑوایا گیا، تو والدہ نے آپؑ کو دوبارہ فرعون کی بیوی کے حوالے کردیا۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ آسیہ اور فرعون اپنے محل میں بیٹھے تھے۔ آسیہ نے حضرت موسیٰؑ کو اُٹھا کر فرعون کی گود میں بِٹھا دیا۔ حضرت موسیٰؑ نے فرعون کی گود میں بیٹھتے ہی اُس کی داڑھی پکڑ لی اور پھر اُس کے منہ پر طمانچا رسید کردیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اُن کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، جس سے وہ کھیل رہے تھے، وہ فرعون کے سَر پر دے ماری۔ فرعون غصّے میں آگ بگولا ہوگیا۔ وہ کاہنوں کی بچّہ پیدا ہونے کی پیش گوئی پر پہلے ہی بڑا فکرمند تھا۔ کہنے لگا’’ مجھے لگتا ہے کہ یہی وہ بچّہ ہے،‘‘ اور اُس نے بچّے کے قتل کا حکم دے دیا۔آسیہ یہ دیکھ کر سخت پریشان ہوگئیں اور بولیں’’ یہ معصوم بچّہ ہے، اِسے کسی چیز کی عقل نہیں ہے۔ اِس نے ایسا نادانی میں کیا ہے۔‘‘ بادشاہ سخت غصّے میں تھا اور اُسے بچّے سے خوف آنے لگا تھا۔ بولا’’ مَیں اسے قتل کرکے رہوں گا۔‘‘ آسیہ نے کہا’’ اچھا آپ ذرا توقّف کریں، اس کا امتحان لے لیتے ہیں، ابھی معلوم ہوجائے گا کہ اس نے یہ حرکت نادانی میں کی ہے یا جان بوجھ کر۔‘‘ یہ کہہ کر اُنہوں نے دوطشت منگوائے، ایک میں دہکتے انگارے اور دوسرے میں سُرخ یاقوت۔ پھر فرعون سے بولیں’’ دیکھیں! اگر اس بچّے میں عقل ہوئی، تو یاقوت اٹھائے گا، ورنہ انگاروں کی طرف ہاتھ بڑھائے گا۔‘‘ دونوں طشت حضرت موسیٰؑ کے سامنے رکھ دئیے گئے۔ آپؑ نے یاقوت کی جانب ہاتھ بڑھائے، لیکن حضرت جبرائیلؑ نے فوراً ان کے ہاتھ کو انگاروں کی طرف بڑھا دیا۔ آپؑ نے ایک انگارہ اُٹھا کر منہ میں رکھ لیا، جس سے زبان جل گئی اور آپؑ رونے لگے۔ فرعون نے جب یہ دیکھا تو خاموش ہوگیا اور اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔ زبان کے جل جانے ہی کی وجہ سے حضرت موسیٰؑ کی زبان میں لُکنت پیدا ہوگئی تھی۔

