• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی پابندیاں، موجودہ دَور کا موثر ترین ہتھیار

اقتصادی پابندیاں، موجودہ دَور کا موثر ترین ہتھیار
ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر پابندیوں کی بحالی کی دستاویز دکھارہے ہیں

موجودہ عہد میں اگر کسی مُلک پر غلبہ حاصل کرنا مقصود ہو، تو فوج بھیجنے کی بہ جائے اس پر اقتصادی پابندیاں عاید کر دی جاتی ہیں اور یوں اُس مُلک کی بے جان معیشت ہی اسے تباہی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔ اس وقت بھی بعض ممالک کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے دو چار ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عاید کر رکھی ہیں، جن میں روز بہ روز شدّت آتی جا رہی ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا پر اقوامِ متّحدہ نے دو برس قبل پابندیاں عاید کی تھیں، جو اب تک برقرار ہیں۔ رُوس کو کریمیا پر قبضے کی پاداش میں امریکی و یورپی پابندیوں کا سامنا ہے اور تینوں ممالک کی معیشت بد ترین دبائو کا شکار ہے۔ ان ممالک کی کرنسی اپنی قدر کھو چُکی ہے اور تجارت تباہ حال ہے۔ بہ ظاہر تو ان ممالک کی حکومتیں بڑی بہادری و حوصلے سے عالمی دبائو کا سامنا کر رہی ہیں، لیکن ان ممالک کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عموماً اقتصادی پابندیوں کے شکار ممالک ایک ہی قسم کا رویّہ اختیار کرتے ہیں اور مذاکرات کی بہ جائے کسی تیاری کے بغیر ہی خم ٹھونک کر مقابلے پر اُتر آتے ہیں۔ نیز، ان ممالک کے رہنما اپنی جذباتی تقاریر کے ذریعے عوام کو قربانی دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ قربانی پیٹ کاٹنے کی ہوتی ہے، کیوں کہ عوام کی پہنچ سے اشیائے ضروریہ، تعلیم اور صحت کی سہولتیں دُور ہو جاتی ہیں۔ پھر طبلِ جنگ بجنے لگتا ہے اور دفاعی اخراجات آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں، لیکن کوئی عوامی فلاح و بہبود کی بات نہیں کرتا، بلکہ قومی وقار ہر چیز پر حاوی آجاتا ہے۔ پھر ایک روز اچانک کوئی لیڈر مذاکرات کو مسئلے کا حل بتاتا ہے۔ نتیجتاً، حریف مُلک سے دوستی اور ہم آہنگی کی باتیں ہونے لگتی ہیں، معاہدے ہوتے ہیں اور برسوں بلکہ دہائیوں تک قوم کو تباہی سے دو چار کرنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ پابندیاں ہٹ جاتی ہیں اور روابط فروغ پانے لگتے ہیں۔ ایسا ویت نام میں بھی ہوا اور کیوبا میں بھی۔ تاہم، رُوس نے سمجھ داری کا مظاہرہ کیا اور رُوسی صدر، بورس یلسن صورتِ حال بھانپ کر پہلے ہی بات چیت کرتے رہے۔ کیوبا نے 50برس بعد مذاکرات کا آغاز کیا اور تب تک فیدل کاسترو کے بے لچک رویّے کی وجہ سے مُلک کے عوام بے حال ہو چُکے تھے۔ یہاں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ رہنمائوں کو مصالحت کا خیال بعد از خرابیٔ بسیار ہی کیوں آتا ہے اور عوام کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا جاتا ہے۔ فریقین، جنہیں آخر کار بات چیت اور معاہدے ہی کرنے ہوتے ہیں، عام آدمی پر رحم کیوں نہیں کھاتے اور اسے بہتر زندگی کیوں نہیں گزارنے دیتے۔ نیز، اقتصادی پابندیوں کی یہ داستانیں بڑھتی کیوں جا رہی ہیں اور بعض اقوام ترقّی سے دُور کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟

