• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آکھ کا پودا‘‘ اس کے ہر حصے میں جسمانی عوارض کا علاج ہے

پودے زمین کا حسن، اور قدررتی ثمرات کے حامل ہوتے ہیں ،لیکن ان میں لاتعداد ایسے بھی پودے ہیں کہ جن کے متعلق آگہی نہ ہونے کے سبب اب تک انسان مکمل فوائد، افادیت اور اہمیت سے مستفید ہونے سے قاصر رہا ہے۔جہاں پھولوں اور پھلوں سے مزین پودوں پر تتلیاں منڈلاتی ہیں، حشرات الارض ،پرندے اور جانور حتیٰ کہ انسانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ پودے جیسے ناگ پھنی، دھتورا، گل مدار و دیگر پودے زہریلے ہونے کے سبب ان سےانسان تو انسان، جانور بھی دور رہتے ہیں۔ ان زہریلے پودوں میں ایک پودا آکھ بھی شامل ہے۔

آکھ کاپودا زہریلاہوتا اور بہ ظاہر اس کا کوئی مصرف بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے، لیکن یہ خورد رو پودا اپنے اندر ان گنت خواص رکھتا ہے۔ یہ پودا سندھ اور بلوچستان کے کوہستانی علاقوں، صحرائے تھرپارکر، بنجر علاقوں ،سڑکوں، ندی نالوں، کے کنارے عام طور سےدکھائی دیتا ہے۔ اس پودے کو سنسکرت زبان میں عرق، ٹول پھلی، مندار، پرتال،بھاتوک ،چھیل پھرنی، گجراتی میں نانو، انکاڑو، پنجابی میں آنکھ، عربی میں اوکڑ، انگریزی میں کلو ٹروپس پروسیرا، اور اردو میں اسے گل مدار یاآکھ کہا جاتا ہے۔ لیکن جنوبی ایشیا ء میں یہ پودا آکھ کے نام ہی سے معروف ہے۔ بے رونق اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے سے محروم اس پودے کوحکماء ،اطباء، سنیاسی متعدد بیماریوں کے نسخوں میں استعمال کرتے ہیںجب کہ شاعروں نے اس پودے کی توقیر میںقصیدے اور اشعار کہے ہیں۔ سندھ کے معروف شاعر اور دانش ور سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ ایاز آکھ کے پودے سے متاثر ہوتے ہوئے کہتے ہیں۔

جت لک لیگیی جت آک تپن

جت ڈینھن کژھائی جیئن کژبھن

یہ پودا ایک گز کے قریب لمبا، پتے چوڑے اور موٹے، برگد کے پتو ںکی مانند، آکھ کی ٹہنی ، پتہ یا پھول توڑنے سے سفید رنگ کا دودھ نکلتا ہے۔ آکھ کا پھول چھوٹا اور نرگس کے پھول کے مشابہ ہوتا ہے۔ آکھ کے پھول کے درمیان میں لونگ کے سر کے مانند ایک چیز ہوتی ہے جس کو آکھ کی لونگ یا قرنفل مدار کہا جاتاہے۔ آکھ کا پھل (آکھ کا ڈوڈا ) آم سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے بیج چپٹے ،سیاہی مائل، ارہر کی دال کے دانے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی شدید تپش کے دوران پروان چڑھتا ہے۔ اُس کے پتے اور پھول بہت تر و تازہ ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بند رہتے ہیں۔ جب وہ خول کھلتا ہے تو چھوٹے چھوٹےبالوں جیسے ریشے ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے پکڑتے ہیں اور پھر اپنی پھونک سے اڑا دیتے ہیں۔ ان بالوں کو اور بیج کو’’ آکھ کی بڑھیا‘‘ کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی بُڑھیا جو اڑتی پھرتی ہے۔

آکھ کے پودے کا ہر حصہ انسان کے مختلف عوارض، زیبائش ، قدرتی نکھار اور گھریلو ٹوٹکوں میں زمانہ قدیم ہی سے استعمال ہوتا رہا ہے۔ جس کے سبب اسے ’’ طبیب پودا‘‘ اور جدید میڈیکل سائنس میں ’’فطری معالج‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ انتہائی زہریلا اور جان لیوا بھی ہوتا ہے۔

آکھ کی دنیا بھر میں دو سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہے۔ اور مختلف حجم اور لمبائی کےحامل ہوتے ہیں۔ لیکن عموماً لوگ اس کی محض دو ہی اقسام کے بارے میں جانتے ہیں۔ ان میں تاج سفید پھول دینے والا آکھ جیسے ’’سیورتارک‘‘ جب کہ دوسرے آکھ کے سرخ پھول والے پودے کا ’’رفتار‘‘ کے نام سے قدیم کتابوں اور نسخوں میں ذکر ملتا ہے۔ مگر سفید پھول دینے والے آکھ کو حکما اور اطباء زیادہ طبی فوائد کا حامل قرار دیتے ہیں۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پودا عام طور پر کم ہی اگتا ہے۔ آکھ کے پودوں میں پھول گچھوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔ یہ پھول جب سوکھ جاتا ہے تو اس کی جگہ پھل نما بیج بن جاتے ہیں۔ جو سوکھنے کے بعد از خود چٹخ جاتے ہیں، اور اس کے اندر سے روئی کی مانند گالا نکلتا ہے۔ جو ہوا کے ساتھ ادھر، ادھر اڑنے لگتا ہے۔

