• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صلاح الدین حیدر

ان کی تخلیقی کوششوں میں محبت یا جینے کی امنگ موت اور جبر سے مسلسل مزاحمت کرتی نظر آتی ہے

بچپن کی معصومیت جب معروضی حقائق سے متصادم ہوتی ہے تو تصورات کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے اور تخیل کی سطح پر سلگنے والی آگ راستے ڈھونڈتے ڈھونڈتے نئی روشیں اور کیاریاں تراش لیتی ہے۔ اس سارے عمل کا ایک عنوان گلزار کا تخلیقی سفر ہے، جس کی تہہ میں موسیقیت، نغمگی، بے ساختگی، افسانویت، شاعری اور مصوری کے متنوع رنگوں میں محبت کی سرگوشیوں کو بہت قریب سے محسوس کرتے ہیں۔

گلزار بظاہر فلمی دنیا کی ایک معروف اور مصروف شخصیت ہیں۔ انہوں نے جو گیت اور اسکرپٹ لکھے ہیں، اس کی داد عوامی حلقوں سے بھی پائی ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر ان کا ایک اور کردار بھی ہے جس کی نشوونما پنجاب کے قصبے دینہ میں ہوئی اور جو تقسیم کے عمل میں سرحد عبور کر کے مشکل اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے فلمی دنیا تک رسائی میں کامیاب ہوئے۔ ان کی تخلیقی معصومیت کا بہائو زندگی کے کربناک بحرانوں کی تجسیم اور پیکر تراشی کے ناتے ایک انوکھا البم تراشنے کی صلاحیت کا مظہر ہے۔ وہ اس بہائو میں جب چاہیں مکالموں سے ڈرمائیت اور معصومیت پیدا کر لیتے ہیں اورکبھی پنجاب کی معصوم فضا میں مٹی گوندھ کر نت نئے افسانے تراش لیتے ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے شاعری کو زیر بحث نہیں لائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری کے رنگوں کو پرکھیں تو تاریخ کے کردار معاصر زندگی کے تجربات، واقعات اور کردار سب متنوع کہانیوں، افسانوں کو جوڑتے ہوئے ایک تاثر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ گلزار نے اپنی کاوشوں میں شاعرانہ تخیل کے ساتھ سماجی زندگی کے تلخ حقائق اور عام لوگوں کی ابتلائوں کو پیش نظر رکھا ہے۔ انہوں نے نوآبادیاتی دور کے طویل پس منظر میں کچلے ہوئے محکوم لوگوں کی زندگی کو اپنے محسوسات کا حصہ بناتے ہوئے اپنے کرداروں کے ناتے تضادات ابھارے ہیں۔ اس پس منظر میں ایک بے ساختگی کے ساتھ ان کے افسانوی کردار شاعری میں بھی سرایت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ شاعرانہ ردعمل میں کشمکش حیات کے ساتھ نمو پانے والی دانائی کی تصویریں بھی سامنے لاتے ہیں اور ان کی شاعری کے رسیلے مصرعے زندگی کی رزم گاہ سے ابھرنے والے مکالموں سے امتزاج پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ایک افسانے کا کردار ’’ادھار‘‘ کسی تحریک کا حصہ تو نہیں لیکن سماجی ناانصافی کے خلاف ایک ذاتی ردعمل کے ناتے مزاحمت کا نشان ہے۔ گلزار نے دنیا کے تجربات و حوادث کا مطالعہ کرتے ہوئے سادگی کے ساتھ اس کردار کو ابھارا ہے۔ اس سادگی میں سلگتی ہوئی آگ ہی ان کا آرٹ ہے۔ یہ آگ پدرسری ضابطوں سے مزاحم ہو کر راستہ بناتی ہے۔ بچپن کی شوخ یادوں سے ابھرنے والا ایک کردار منی ’’کاغذ کی ٹوپی‘‘ کے ناتے اپنی بات کہہ جاتی ہے۔ وہ براہ راست اپنی بات کیوں نہیں کہتی؟ صدیوں کے خوف اور ظلم کی فضا میں استعارہ ایک سہارا بن کر سامنے آتا ہے۔ گلزار کے افسانوں کے کرداروں کی اثر آفرینی کے پس منظر میں پنجابی بھاشا کی بے ساختگی بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ افسانہ ’’خوف‘‘ فسادات میں موت کے وسوے سے گزرنے والے شخص کی خود کلامی اور اضطراری ردعمل کی تصویر ہے۔ سانولی چاندنی رات، کا ’’ماماچکور‘‘ مادرسری دنیا کے خواب و خیال میں رہنے والا، چاندنی راتوں کا شیدائی جیون کے سنگلاخ راستوں سے گزرتے ہوئے کس طرح بدل جاتا ہے۔ لیکن اس تخلیق کے حوالے سے اصل کردار ماماچکور نہیں بلکہ متحارب معاشرتی قدروں کے ناتے پسماندگی کے ردعمل سے نمو پانے والا آرکی ٹائپ ہے جو ماما کے کردار یا پیکر کو محبت کی معنویت سے ہمکنار کرتا ہے۔ افسانہ ’’راوی پار‘‘ کا درشن سنگھ بھی سعادت حسن منٹو کے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ جیسی اذیت کا اسیر ہے۔ یہ اذیت ایک آسیب کی یا شاخ گل پر افعی کی طرح سایہ کئے نظر آتی ہے۔ شاعری کی طرف آئیں تو نظمیں ’’ریفیوجی‘‘ فسادات، 1857ء، کچہریاں، فتح پور سیکری، غالب، سدھارتھ فکر انگیز اشاریہ مہیا کرتی ہیں۔ وہ اپنی نظموں، غزلوں، تروینی، گیتوں میں بحیثیت مجموعی چاند کی کشتی میں رات کو آتا دیکھتے ہیں تو ایک غیر معمولی مناظر کا سلسلہ الفاظ کی موسیقی سے ہم آہنگ معنویت کی گرہیں کھولتا جاتا ہے۔ اس سفر میں گلزار چاندکو دیکھتے ہوئے اس کے ماتھے کے داغ کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ ان کے شعری قرینے کی ایک اہم صفت مکالمے کی اثر آفرینی بھی ہے جو افسانے، شاعری کے علاوہ ان کی فلمی سرگرمیوں کو محیط کرتی ہے۔ اسی مکالمے کو وہ جب مصرعوں میں لا کر موسیقیت سے معنویت کشید کرتے ہیں تو تنہائی، خوف اور درد کی صلیب سے رندھی ہوئی آواز میں ابھرتی ہے۔ اس پس منظر میں ان کی شاعری میں افسانے کی رمزیت اور ہسٹاریوگرافی کی روایت بھی سرایت کرتی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی طبع کی حساسیت کو سماجی تاریخ کے پس منظر میں ٹٹولتے ہیں تو فلم ’’غالب‘‘ کے مکالمے منظر عام پر آتے ہیں۔ گلزار کی تخلیقی کاوشوں میں محبت یا جینے کی امنگ موت اور جبر سے مسلسل مزاحمت کرتی نظر آتی ہے۔ یہ جب کچی کچی سی چاندنی بن کر لہو میں گھلتی ہے تو شفق کے سب پھول گلنار ہو جاتے ہیں۔ محبت کی تصویروں کو گلزار موسیقیت سے مربوط کرتے ہوئے الفاظ کے آہنگ کو کئی طرح سے استوار کرتے ہیں اور اپنے قاری کو شاعری، افسانے کے سنگم پر لا کر حیرت سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ’’گلی کا موڑ مڑتے ہی میرا گھر تھا‘‘، ’’دینہ‘‘، ’’آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا‘، ’’مجھے واہگہ پہ ٹوبہ ٹیک سنگھ والے پشن سے جاکےملنا ہے‘‘، ’’کیسے چپ چاپ برستا ہے تصور تیرا‘‘، ’’پسر منظر‘‘، کچھ بیوہ آوازیں‘‘، ’’قبرستان میں کل اک لاش پر‘‘، ’’رات بھر ایسے لڑی جیسے کہ دشمن ہو‘‘، ’’برسی‘‘، ’’شہد کا چھتا‘‘، ان کی نظموں کے موضوعات، مصرعے، عنوانات سب ایسی وحدت تاثر پیدا کرتے ہیں جن سے شاعر کی اپنی کہانی یا روداد کی جھلکیاں نمایاں ملتی ہیں۔ غزل کے پیرائے میں تو خیر اپنی حکایت بیان کرنے کی فضا بن جاتی ہے۔ لیکن فکر معاش اورعشق بتاں کے مضامین کی دلکشی کا انحصار بھی شاعر کے تخیل کی رسائی پر ہوتا ہے۔ گلزار نے غزل کے موضوعات میں بھی اپنے انداز سے وسعت پیدا کی ہے ۔گلزار کی غزلوں میں ’’چاندنی‘‘ علامتی سطح پر درد کی تصویر کشی کا سہارا بنتی ہے۔