اقتصادی پابندیوں کی زد میں آنے والے بعض ممالک کسی نہ کسی شکل میں جنگی کارروائیوں اور ہتھیاروں کی تیاری سے وابستہ رہے ہیں، جن میں رُوس، شمالی کوریا، ایران اور قطر وغیرہ شامل ہیں۔ رُوس پر امریکا اور یورپی یونین نے اُس وقت اقتصادی پابندیاں عاید کیں کہ جب رُوسی افواج نے کریمیا پر قبضہ کیا۔ کریمیا شمالی یورپ میں واقع، یوکرین کا حصّہ تھا اور یہاں 2014ء میں اُس وقت زبردست احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی کہ جب یوکرینی صدر نے رُوس کے ساتھ اقتصادی تعاون کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں عوام کا کہنا تھا کہ وہ یورپی یونین کا حصّہ ہیں۔ احتجاجی تحریک کے نتیجے میں یوکرینی صدر کو مُلک سے فرار ہو کر رُوسی صدر، ولادی میر پیوٹن کی میزبانی قبول کرنا پڑی۔ اسی اثناء میں رُوس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے کریمیا پر، جہاں رُوسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے، قبضہ کرلیا اور اسے اپنا حصّہ بھی بنا لیا۔ کریمیا پر رُوسی قبضے کے بعد یوکرین کے دوسرے حصّوں میں مقیم رُوسی زبان بولنے والے باشندوں نے اس کی پُشت پناہی سے جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس موقعے پر امریکا اور یورپ نے رُوس کے خلاف جنگ چھیڑنے کی بہ جائے اس پر اقتصادی پابندیاں عاید کر دیں۔ تب امریکا کے صدر باراک اوباما تھے اور یہ پابندیاں ہمہ گیر قسم کی ہیں۔ گرچہ رُوس ہی یورپ کو اپنی سب سے بڑی کمپنی، گیز پرام کے ذریعے گیس سپلائی کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود یورپی ممالک نے اس کا اقتصادی محاصرہ جاری رکھا اور بہت جلد ان پابندیوں کے اثرات سامنے آنے لگے۔ مثال کے طور پر رُوسی کرنسی، روبل کی قدر غیر معمولی طور پر کم ہوئی، اس کی برآمدات متاثر ہوئیں اور اس کی معیشت منفی اشاریے دینے لگی، حالاں کہ کریمیا پر قبضے سے قبل رُوس ایک طاقت وَر معیشت کے طور پر اُبھر رہا تھا۔ امریکی و یورپی پابندیوں کے تکلیف دہ اثرات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے رُوسی صدر، ولادی میر پیوٹن اور وزیرِ خارجہ، سرگئی لاروف نے بار ہا انہیں ہٹانے کی درخواست کی۔ ان پابندیوں کی تکلیف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رُوسی وزیرِ خارجہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کا مُلک پابندیوں کا درد محسوس کررہا ہے۔ تاہم، اس معاملے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ رُوس اور مغربی ممالک کے درمیان رابطے قائم ہیں اور گزشہ برس پولینڈ میں پیوٹن اور اُن کے امریکی ہم منصب، ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بات چیت بھی ہوئی۔ گرچہ ان پابندیوں کا نتیجہ کسی جنگ کی صُورت نہیں نکلا، لیکن ان کے سبب پیوٹن کا رُوس کو ایک مرتبہ پھر عالمی طاقت بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔

