• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانے کہاں یہ جملہ پڑھا تھا کہ بچے ، بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جوانی انہیں چھو کربھی نہیں گذرتی۔ اس کا مطلب شاید یہ تھاکہ ہمارے ہاں زندگی اس قدر مشقت آزما ہے کہ ہوش سنھالتے ہی ہم روزگار کےچنگل میں جکڑے جاتے ہیں۔شاید یہی بات سچ ہے، لیکن میرا دل کہتا ہے کہ وہ بچے پھر بھی اچھے رہے۔

آپ ان بچوں کو کیا کہیں گے جو پیدا ہوتے ہی بڑے ہوگئے اور بچپن کا منہ بھی نہ دیکھا۔

جی ہاں ، میں آج کے ، اس دور کے، بچوں کی بات کررہا ہوں،جن کے بارے میں ہم یہ کہتے پھولے نہیں سماتے کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے ہیں۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ جس اسمارٹ فون یا آئی پیڈ کے سر پیر کا میں سمجھ نہیں پاتا، میرا ڈھائی سالہ نواسہ جانتا ہے کہ اس میں اس کے پسندیدہ کارٹون، نرسری رہائمز اور اینگری برڈ اور ٹیمپل رن جیسے بے شمار کھیل کیسے تلاش کئے جاتے ہیں اور انہیں کیسا کھیلا جاتا ہے۔ مجھے اپنے موبائیل فون یا کمپیوٹر یا ٹیلیویژن میں کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو پاس کھڑے کسی بچے سے پوچھ لیتا ہوں کہ میرا تعلق اس نسل سے ہے، جو اتنی ، سادہ، بے خبر بلکہ بے وقوف ہوا کرتی تھی جب گھروں میں کسی اونچی جگہ رکھے ریڈیو کو بھی ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی اور صرف ایک دو لوگ جنہیں ریڈیو چلانا آتا تھا وہی اسٹیشن بدل سکتے تھے یا آواز اونچی کرسکتے تھے۔

آج کا بچہ ذہانت، عقل ، سمجھ بوجھ ہر چیز اتنی رکھتا ہے، جو ہمیں کہیں نوجوانی میں جاکر ملی تھی۔ یہ بچے اپنے تئیں خوش نصیب ہیں کہ انہیں جدید ٹیکنالوجی میسر ہے۔ جس گھر میں ذرا سی بھی معاشی فراغت میسر ہے، وہاں کے بچے ہاتھوں میں آئی پیڈ، اینڈرائیڈ فون اور نجانے کیا کیا لئے گھومتے رہتے ہیں۔ دیواروں پر ٹنگے ایل سی ڈی یا پلازمہ ٹی وی سے دنیا جہاں سے اپنے مطلب کے پروگرام ڈھونڈ لیتے ہیں۔ پلے اسٹیشن کے ذریعے دنیا کا ہر کھیل، کھیل سکتے ہیں اور کیا کچھ نہیں ہے، جو انہیں میسر نہیں ، سوائے اس کے، جسے بچپن کہتے ہیں۔ آج کا باپ اپنے بچے کو یہ سب کچھ اس لئے لے کر دیتا ہے کہ اسے گھر سے باہر سڑکوں اور گلیوں پر چنگھاڑتے، دھاڑتے بے ہنگم ٹریفک سے ڈر لگتا ہے۔ اسے ڈر لگتا ہے کہ اس کا لعل باہر کسی انجانی گولی کا نشانہ، نہ بن جائے اور وہ چاہے بھی تو بچے کو کہاں کھیلنے بھیجے کہ جہاں کبھی کھلے میدان ہوتے تھے ،وہاں اب مکان، بازار اور دوکانیں بن گئی ہیں۔ وہ گھر جن کے صحن اور مکینوں کے ذہن کھلے ہوتے تھے، اب مرغی ، کبوتروں کے دڑبوں اور کابک جیسے فلیٹوں میں بدل گئے ہیں۔ آج کا بچہ برگر، فرنچ فرائیز اور آئسکریم کھا کر بھی شاکی رہتا ہے اور ہم وہ بے وقوف تھے ، کسی دن ماں جنہیں بچی ہوئی روٹی (اگر ہم ان خوش نصیب گھروں میں سے ہیں جہاں روٹی بچ جاتی تھی) کو پانی نچوڑ کر ، اس پر چینی چھڑک کر اور ذرا سا دودھ ڈال کر ہمیں دیتی تو یہ ’’ملیدہ‘‘ ہمارے لئے دنیا جہاں کی نعمتوں سے بڑھ کر ہوتا یا پھر کبھی روٹی پر ہلکا سا گھی چپیڑ کر اور اس پر چینی یا کھرچا ہوا گڑ ڈال کر ایک رول سا بنادیتی جس کے سامنے آج کے سوئس رول بھی ہیچ ہیں۔