حضرت موسیٰؑ کے ہاتھوں قِبطی کا قتل

قرآنِ پاک میں ارشاد ہے ’’اور جب موسیٰؑ جوانی کو پہنچے اور بھرپور (جوان) ہوگئے، تو ہم نے اُن کو حکمت اور علم عنایت کیا اور ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ القصص14:) حضرت موسیٰؑ شاہی محل میں آسیہ کی زیرِ نگرانی پرورش پاتے ہوئے جوان ہوگئے۔ آپؑ نہایت خُوب صورت، طاقت وَر، سمجھ دار اور دانا انسان تھے اور مِصر میں فرعون کے لے پالک بیٹے کے طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے اُن کا رُعب ودبدبہ بھی بہت تھا۔ حضرت موسیٰؑ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ فرعونی (قِبطی) نہیں، بلکہ اسرائیلی ہیں۔ لہٰذا جب فرعون، اُس کے حواریوں اور سپاہ کی جانب سے اسرائیلیوں پر ظلم ڈھائے جاتے، تو آپؑ کو بے حد دُکھ ہوتا، اکثر اس ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کرتے اور بے قصور اسرائیلیوں کی مدد بھی کرتے۔ایک دن حضرت موسیٰؑ محل سے نکل کر شہر کا گشت کررہے تھے۔ آپؑ نے دیکھا کہ ایک قِبطی کسی اسرائیلی کو بُری طرح زد و کوب کررہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر آپؑ رُک گئے۔ اسرائیلی نے جب آپؑ کو دیکھا، تو مدد کے لیے پکار اُٹھا۔ حضرت موسیٰؑ دونوں کے قریب گئے اور قِبطی کو روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ ظلم سے باز نہ آیا۔ آپؑ کافی دیر تک اسرائیلی کو چھڑوانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن قِبطی کسی طور پر اُسے چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آخرکار آپؑ سے ضبط نہ ہوسکا اوراُسے ایک مُکّا رسید کردیا، جس سے وہ مر گیا، حالاں کہ آپؑ کی نیّت اُسے مارنے کی نہ تھی۔ قِبطی کے قتل کی خبر فرعون سمیت پورے مِصر میں پھیل چُکی تھی، لیکن کسی کو قاتل کا پتا نہ تھا اور سپاہ قاتل کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ دوسرے دن حضرت موسیٰؑ پھر گشت پر نکلے، خیال تھا کہ قِبطی کے قتل کے ردّ ِ عمل کا اندازہ ہوسکے۔ ابھی کچھ ہی دُور گئے تھے کہ دیکھا وہی اسرائیلی کسی دوسرے قِبطی سے جھگڑا کر رہا ہے۔ اُس نے جب حضرت موسیٰؑ کو دیکھا تو پھر مدد کے لیے پکارا۔ آپؑ نے فرمایا’’بےشک تو ہی صریح گم راہ شخص ہے‘‘ اور پھر قِبطی کو چھڑوانے کے لیے آگے بڑھے۔ اسرائیلی نے سمجھا کہ یہ مجھ پر غصّہ کررہے ہیں اور آج مجھے مار ڈالیں گے۔ تو وہ فوراً چِلّا اٹھا’’ اے موسیٰؑ! جس طرح تم نے کل ایک قِبطی کو مارا تھا، آج مجھے قتل کرنا چاہتے ہو؟‘‘ قِبطی نےجب یہ سُنا، تو فوراً فرعون کو خبر بھجوا دی اور فرعون نے حضرت موسیٰؑ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔

مدین ہجرت اور حضرت شعیبؑ سے ملاقات

فرعون کے حواریوں کو حضرت موسیٰؑ کے ہاتھوں قِبطی کے قتل کا علم ہوا، تو اُنہوں نے آپؑ کے قتل کا فیصلہ کر لیا۔ تاہم، وہاں موجود آپؑ کے ایک ہم درد نے آ کر آپؑ کو اس کی اطلاع کردی۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے’’اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا (اور) بولا’’ موسیٰؑ، شہر کے رئیس تمہارے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں، پس تم جَلدی سے یہاں سے نکل جائو، مَیں تمہارا خیر خواہ ہوں۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السّلام وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ کہنے لگے’’اے پروردگار! مجھے ظالموں کے گروہ سے بچا لے۔‘‘ (سورۃ القصص۔ 21-20)کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے؟ کیوں کہ مِصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا تھا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو گھوڑے پر بھیجا، جس نے راستے کی نشان دہی کی۔(ابنِ کثیر)۔ آپؑ کئی روز کی مسافت طے کر کے ارضِ مدین پہنچے اور شہر کے کنارے ایک کنویں کے قریب درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ اُس وقت کنویں پر جانوروں کو پانی پلانے والوں کی بِھیڑ تھی۔ آپؑ نے دیکھا کہ درخت کے پاس دو لڑکیاں بہت دیر سے اپنے جانور لیے کھڑی ہیں اور اُن کی باری نہیں آتی۔ حضرت موسیٰؑ کے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ’’ ہمارے گھر کوئی جوان نہیں ہے، والد بہت ضعیف ہیں۔ جب سب لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے،تو پھر ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں گی۔‘‘ حضرت موسیٰؑ یہ سُن کر کھڑے ہو گئے۔ آپؑ جوان بھی تھے اور طاقت وَر بھی۔ آپؑ نے لڑکیوں کے مویشیوں کو پکڑا اور لوگوں کے بیچ میں سے راستہ بناتے ہوئے کنویں تک پہنچ گئے۔ کنویں سے پانی نکال کر سب مویشیوں کو سیر ہو کر پلایا اور واپس آ گئے۔ لڑکیوں نے آپؑ کا شُکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چلی گئیں۔ مفسرّین نے لکھا ہے کہ وہ حضرت شعیبؑ کی صاحب زادیاں تھیں۔ جب وہ وقت سے پہلے گھر پہنچ گئیں، تو حضرت شعیبؑ کو تعجب ہوا اور جلد آنے کی وجہ دریافت کی، جس پر لڑکیوں نے پورا واقعہ بتایا۔ حضرت شعیبؑ خوش ہوئے اور فرمایا’’ جائو اور اللہ کے اُس نیک، اجنبی بندے کو میرے پاس لے آئو۔‘‘