اقتصادی پابندیاں، موجودہ دَور کا موثر ترین ہتھیار
کِم جونگ اُن

دوسری جانب شمالی کوریا اور ایران پر ان کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے اقتصادی پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔ شمالی کوریا 1952ء میں ایک علیحدہ مُلک کی حیثیت اختیار کرنے کے بعد سے امریکا کے ساتھ تنازعے میں اُلجھا ہوا ہے اور اس کا ایک سبب اس کا کمیونسٹ نظریے کا حامی ہونا بھی ہے۔ گو کہ اب کمیونزم کا وجود باقی نہیں رہا، سوویت یونین، رُوس بننے کے بعد اسے خیر باد کہہ چُکا ہے اور چین نے بھی اوپن مارکیٹ اکانومی کو اپنا لیا ہے، لیکن شمالی کوریا کے حُکم ران تین نسلوں بعد بھی نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے مُلک کو سوشلسٹ مُلک کہتے ہیں۔ شمالی کوریا کے اپنے پڑوسی مُلک اور امریکا کے حلیف، جنوبی کوریا سے مذاکرات کا سلسلہ کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ہی منقطع ہو جاتا ہے۔ پیانگ یانگ ایک بڑی فوج اور ایٹمی میزائل پروگرام کا حامل مُلک ہے اور اس کے موجودہ حُکم راں، کِم جانگ اُن نے، جو مُلک کے بانی، کم ال سِنگ کے پوتے ہیں، 2017ء میں ایٹمی تجربات میں تیزی لاتے ہوئے ہائیڈروجن بم کے تجربے تک کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اسی عرصے میں شمالی کوریا نے ایک میزائل جاپان کے سمندر میں بھی پھینکا، جس کے نتیجے میں اقوامِ متّحدہ نے شمالی کوریا پر سخت اقتصادی پابندیاں عاید کر دیں۔ اس مرتبہ چین اور رُوس نے بھی اپنا ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا، بلکہ چین نے عالمی برادری کی ہم نوائی کرتے ہوئے خود بھی شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں عاید کر دیں۔ چُوں کہ چین دُنیا میں شمالی کوریا کا واحد تجارتی شراکت دار ہے، اس لیے پیانگ یانگ نے اس کے سامنے گُھٹنے ٹیک دیے اور 2018ء میں امریکا سے بات چیت پر آمادہ ہوا۔ اب تک کِم جونگ اُن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دو ملاقاتیں ہو چُکی ہیں اور وہ بہ ظاہر اپنے ایٹمی پروگرام سے تائب اور اپنے مُلک کو نیوکلیئر فری زون بنانے پر آمادہ ہیں، لیکن اس وقت شمالی کوریا کے عوام جس اقتصادی و معاشی تباہی سے دو چار ہیں، اس کی مثال شاید دو چار ممالک ہی میں ملتی ہے۔ وہ تجارت کر سکتے ہیں، نہ بیرونی سرمایہ کاری اور نہ ہی انہیں مالی امداد ملتی ہے، جب کہ ان کے اپنے وسائل بہت محدود ہیں، جب کہ اس کے برعکس جنوبی کوریا کا شمار دُنیا کے ترقّی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے اور وہ شمالی کوریا کی مدد کرتا ہے۔ جنوبی کوریا ایشین ٹائیگرز میں شامل ہے اور دُنیا بَھر میں اس کی ٹیکنالوجی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

اقتصادی پابندیاں، موجودہ دَور کا موثر ترین ہتھیار
حَسن روحانی

ایران پر گزشتہ تین عشروں سے اقتصادی پابندیاں عاید ہیں۔ خمینی انقلاب کے بعد اس کے تعلقات مغربی ممالک سے خراب ہوئے اور پھر زیادہ تر ممالک سے سفارتی تعلقات بھی منقطع ہو گئے۔ تاہم، ایران پر بڑے پیمانے پر سخت نوعیت کی اقتصادی پابندیاں اُس وقت عاید کی گئیں کہ جب اُس نے اپنے جوہری پروگرام کا آغاز کیا۔ عالمی طاقتوں کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی یورینیم کی افزودگی کا ہے، جس سے ایٹم بم تیار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایران اس دعوے کو مسترد کرتا اور اپنے ایٹمی پروگرام کو پُر امن قرار دیتا ہے۔ بہرکیف، سابق ایرانی صدر، احمدی نژاد کے دَور میں یہ پابندیاں سخت ترین ہو گئی تھیں۔ 2012ء میں حَسن روحانی صدر منتخب ہوئے، جن کا منشور ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں سے مذاکرات اور پابندیوں کو ختم کروانا تھا، کیوں کہ اُس وقت تک بے روزگاری اور مہنگائی نے ایرانی عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا اور وہ اتنے بے زار تھے کہ انہوں نے ایک مرتبہ نہیں، بلکہ دو مرتبہ حَسن روحانی اور ان کی ٹیم کو منتخب کیا۔ اوباما کے دَورِ صدارت میں امریکا نے لچک دکھائی اور ایران نے اعلیٰ سفارت کاری کا مظاہرہ کیا۔ اس دوران عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان 2015ء میں ایک جوہری معاہدہ ہوا، جس کے تحت ایران کے منجمد اکائونٹس بحال ہو گئے اور اس کے بدلے اپنے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا وعدہ کیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران پر عاید اقتصادی پابندیاں اُٹھا لی گئیں اور وہ تجارت بالخصوص تیل کے لین دین میں واپس آ گیا اور اس کی معیشت تیزی سے بحال ہونا شروع ہو گئی۔ بعد ازاں، ایران نے مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں فوجی و سیاسی طور پر مداخلت شروع کر دی۔ بالخصوص شام میں اس نے صدر، بشار الاسد کا ساتھ دیا اور امریکا اور اس کے عرب حلیفوں کے خلاف جنگ لڑی۔ نیز، بشار الاسد نے بہ ظاہر ایران اور رُوس کی پُشت پناہی کی وجہ ہی سے جنگ میں فتح حاصل کی، لیکن امریکا، ایران کی اس پیش رفت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ نتیجتاً، ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس نومبر میں امریکا کو جوہری معاہدے سے الگ کر لیا اور ایران دوبارہ امریکی پابندیوں کی زد میں آ گیا۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کی تیل کی پیداوار گر چُکی ہے اور ساتھ ہی امریکا، ایران کی پیرا ملٹری فورس، پاس دارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر بھی پابندی عاید کر چُکا ہے۔ اسی طرح ایک امریکی ڈالر سرکاری طور پر 1,65,000ایرانی ریال کا ہو گیا ہے۔ ایرانی ریال کی قدر گرنے اور مہنگائی کی وجہ سے ایرانی عوام شدید مشکلات سے دو چار ہیں اور اس صورتِ حال نے ایرانی صدر، حَسن روحانی اور وزیرِ خارجہ، جواد ظریف کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اقتصادی پابندیوں سے نجات دلائی جائے۔

