• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالمجید ساجد، لاہور

اُس روز ایک تو فیکٹری میں کام زیادہ تھا اور پھر بارش کی وجہ سے باہر ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لہٰذا، اُسے گھر جانے کے لیے ایک مَرد کولیگ سے لفٹ لینا پڑی۔ لفٹ لینے والی وہ اکیلی نہیں تھی، بلکہ اس کے ساتھ کام کرنے والی چند دوسری خواتین بھی اُسی گاڑی میں سوار تھیں۔ تاہم، اُس کا گھر سب سے آخر میں آتا تھا۔ وہ گاڑی سے اُتری، تو محلے کے اوباش مَرد، جو موسم کا مزا لینے کے لیے گلی میں موجود تھے، معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اگلے روز جب وہ گھر سے نکلی، تو اَن گنت مشکوک نگاہیں اُس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ وہ شام کو معمول کے مطابق گھر پہنچی اور اگلے روز خبر آئی کہ ’’ایک خاتون فیکٹری ورکر کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔‘‘ اُس باکردار اور محنتی خاتون کے قاتل کوئی غیر نہیں، بلکہ اُس کے اپنے ماں جائے تھے، جنہوں نے محلے میں پھیلنے والے مَن گھڑت قصّوں، افواہوں اور بدگمانیوں کی بنیاد پر اپنی معصوم بہن پہ بد چلنی کا الزام عاید کر کے اُسے قتل کر دیا۔ جذبات سے مغلوب بھائیوں نے سچ جاننے کی کوشش نہیں کی اور ’’غیرت‘‘ کی آڑ میں درندگی کا مظاہرہ کرنا بہتر سمجھا۔ بد قسمتی سے آج ہمارا سماج اس نہج پر پہنچ چُکا ہے کہ اگر چند افراد کسی خاتون کو غیر مَرد کے ساتھ سفر یا بات چیت کرتے دیکھ لیں، تو اُن کی ذہنی پس ماندگی انہیں فوراً بد گمانی کا شکار کر دیتی ہے اور وہ حقیقت جانے بغیر ہی دونوں کا آپس میں ’’تعلق‘‘ جوڑنا شروع کر دیتے ہیں، جس کے انتہائی خوف ناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے مذہب میں بھی بد گمانی سے بچنے کی نصیحت کی گئی ہے، کیوں کہ یہ سچائی کی جڑیں کاٹ کر نفرت کی اَمر بیل کاشت کرتی ہے۔ یہ تر دماغ انسانوں کے شاداب رویّوں کو انسانیت کے لیے زہرِ قاتل بنا دیتی ہے اور اسے فروغ دینے والے آدم خور جتّھوں نے انسانی معاشرے کو جنگل سے بھی بد تر بنا کر رکھ دیا ہے۔

