• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ’ٹم‘ کا شمار دنیا کی پہلے درجے کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ ’ٹم‘ کے میتھمیٹک اور انفرمیٹک کے شعبہ میں ایک دلچسپ اور ہر ایک کی توجہ کا مرکز چیز ’ٹیوب سلائیڈز‘ ہے، جسے طلبہ و طالبات اور اساتذہ ہی نہیں ہر عمر اور صنف کی وزیٹرز بھی پسند اور خوشی سے استعمال کرتے ہیں۔


اس سلسلے میں کچھ کریدنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ جرمنی کی ریاست ’باواریا‘ کی جانب سے جرمن ثقافت اور روایات کو زندہ رکھنے کیلئے کسی بھی نئی تعمیرات کے کل بجٹ میں ایک فیصد آرٹ کیلئے مخصوص کرتی ہے، یعنی کسی بھی تعمیراتی منصوبہ میں کل بجٹ کا ایک فیصد آرٹ پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔

ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ کے اس شعبہ کی تعمیرات کی تکمیل تک کنٹریکٹر شاید منصوبہ میں آرٹ جیسی کوئی چیز تعمیرات میں شامل کرنا بھول گیا تھا لیکن جب اسے خیال آیا تو بلڈنگ کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر تین منزلہ عمارت میں ٹیوب سلائیڈز کا یہ عجوبہ شامل کردیا جو بعد میں ایک شاندار اور مقبول آئیڈیا کے طور پر سامنے آیا۔

یہ ٹیوب سلائیڈز ’ٹم‘ کے میتھمیٹک اور انفرمیٹک کے شعبہ کی تین منزلہ بلڈنگ کی آخری منزل سے ہاتھی کے سینگوں کی طرح دو طرف سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔

ان ٹیوبز کے اندر سے سلائیڈ کرنے والے کو مخصوص طرز کی ایک پلاسٹک شیٹ نیچے رکھنا ہوتی ہے جس کا مقصد سلائیڈ کرنے والے یا اس کے کپڑوں کو کسی گزند سے بچانا ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ سلائیڈ کرنے والے کے جسم پر موسم اثرانداز نہ ہو اور تیسرا یہ کہ پلاسٹک کی شیٹ کی وجہ سے سلائیڈ پر مخصوص پھسلن بنتی ہے اور رفتار بھی مخصوص ہی رہتی ہے۔

دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ پڑھنے کے دوران بوریت ہو تو طلبہ سلائیڈ انجوائے کرلیتے ہیں، اکثر استاد بھی اس کے ذریعے تیسری منزل سے کودتے ہیں۔

تیز ترین لفٹ اور سیڑھیوں کے نسبت تھرڈ فلور سے پلک جھپکتے نیچے پہنچنا ہو تو طلبہ سلائیڈ کا جادو استعمال کرلیتے ہیں۔ بچوں سے ملنے کیلئے آئے ہوئے والدین یا عام وزیٹرز بھی کثیرمنزلہ سلائیڈز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

جرمنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا معیار دنیا بھر میں اعلیٰ ترین ہے اور وہ بھی بالکل مفت۔ محض 136 یورو یعنی موجودہ پاکستانی 22 ہزار روپے ایک یونیورسٹی کے سیمسٹر کی فیس ہے جو نیا سمیسٹر شروع ہوتے وقت جمع کرانی ہوتی ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے اور معیار پر پورا اترنے والے طلبہ و طالبات کو جرمنی اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے بھر پور مواقع دیتا ہے۔

کسی بھی یونیورسٹی میں داخلے کی منظوری کے بعد طالبعلم کا جرمن بینک میں اکاؤنٹ کھلتا ہے جس میں والدین کو طالبعلم کے ایک سال کے اخراجات جمع کرانے ہوتے ہیں۔

جرمنی پہنچ کر بیشتر طالب علم وہ رقم بینک اکاؤنٹ میں ہی پڑی رہنے دیتے ہیں اور یہاں پہنچتے ہی کوئی کام بھی شروع کردیتے ہیں ورنہ ایک سال کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلبہ و طالبات کو زندگی کے شعبوں میں طبع آزمائی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے، یعنی ہر طالبعلم کوئی ٹیکس ادا کئے بغیر ہفتے میں 20 گھنٹے کی جاب کرکے اپنی اور تعلیمی اخراجات کی کفالت کرلیتا ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس ملک میں پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے والے طلباء و طالبات کی انتہائی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین