• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران سے درآمد سیمنٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے، مینوفیکچررز

کراچی (اسٹاف رپورٹر)ایران سے درآمد ہونے والی سیمنٹ پر فوری طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے اور درآمد سے قبل اس کے معیار کو پرکھنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے یہ بات آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز نے ایف بی آر کو بھیجی گئی بجٹ سفارشات میں کہی ہے۔ چیئرمین اے پی سی ایم اے نے بلوچستان کے سرحدی راستے ایرانی سیمنٹ کی آمد اور مقامی سیمنٹ سے زیادہ سستے نرخ پر فروخت پر بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا ہےکہ ایرانی سیمنٹ کی فروخت انڈسٹری کے لیے باعث تشویش ہے اور طویل المدت میں انڈسٹری کی بقاء خطرے میں پڑسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی سیمنٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ ضروری ہے تاکہ مقامی انڈسٹری کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے انھوں نےتجویز دی ہے کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو مرحلہ وار ختم کیا جائے کیونکہ سیمنٹ اشیائے ضرورت میں شمار کی جاتی ہے۔سیمنٹ کی ریٹیل نرخ پر 5 فیصد ایف ای ڈی اور زیادہ سے زیادہ ریٹیل پرائس(ایم آر پی) پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہے اور یہ 100 روپے فی بیگ بن جاتے ہیں۔ زیادہ ٹیکسوں کے بوجھ کے باعث سیمنٹ کی کھپت متاثر ہوتی ہے ٹیکسوں کی چوری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے سے ملک میں سیمنٹ کی کھپت میں اضافے کے ساتھ ٹیکسوں کی چوری کا بھی سدباب ممکن ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں مختلف خدمات پر صوبائی ٹیکس قوانین کے تحت ٹیکس عائد ہیں۔ ان خدمات پر فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 ء کے تحت بھی ٹیکس عائد ہیں اس طرح انڈسٹری پر دہرے ٹیکس عائد ہیں۔ اس لیے ایسی خدمات جن پر صوبائی سطح پر ٹیکس عائد ہے فیڈرل سطح پر ختم کیا جائے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کرنے سے کاروباری لاگت میں کمی واقع ہوگی اور انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے مزید تجویز دیتے ہوئے کہا کہ آفس آف کمشنر (اپیل) یا ایپیلٹ ٹرائی بیونل میں درخواست سے قبل ٹیکس دہندہ کو ڈیوٹی ڈیمانڈ یا جرمانے کی مد میں ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ یہ لازمی شرط انصاف کی فراہمی میں ایک رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں یکساں پرویژنز کو ختم کردیا گیا ہے اس لیے انہیں ایکسائز لاء سے بھی ختم کیا جائے۔ چیئرمین اے پی سی ایم اے نے اسی طرح بجٹ تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئلے کی درآمد پر ایک فیصد سے امپورٹ ڈیوٹی بڑھا کر 6 فیصد کرنے سے بھی انڈسٹری پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چیئرمین اے پی سی ایم اے نے مزید کہا کہ کوئلے پر درآمدی ڈیوٹی کو ختم کیا جانا چاہیے تاکہ اس کا بطور متبادل ایندھن کے استعمال جاری رہے۔ حکومت کی طرف سے گیس ڈیویلپمنٹ ایکٹ 2011ء نافذ العمل رکھا گیا ہے۔ حکومت ماسوائے گھریلو صارفین سب سے ٹیکس حاصل کرتی ہے۔ اس ایکٹ کو چیلنج کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ cess، فیس ہے ٹیکس کے زمرے میںشمار نہیں ہوگا۔ اور اس حوالے سے لیا جانے والا تمام ٹیکس واپس کیا جائے یا پھر ماہانہ بنیاد پر چھ ماہ کے اندر ایڈجسٹ کیا جائے جبکہ یہ فیصلہ 22 اگست 2014ء کو کیا گیا تھا۔ اسی طرح حکومت نے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ آرڈی ننس 2014ء کو نافذ کیا تھا۔ اس ٹیکس کی میعاد مدت جنوری 2015ء کو ختم ہونی تھی تاہم اسے مئی 2015ء تک مزید بڑھا دیا گیا۔ مئی 2015ء میں حکومت نے جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015ء جاری کیا اور بعد ازاں ایک مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا۔ ایس ایچ سی نے جی آئی ڈی سی کے تحت ٹیکس کی وصولی پر اسٹے آرڈر جاری کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کو بھی ختم کیاجائے اس کی وجہ سے شعبے کی کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا اور عالمی مسابقتی حالات میں مقامی انڈسٹری کی مسابقتی خصوصیات پر اثر پڑے گا جس سے اس کی برآمدات متاثر ہوں گی۔ چیئرمین اے پی سی ایم اے نے جو مزید بجٹ سفارشات پیش کی ہیں ان میں افغانستان کو سیمنٹ کی برآمد کے حوالے سے ڈیوٹی ڈرا بیک، کاروباری شعبہ پر یکساں ٹیکس کا نفاذ، کم ازکم ٹیکس، پلانٹ، بلڈنگ اور مشینری پر بنیادی چھوٹ اور دیگر تجاویز ۔ آرڈیننس 65A کے تحت ٹیکس کریڈٹ، رجسٹرڈ فرد پر سیلز ٹیکس، ٹیکس کریڈٹ شق 65B ، پلانٹ، مشینری اور سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ، سیکشن 236G کے تحت ایڈوانس ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس زیر تحت سیکشن 236H اور مختلف شق کے تحت کٹوتیاں شامل ہیں۔
تازہ ترین