پاکستان میں ہونے والے اکثر جرائم بالخصوص قتل کے واقعات اسی بیمار ذہنیت کی عکّاسی کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے ، بد گمانیاں پھیلانے میں ثانی نہیں رکھتے۔ اپنی ذمّے داریاں، فرائضِ منصبی ادا کریں، نہ کریں،دوسروں کی ٹوہ میں ضرور لگے رہتے ہیں۔ گرچہ مُلک کے پس ماندہ علاقوں میں یہ قبیح عادات خاصی عام ہیں، لیکن اب تعلیم یافتہ طبقہ بھی ان میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے، جب کہ سوشل میڈیا نے تو اس خطرناک کلچر کو مزید ہوا دی ہے۔ یاد رہے کہ افواہوں اور بد گمانیوں کے نتائج صرف ایک فرد نہیں بُھگتتا، بلکہ پورا خاندان ان کی زد میں آ جاتا ہے، جب کہ کہیں کہیں تو کئی نسلوں کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ پھر ہمارے معاشرے میں کسی خبر یا اطلاع کی تصدیق کرنے کا رواج بھی بہت کم ہے ۔ ہم سُنی سُنائی باتوں پر یقین کر کے کسی بھی فرد سے متعلق اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اور اُسے آگے بڑھانے سے بھی نہیں چُوکتے۔ ماضی میں افواہ پھیلنے میں وقت لگتا تھا، لیکن اب سوشل میڈیا کے ذریعے مَن گھڑت اطلاعات چند سیکنڈز ہی میں دُنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں اور بدگمانیاں افراد اور خاندانوں کی کردار کُشی کے علاوہ اسلامی شعائر کو بدنام کرنے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران توہینِ مذہب کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں اقلیتوں اور مسلمانوں کے قتل کے واقعات اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ ہمارا معاشرہ تحقیق سے عاری ہے۔ اس ضمن میں یونی ورسٹی کے طالبِ علم، مشال خان کا قتل پاکستانی سماج پر لگا ایک ایسا سیاہ داغ ہے، جسے مٹانا ممکن نہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے بھی افواہ سازی اور معاشرے کے کم زور طبقات کے جذباتی استحصال کی روش کو تقویّت فراہم کی ہے۔ سچ جاننے کی کوشش کیے بغیر مَن گھڑت باتوں پر رائے زنی اور انہیں آگے بڑھانے کی عادت نے معاملات کو مزید سنگین کر دیا ہے، لیکن ہمیں کوئی پروا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل قصور میں بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے چند واقعات منظرِ عام پر آئے، تو سوشل میڈیا صارفین نے ان پر ایسی ہاہاکار مچائی کہ جیسے خدانخواستہ پورے مُلک ہی میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسی ایسی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ الامان الحفیظ۔اس موقعے پر بعض عاقبت نا اندیش سوشل میڈیا صارفین نے مُلک کے سماجی ڈھانچے اور مذہبی اقدار کا نہ صرف مذاق اُڑایا، بلکہ انہیں نقصان بھی پہنچایا، جب کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ وحشت و درندگی کا کسی مذہب اور قوم سے تعلق نہیں ہوتا اور انسان کی ہوس ہی مذہبی اقدار اور سماجی روایات کو تاراج کرتی ہے۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ میں ایک سفید فام قوم پرست کے ہاتھوں 50نمازیوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا، تو کیوی حکومت اور معاشرے نے شدّت پسندی اور دہشت گردی کا تاثر زائل کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ان افواہوں اور قیاس آرائیوں کے بڑھتے رُجحان نے پاکستانی سماج کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ معاشرے میں بدگمانیاں پھیلنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے پاس موجود علم اور معلومات ہی کو دُرست اور حتمی گردانتے ہیں اور کسی دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے توکُجا، سُننے کے بھی روادار نہیں۔ پھر ہم اپنی ان معلومات کو اتنے وثوق اور تواتر سے بیان کرتے ہیں کہ سادہ لوح افراد ان سے متاثرہو کر انہیں بِلا تحقیق آگے بڑھا دیتے ہیں اور یوں یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل کر سماج میں فساد پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آج ہر فرد ہی احساسِ برتری جیسے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے اور خود کوعقلِ کُل سمجھتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے رویّوں پر گہری نظر رکھنے والی نفسیاتی علوم کی ماہر اور سماجی کارکن، انعم احسن کہتی ہیں کہ ’’سوشل میڈیا نوجوانوں میں ذہنی دبائو، نیند کی کمی اور احساسِ محرومی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔‘‘ ماہرِ نفسیات نے گزشتہ برس بھارت، نائیجیریا اور کینیا کے باشندوں پر ہونے والی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’احساسِ کم تری میں مبتلا افراد افواہیں، بدگمانیاں اور جعلی خبریں پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ وہ واٹس ایپ ، فیس بُک اور ٹویٹر کے ذریعے مَن گھڑت معلومات شیئر کرتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد اپنے حلقۂ احباب میں خود کوسب سے زیادہ باخبر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ جھوٹی خبریں اور افواہیں نوجوانوں کے اعتماد میں کمی اور معاشرے میں انتشار کا باعث بنتی ہیں۔سانحۂ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم، جیسنڈا آرڈرن نے جھوٹی خبروں پر قابو پانے کے لیے بروقت اقدامات کیے، جب کہ اس موقعے پر کیوی عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے اقوامِ عالم میں اپنے مُلک سے متعلق مثبت رائے کو فروغ دیا۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انعم احسن کا کہنا تھا کہ’’ عوام کی ذہنی استعداد بڑھائے بغیر افواہ سازی پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور اگر جھوٹی خبروں اور قیاس آرائیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا، تو شہریوں میں دن بہ دن خوف بڑھتا اور اعتماد کم ہوتاچلا جائے گا۔‘‘