ماں گھر کے کاموں میں مصروف ہوتی اور ابا دفتر میں سر کھپا رہے ہوتے اور ہم اسکول سے گھر آتے ہی بستہ ایک طرف پھینک یونیفارم اتار، جوتے یا چپل ایک طرف ڈال، گلی میں نکل جاتے، پھر سارا دن نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھان رہے ہوتے۔ گلیوں میں ننگے پیر گھوم رہے ہوتے، کہیں کوئی کانٹا چبھ گیا انگلیوں سے پکڑ کر خود ہی کھینچ نکالا، کسی کانچ کے ٹکڑے سے پیر کٹ گیا، کمیٹی کے نلکے سے پیر دھو لیا، ایسی ہلکی ، باتوں کی کبھی رپورٹ گھر پر نہیں کی۔

مٹی سے سنے پیر اور کالے ہاتھوں کے ساتھ گھر آتے ہی پہلا حکم ہوتا پہلے ہاتھ پاوٗں دھو کر آؤ۔ اسکول کا کام، یعنی تختی دھوکر، اس پر نئی چکنی، ملتانی مٹی پوت کر دھوپ میں سکھانے رکھنے کے بعد اور حساب کے ماسٹر کے دیئے ہوئے سوال ، سلیٹ پر نکال کر ہم فارغ ہوتے۔

لڑکیاں بالیاں تو گھر کے کسی کونے کھدرے میں یا کہیں دو متوازی کھڑی چارپائیوں پر چادر ڈال کر ’ آپا آپا‘ یا ’ گھر گھر‘ کھیل رہی ہوتیں۔ مٹی کے بنے کھلونے چولہے پر دیگچی چڑھائے، ہنڈکلیا پک رہی ہوتی۔ ایک طرف اماں کے ہاتھ کی بنی گڑیا بیٹھائی ہوتی ہے۔ کبھی جی میں آتا تو روز کے جیب خرچ (جو دو یا ایک پیسہ ہوتا) سے پیسے بچا کر گڑیا کی شادی رچارہی ہوتیں۔ پاس پڑوس کی سکھیوں کو دعوت دے دی جاتی اور انتہائی سنجیدگی سے تیاریاں ہورہی ہوتیں۔ دلہن اور دولہا کے جوڑے بن رہے ہوتے، شادی بیاہ کے گیت گائے جارہے ہوتے۔ شادی کے دن کچھ کھانے پینے کا انتظام بھی ہو جاتا اور ویسی ہی سادگی ہوتی جیسے ان دنوں کی سچ مچ کی شادیوں میں ہوتی تھی۔ دلہن کو رخصت کرتے ہوئے ویسے ہی رونادھونا ہوتا ، جیسا ان کی اپنی بدائی پر ہوگا۔

شام ہوئی ، کھانے سے فارغ ہو کر پاس پڑوس کے بچے بچیاں کسی ایک بڑے گھر کے صحن یا گلی میں اکٹھے ہو کر ، کوڑا جمال شاہی، پہل دوج، یا ، کھو کھو، کھیل رہے ہوتے۔

اور یہ دیکھیں ذرا کہ ساتھیوں کا انتخاب کیسے ہوتا یا ٹیم کیسے بن رہی ہوتی۔ سب دائرہ بنائے اور ہاتھوں کی پشت جوڑے کھڑے ہوتے ، ہاتھ اوپر اٹھائے جاتے، کسی کا ہاتھ ہتھیلی کی طرف سے تو کسی کا پشت کی طرف سے اٹھا ہوا ہوتا۔ جی ہاں ،، پگّم پگائی ، ہورہی ہوتی۔

یہ تو ایک طریقہ ہوتا۔ ایسے بہت سے کھیل کھیلے جاتے۔ کہاں کھو گیا میرا بچپن وہ دن وہ راتیں، کچھ، کچھ نہیں بہت کچھ یاد ہے مجھے میرے ساتھیوں کو بھی یاد ہوں گے۔ آج کے کچھ نوجوانوں نے بھی ایسے کھیل کھیلے ہوں گے، لیکن اب وہ بہت بدل گئے ہیں۔ اُن کا بچپن ہم سے بہت مختلف ہوگا۔ لیکن بچپن کسی کا بھی ہو، بچپن ہی ہوتا ہے۔

تازہ ترین