ہندوستان میں ہی نہیں پاکستان خصوصاً سندھ میں آج بھی ہندو سفید پھولوں والے آکھ کے پرانے پودے کی جڑ کو اپنے گھروں میںرکھ کر اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس طرح ان پر دھن دولت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مصائب و آلام سے بھی ان کو نجات مل جاتی ہے۔

سندھ میں عام طور پر پائےجانے والے آکھ کے پودے کی اونچائی 2فٹ سے15فٹ یا اسے بھی زائد ہو سکتی ہے۔ اس کے پتے برگد کے پتوںسے مشابہت رکھتے ہیں۔ اور اس کےاندر دودھ کی مانند رطوبت ہوتی ہےجسے آکھ کا دودھ کہا جاتا ہے، جو پودے کی شاخوں، پتوں، پھولوں، جڑوں کو علیحدہ کرنے سے رسنے لگتا ہے۔ یہ دودھ ذائقے میں انتہائی کڑوا اور خاصیت میں زہر آلود ہوتا ہے۔ بعض طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی معمولی مقدار کسی بھی ذی روح کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔چناں چہ انسان ہی نہیںبلکہ چرند، پرند تک اس پودے سے قدرے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ سندھ میں80ء کی دھائی کے دوران لوگوں میں معاشی بدحالی کو دور کرنے کا شعور بیدار ہوا تو اس پودے کو اپنی معاشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگاجس کی بنا پر اب دودھ کی بوتل 2ہزارروپے میں دستیاب ہوتی ہے۔

حیدر آباد کے قریب کرن شورو گوٹھ کے رہائشی جمن شورو کا کہنا ہے کہ ’’حیدرآباد سمیت نواحی گوٹھ جب پس ماندہ تھے، ان علاقوں میں جدید دنیا کا رنگ غالب نہیں آیاتھا۔ اس دور میں آکھ کےپودے ہر طرف دکھائی دیتے تھے۔جب جنگلات کاٹ کر کرعمارتیں، مکانات، کارخانے، دکانیں اور مارکیٹیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں تو یہ پودے بھی ناپید ہوتے رہے۔ اس دور میں بوتل جلد ہی بھر لی جاتی تھی، مگر اب آکھ کے پودوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ایک بوتل کو بھرنے میں اب دو، دو دن یا اس سے بھی زیادہ لگ جاتے ہیں۔ عام طور پر آکھ کے پودے یا اس کے دودھ کو طبیب اپنے نسخوں میں شامل کرتے ہیں، کیوں کہ قدرت نے اس پودے میں بے شمارطبی خواص اور کرشماتی فوائد رکھے ہیں۔ گرمی کے موسم میں جب سورج ہر سوں آگ برسا رہا ہو، دھوپ اور بدن کو جھلسا دینے والا حبس زدہ ماحول، بادل بھی نا معلوم منزلوں کے مسافر ہوں،تو کوہستانی ، میدانی اور صحرا میں اس کا سایہ کسی نعمت سے کم محسوس نہیں ہوتا۔ اس پودے کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ ایسے ماحول یا موسم میں اس کا حسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے اور شدید سردی اور بارش کے موسم میں یہ خزاں رسیدہ ہو جاتا ہے،اس پودے کے پیلے پتوں میں دودھ نہیں ہے۔مگر آیورویدک نسخوں میں لکھا ہے کہ ایسے مریض یا افراد جن کے پیروں میں جلن یا بدبو آتی ہو، بدن کی حدت میں مبتلا ہوں وہ آکھ کے پتے کو پیروں کے تلوئوں میں کسی دھاگے سے باندھ لیں یا پتے رکھنے کے بعد کسی کپڑے سے اسے باندھ لیں ۔ ایسےمریض یا افراد 4/3دن روزانہ یہ عمل کریں، وہ شفایاب ہوں گے۔دوسرا یہ کہ اس پودے کے نیچے جتنی جگہ پر اس کا سایہ زمین پر ہو اس سائے کی جگہ کی زمین کی مٹی بادی کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آکھ کے پودے کے سائے سے مٹی لے کر اسے کسی برتن میں گرم کر لیں اور اسے ایک چادر پر بچھا کر دوسری چادر اس پر بچھا دیں ا ور کمر کے پرانے درد، میں مبتلا مریضوں کو اس چادر پر لٹادیا جائے تو ایسے مریضوں کو درد میں راحت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پودا گنج پن، سوزش، خارش ، نزلہ، ہیضہ، بالوں کی مضبوطی و دیگر امراض میںاکسیرہے۔آک کےپتوں کی دھونی مچھروں کو بھگانے میں مددگار ہوتی ہے۔یہ بات ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ آکھ کےپودے کےہر حصے اور دودھ کے استعمال سے متعلق مکمل آگہی ہونا چاہئے،بہ صورت دیگر منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ آکھ کے پود ےپر جدید اور از سر نو تحقیق ہونی چاہئے تاکہ اس پودے کے فوائد اور استعمال سے لوگوں کو آگہی حاصل ہو سکے ،اور اس کیلئے ضروری ہے کہ انتہائی تیزی سے ناپید ہونے والے اس پودے کی افزائش اور تحفظ کے لئے حکومت اور متعلقہ اداروں کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوںگے۔

تازہ ترین