ہر چند کہ افواہ سازی اور بدگمانی کے عفریت کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، لیکن سچ کی کھوج لگا کر کسی کی عزّت و آبرو اور جان بچائی جا سکتی ہے اور دَورِ حاضر میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تہذیب یافتہ معاشروں میں جب الزامات کے ذریعے کسی فرد کی کردار کُشی کی جاتی ہے، تو وہ فوراً عدالت سے رجوع کرتا ہے اور عدالت الزامات غلط ثابت ہونے پر جُھوٹی اطلاعات پھیلانے والے شخص پر بھاری جُرمانہ عاید کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن ممالک میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات نہیں ہوتے اور نہ ہی شہریوں کو اپنی عزّتیں اُچھالے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔

افواہ سازی کے حوالے سے بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، امجد بخاری کا کہنا ہے کہ ’’سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے افواہوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات اور اطلاعات بِلا تحقیق وائرل ہو جاتی ہیں اور اکثر اوقات مین اسٹریم میڈیا بھی ان کی دسترس سے محفوظ نہیں رہتا۔ اکثر و بیش تر برسوں پُرانی ویڈیوز کو ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر شیئر کر دیا جاتا ہے۔ نیز، پرانی تصاویر بھی نئے کیپشنز اور نئے موضوعات کے ساتھ وائرل ہو جاتی ہیں۔ وائرل ہونے والی اکثر پوسٹس مذہب، حُبّ الوطنی، قومی سلامتی اور سیاسی مخالفین کی کردار کُشی سے متعلق ہوتی ہیں۔ مذہبی معلومات سے متعلق پوسٹس سب سے زیادہ شیئر کی جاتی ہیں، کیوں کہ صارفین ان کی چھان پھٹک کے بغیر ہی ثواب کی نیّت سے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں، حُبّ الوطنی اور قومی سلامتی پر مبنی کئی برس پُرانے ویڈیو کلپس اور ترامیم شُدہ تصاویر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پھیلایا جاتا ہے اور اگر کوئی صارف ان کی تصحیح کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی کردار کُشی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ افراد ایسی پوسٹس پر اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں کرتے۔ پھر مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا سیلز بھی بنا رکھے ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنے نظریات کے پرچار کے علاوہ اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کُشی بھی کرتی ہیں۔‘‘ سوشل میڈیا کے سبب معاشرے میں پھیلنے والے ذہنی خلفشار کو روکنے سے متعلق تجاویز دیتے ہوئے امجد بخاری نے کہا کہ ’’حکومت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے اقدامات کرے، جن میں کم تعلیم یافتہ افراد کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عاید کرنا بھی شامل ہو۔ یاد رہے کہ فِفتھ جنریشن وار میں سوشل میڈیا ہی بہترین ہتھیار ہے۔ اس کا دُرست استعمال عالمی سطح پر پاکستان کا بہترین تاثر قائم کرسکتا ہے، لیکن اس کے برعکس اس کے منفی استعمال نے پاکستان کو دُنیا بَھر میں ایک خطرناک مُلک کے طور پر پیش کیاہے۔‘‘