اقتصادی پابندیاں، موجودہ دَور کا موثر ترین ہتھیار
ولادی میر پیوٹن

آج اقتصادی پابندیاں ایک مؤثر ترین جنگی ہتھیار بن چُکی ہیں۔ پہلے جب یہ ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا، تو پابندی کی زد میں آنے والے ممالک ان کے اثرات سے برسوں تک محفوظ رہتے تھے، کیوں کہ اس وقت دُنیا امریکا کی قیادت میں سرمایہ دارانہ بلاک اور سوویت یونین کی زیرِ قیادت سوشلسٹ بلاک میں تقسیم تھی، لیکن اب زیادہ تر پابندیاں بین الاقومی رائے عامّہ کے تحت لگائی جاتی ہیں۔ رُوس، ایران اور شمالی کوریا پر سلامتی کائونسل کی قرار دادوں کی روشنی میں اقتصادی پابندیاں عاید کی گئی ہیں اور ان کی پابندی ہر مُلک پر لازم ہے، وگرنہ وہ بھی ان کی زد میں آ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے بھی، جو ایران کا قریبی حلیف ہے، ایران سے تیل کی خریداری کا سلسلہ روک دیا ہے، حالاں کہ وہ چاہ بہار پورٹ میں اس کا پارٹنر ہے۔ اس ضمن میں قریبی دوستی کے باوجود چین کی طرف سے شمالی کوریا پر پابندیوں سے اتفاق بہترین مثال ہے۔ دوسری جانب انٹرنیٹ کی بہ دولت پابندیوں کی زد میں آنے والے ممالک کے عوام کی صورتِ حال جلد ہی دُنیا کے سامنے آ جاتی ہے اور ان ممالک کی حکومتوں کو دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ مذاکرات پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ عالمی نظام کا حصّہ ہونے کی وجہ سے بھی ان پابندیوں کے غیر معمولی اثرات رونما ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کسی مُلک پر پابندی عاید ہوتی ہے، تو تمام کثیر القومی کمپنیز کو بھی ان پر عمل کرنا پڑتا ہے اور وہ کسی بھی صورت اپنے مفادات قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ اس سلسلے میں امریکا کی ایران پر حالیہ پابندیوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ گرچہ یورپ نے ان سے خود کو الگ رکھنے کی کوشش کی، لیکن ملٹی نیشنل کمپنیز کی وجہ سے اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی ان پابندیوں کو قبول کرنا پڑا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی مُلک پر عاید عالمی اقتصادی پابندیاں اُس کے گرد فوجی محاصرے سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پیشِ نظر عالم گیریت کا مقصد بھی یہی ہے۔

تازہ ترین