حضرت شعیبؑ کے گھر قیام

حضرت موسیٰؑ ایک لمبا سفر طے کر کے مِصر سے مدین پہنچے تھے۔ کچھ زادِ راہ بھی ساتھ نہ تھا، جب کہ سفر کی تھکن اور بھوک سے نڈھال تھے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے ’’تھوڑی دیر میں اُن میں سے ایک عورت شرم و حیا سے چلتی ہوئی اُن کی طرف آئی اور کہنے لگی’’ تمھیں میرے والد بُلاتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے (جانوروں) کو پانی پلایا تھا، اُس کی اُجرت دیں۔‘‘ جب وہ اُن( حضرت شعیبؑ)کے پاس آئے اور اُن سے اپنا سارا حال بیان کیا، تو اُنہوں نے کہا’’ اب کچھ خوف نہ کرو، تم نے ظالم قوم سے نجات پا لی ہے۔‘‘ ایک لڑکی بولی’’ ابّا جان! اِن کو نوکر رکھ لیجیے۔ کیوں کہ بہتر نوکر جو آپ رکھیں، وہ ہے (جو) توانا اور امانت دار (ہو)۔‘‘ اُنہوں نے (موسیٰؑ) سے کہا’’ مَیں چاہتا ہوں کہ اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں۔ اس (شرط) پر کہ تم آٹھ برس میری خدمت کرو اور اگر دَس سال پورے کر دو، تو وہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور مَیں تم پر تکلیف ڈالنا نہیں چاہتا۔ تم مجھے انشاء اللہ نیک لوگوں میں پائو گے۔‘‘ (سورۃ القصص۔25، 27)۔حضرت موسیٰؑ نے اس شرط کو منظور کر لیا۔ قصّہ مختصر، آپؑ کا حضرت شعیبؑ کی ایک صاحب زادی سے نکاح ہوگیا ۔ جب دَس سال مکمل ہو گئے، تو آپؑ نے اپنی والدہ اور بہن بھائیوں سے ملنے کے لیے مِصر جانے کا قصد فرمایا اور حضرت شعیبؑ سے رخصت چاہی۔ حضرت شعیبؑ نے اپنی صاحب زادی کے ساتھ کچھ مال مویشی اور زادِ راہ دے کر رخصت کیا۔ راستے میں مُلکِ شام کے بادشاہوں سے خطرہ تھا، اس لیے عام راستہ چھوڑ کر غیر معروف راستہ اختیار کیا۔ سردی کا موسم تھا اور اہلیہ کے ہاں ولادت قریب تھی۔ پھر یہ کہ راستے سے بھٹک کر طور پہاڑ کی مغربی اور داہنی سمت جا نکلے۔ اندھیری رات تھی اور برفانی سردی، اس حال میں اہلیہ کو دردِ زہ شروع ہو گیا۔ حضرت موسیٰؑ نے سردی سے بچائو کے لیے پتھر سے آگ جلانا چاہی ،لیکن پتھروں کے رگڑنے سے آگ روشن نہ ہو سکی۔ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں، تو دُور کوہِ طور پر آگ نظر آئی۔ اہلیہ سے فرمایا’’ مَیں نے وہاں آگ دیکھی ہے، وہاں جا کر تمہارے لیے آگ بھی لاتا ہوں اور ممکن ہے کہ کوئی بندہ بشر بھی مل جائے، جو راستہ بتا دے۔‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین