• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا بھر میں بھورے پن کی بیماری سے آگہی کا دن منایا جارہا ہے۔ ہر سال 13جون کو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ بھورے پن کی بیماری (سورج مکھی یا برصیت) میں مبتلا لوگوں کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے اوران سے کسی قسم کا معاندانہ روّیہ نہ رکھا جائے کیونکہ بیشتر معاشروں میں بھورے پن اور پھلبہری جیسے جِلد ی امراض میں مبتلا افراد کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتاہے اور انہیں وہ عزت نہیں دی جاتی، جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

پگمنٹ کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس مرض میں بال سفید اور جِلد دُودھ کی طرح سفید ہو جاتی ہے۔ ویسے تو اس کو ایک موروثی مرض میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اگر ماں باپ اس مرض کا شکار نہ بھی ہوں تب بھی پیدا ہونے والا بچہ اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں عموماً 15ہزار میں سے ایک بچہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔

بھورا پن کیا ہے ؟

بھورا پن ایک جینیاتی بیماری ہے، جس میں جِلد کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا شخص کے لیے دھوپ میں نکلنا محال ہوتا ہے اوراگر وہ زیادہ وقت سورج کا سامنا کریں تو انھیں مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

دراصل جِلدکے اندر ایک مادہ ’میلانن‘ جِلد کے رنگ کو ہلکا یا گہر ا کرنے کا باعث ہوتاہے، اگر یہ زیادہ ہوجائے تو رنگ گہرا اور کم ہو تو جِلد کا رنگ ہلکا ہو جاتاہے۔ بھورے پن کی بیماری میں جِلد کے اندر میلانن بنتا ہی نہیں، اس لیے اس کا رنگ دودھ کی طرح سفید یا گلابی نظر آتا ہے۔ بھورے پن کی بیماری صرف جِلد کو ہی نہیں، بالوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

بھورا پن ہونے کی وجوہات

سائنسی تحقیق کے مطابق یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ آیا یہ موروثی بیماری ہے یا نہیں، تاہم اس کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ موروثی ہونے کی صورت میں جِلد کا مدافعتی نظام کچھ ایسا پروٹین بناتاہے، جو جِلد کے مخصوص حصوں سے میلانن کو ختم کردیتاہےاور ایسے افراد بچپن ہی سے اس بیماری کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔

ایک اور تاثریہ ہے کہ جن لوگوں میں تھائیرائڈ ہارمون بڑھ جاتے ہیں یا ایڈرینل گلینڈ، کارٹیکو اسٹرائڈ کو کم کردیتاہے یا جسم میں وٹامن بی12کی کمی ہو جاتی ہے تو اس صورت میں بھی بھورے پن کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ آرتھرائٹس، ذیابطیس ٹائپ2یا مدافعتی نظام کی خرابی سے بھی یہ مرض ہوسکتا ہے۔

کیا بھورا پن چھوت کی بیماری ہے ؟

جی نہیں، یہ متعدی یعنی چھوت کی بیماری نہیں ہے، اس لیے اس مرض میں مبتلا افراد سے ڈرنے یا بچ کر رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خطرناک بالکل نہیں ، البتہ ماں باپ اگر اس بیماری میں مبتلا ہیں تو پیدا ہونے والے بچے پر اس کے اثرات ہو سکتے ہیں، تاہم یہ بات بھی حتمی نہیں ہے۔ اگر آپ کے اِرد گرد بھورے پن یا سورج مکھی جیسی بیماری میں مبتلا لوگ موجود ہیں تو ان سے دوستانہ رویہ اختیار کریں اور انہیں احساس نہ ہونے دیں کہ وہ آپ سے مختلف ہیں ۔ ایسا کرنے سے ان میں احساس کمتری ختم ہو گی اور وہ اپنے آپ کو ایک کارآمد شہری سمجھیں گے ۔

علاج و احتیاط

اگر اسٹیرائڈ کی کمی کے باعث بھورا پن یا پھلبہری ہوجاتی ہے تو مریض کو ڈاکٹر کی تجویز پر کچھ عرصے اسٹیرائڈ دیا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ کارٹیکو ایسٹرائڈ کریم بھی استعمال کی جاتی ہے یا ڈاکٹر کی ایما پر اس کی گولی بھی دی جاسکتی ہے۔ ایک اور طریقۂ کار الٹراوائلٹ شعاعوں کا ہے، جس سے جِلد کا علاج کیا جاتا ہے، اس عمل یا علاج کو فوٹو تھیراپی بھی کہتے ہیں۔ اس طریقے سے 60فیصد مریض صحت یا ب ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات مریض کو جِلد پر لگانے کیلئے ایسی ادویات بھی دی جاتی ہیں، جس سے جِلد کی رنگت بدلتی ہے مگر اس عمل سے صرف کچھ فیصد لوگوں کو ہی فائدہ ہوتاہے۔ لیزر سے بھی اس کا علاج ممکن ہے اور سرجری کے ذریعے بھی جِلد تبدیل کی جاسکتی ہے، تاہم یہ مہنگا طریقہ علاج ہے ۔

دوران علاج مچھلی کھانے سے پہلے اور مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے ہر حال میں اجتناب کرنا چاہیے۔ دیر سے ہضم ہونے والی یا کھٹی، اسپائسی غذائوں، سبز ترکاریوں اور خشک میوہ جات سے پرہیز کریں۔

بھورے پن کے شکار بچے اسکول اور اپنی کمیونٹی میں امتیازی سلوک سے دوچار رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک ضدی مرض ہے، اس لیے اس کے علاج کے سلسلے میں مریض کو بہت ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

نوٹ: کسی بھی قسم کا علاج ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ کریں اور ڈاکٹر کی ہی تجویز کردہ طریقہ یا ادویات استعمال کریں۔ 

تازہ ترین