سنجیدہ طبقے کی آراء کے مطابق، مُلک میں افواہوں، بد گمانیوں اور غلط معلومات کے پھیلائو کا اہم سبب سوشل میڈیا ہے، لیکن پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز سمیت دیگر ذرایع ابلاغ تو پوری دُنیا ہی میں عام ہوئے، مگر ان کی وجہ سے سب سے زیادہ افراتفری اور انتشار پاکستانی معاشرے میں کیوں پھیلا؟اس بارے میں سماجی ماہرین کا ماننا ہے کہ ذرایع ابلاغ کی افادیت کا انحصار ان کے استعمال پر ہوتا ہے اور چُوں کہ ہمارے ہاں شرحِ خواندگی کم اور معیارِ تعلیم زوال پزیر ہے، تو ہمیں اپنے عوام میں شعور بیدار کرکے انہیں ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے روکنا ہو گا۔ اس بارے میں امتیاز شاد نامی لکھاری کہتے ہیں کہ ’’بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوشل میڈیا افواہ سازی اور اشتعال انگیزی کا سبب بن چُکا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اکثر و بیش تر بِلا تصدیق و تحقیق ایسا مواد شایع و نشر کیا جاتا ہے کہ جو معاشرے میں تقسیم اور بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ زیادہ تر صارفین سوشل میڈیا کو اپنا غصّہ نکالنے اور نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں۔ تاہم، اسی کے ساتھ ہی سرکاری و نجی اداروں کی ناقص کارکردگی اور کرپشن سے متعلق خبریں بھی مین اسٹریم میڈیا پر آنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل جاتی ہیں اور حکومت ان کے خلاف کارروائی کے لیے متحرک ہو جاتی ہے۔ خیال رہے کہ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا، تو سانحۂ ساہی وال کبھی منظرِ عام پر نہ آتا اور نہ ہی دُنیا کے مختلف ممالک میں جاری انسانیت سوز مظالم سے آگہی حاصل ہوتی۔ ترقّی یافتہ دُنیا میں سوشل میڈیا کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور سانحۂ کرائسٹ چرچ نے اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو اجاگر کیے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ایک سفّاک سفید فام نسل پرست نے اپنی درندگی کو فیس بُک کے ذریعے براہِ راست نشر کیا، تو اس سے دُنیا بالخصوص مغربی معاشرے میں اسلامو فوبیا کو تقویّت ملی، لیکن پھر کیوی حکومت اور قوم نے سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے مسلمانوں سے متعلق پوری دُنیا کی سوچ بدل کر رکھ دی۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’درحقیقت، افواہ سازی کا تعلق جہالت اور بیمار ذہنیت سے ہے ۔ اگر ہم نے اپنے معاشرے کو ان برائیوں سے پاک نہ کیا، تو ترقّی و خوش حالی خواب ہی رہے گی۔ حکومت کو اس حوالے سے زبانی جمع خرچ کی بہ جائے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز، اسکول، کالج اور جامعات کے اساتذہ ٔکرام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ نوجوان نسل افواہ سازی اور انتشار انگیزی کے عمل کا حصّہ نہ بن سکے۔‘‘

حاصلِ کلام یہ ہے کہ پاکستانی شہریوں کی اکثریت محض افواہوں اور قیاس آرائیوں سے متاثر ہو کر دوسروں سے متعلق بد گمانیاں پال لیتی ہے، جس کے معاشرے پر شدید منفی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں، جب کہ سوشل میڈیا جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نوجوان نسل کی سرگرمیوں سے کسی کی عزّت محفوظ نہیں اور نہ ہی اس کے سدّ باب کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ آج کا نوجوان صرف حکومت کی موافقت اور مخالفت میں بٹا ہوا ہے اور علمی مباحث و اختلافِ رائے کی اہمیت سے قطعاً نابلد ہے۔ نوجوان نسل اختلافِ رائے کو دشمنی تصوّر کرتی ہے، جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا اشتعال اور انتشار پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ نوجوانوں اور دیگر سوشل میڈیا صارفین میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تربیتی پروگرامز اور ورک شاپس کا آغاز کرنا ہو گا اور حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری اداروں، تنظیموں اور اہلِ دانش کو بھی اپنی ذمّے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین میں احساس جواب دہی پیدا کرنا ہو گا۔ نیز، نوجوان نسل کو سچ کی تلاش اور پرکھ کی عادت ڈالنا ہو گی، تاکہ سماج بُرائیوں سے پاک ہو اور انسانی رشتوں کا تقدّس برقرار رہ سکے، ورنہ بدگمانی کے تیر رُوح کے ساتھ بدن بھی چھلنی کر تے رہیں گے اور حوّا کی بیٹیاں یوں ہی نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔ 

تازہ ترین