بے سبب مسکرا رہا ہے چاند

کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند

رات کو دے دو چاندنی کی ردا

دن کی چادر ابھی اتاری ہے

جن افسانوں، نظموں اور اشعار کے حوالے دیئے گئے وہ محض اشاراتی ہیں اوربحیثیت مجموعی ان کا تخلیقی سفردرد کی تصویروں کا البم ہے اور پھولوں کے لمس کے ساتھ بہار کے خون سے نہائے ہوئے کانٹوں کا پتا بھی دیتا ہے۔ یہ سب تصویریں گلزار کے اپنے زاویہ نظر کو سامنے لاتی ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ ماضی کی یادوں یا دینہ کے گزرے روز و شب کو ایک آسیب کی طرح اپنی ذات پر مسلط نہیں کرتے بلکہ اپنے ماضی کو جینے سے محبت کا ایک وسیلہ اورحوالہ سمجھتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں معاصر بمبئی اور اس کے کرداروں کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ قبل ازیں سعادت حسن منٹو نے گنجے فرشتے کے عنوان سے خاکوں اور کئی افسانوں میں فلمی اورکمرشل زندگی کی تہہ تک شعور مندانہ ردعمل سے رسائی مہیا کی تھی۔ علاوہ ازیں اسی شہر میں دوسری جنگ عظیم کے دور میں سرایت کرنے والی سماجی انارکی کو میراجی، کرشن چندر، راندھر سنگھ بیدی، علی سردار جعفری، اختر الایمان، احمد بشیر، حمید اختر، ظ انصاری اور کئی دیگر اہل قلم نے بھی اپنے محسوسات کا حصہ بنایا۔ گلزار نے اس مشاہدے کی روایت کو بھی آگے بڑھایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی علم میں آتی ہے کہ وہ پنجاب کے محکوم طبقوں اور کسانوں کی زندگی کے آشوب کے ردعمل میں ابھرنے والی شخصیت احمد ندیم قاسمی کے فن سے بھی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنی تمام یادوں، دکھ درد کی کہانیوں، سماجی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو پورٹرے کرتے ہوئے وہ محبت اور امن کا سفیر نظر آتے ہیں۔

تازہ ترین